قوم کو یہ مژدہ ہو کہ مدارس کی اصلاح کے لیے دو کمیٹیاں مزید بنا دی گئی ہیں۔ انسانی یادداشت تو شاید اس کی متحمل نہ ہو سکے، کوئی کیلکولیٹر ہی بتا سکے گا کہ اب تک اس کارخاص کی بجا آوری کے لیے کتنی کمیٹیاں بنائی جا چکیں۔ وزیرِ داخلہ نے مکرر ارشاد فرمایا کہ مدارس اور علما نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شاندار کردار ادا کیا ہے۔ سادہ سا سوال یہ ہے کہ اگرکوئی بڑی شکایت نہیںہے تو یہ پے در پے کمیٹیاں کس لیے؟ ایسا غیر معمولی اجلاس کیوں جس میں وزیرِاعظم کے ساتھ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی شریک ہیں۔ ایک معمولی سی بات کے لیے اس سطح کے لوگوںکو زحمت دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ معمولی کام تو وزیرِداخلہ کے حکم پر، ان کی وزارت کا معمولی اہل کار بھی نمٹا سکتا تھا۔
خیر یہ امورِ جہاں بانی، ہم جیسے عامی کیا سمجھیں۔ بڑے دماغوں کا کام بڑوں ہی کے لیے چھوڑتے ہوئے میں ایک بات کو موضوع بنانا چاہتا ہوں جو اعلیٰ سطحی اجلاس سے چھن کر باہر آئی۔کہا گیا کہ جب اصلاح مطلوب ہے تو صرف مدارس ہی کی کیوں؟ پورے تعلیمی نظام کی کیوں نہیں؟ میرا خیال ہے جس نے بھی یہ بات کہی، اس کی بصیرت کی داد دینی چاہیے۔ یہ سچ ہے کہ اصلاح صرف مدارس کی نہیں، تعلیم کے سارے نظام کی ضرورت ہے۔ اگر یہ مقدمہ درست ہے تو پھر تعلیم کو ایک اکائی کے طور پر دیکھنا پڑے گا۔ پھر دینی اور دنیاوی کی تقسیم غیر ضروری ہے۔ پھر تو معاملے کا سارا تناظر ہی بدل جائے گا۔
مدارس کیوں ضروری ہیں؟ ہم سب جانتے ہیں کہ مدارس اُس علمی ورثے کی حفاظت کے لیے وجود میں لائے گئے تھے، انگریزوں کی آمد کے بعد، جس کے ضائع ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔ یہ خدشہ بے بنیاد نہیں تھا۔ مدارس نے اپنے ذمہ دو کام لیے۔ ایک یہ کہ ایسے علما تیار کیے جائیں جو روایتی علوم کے ماہر ہوں اور یوں اس روایت کو زندہ رکھیں۔ دوسرا یہ کہ سماج کی دینی ضروریات پوری کریں۔ مسلمان گھرانوں کو وہ معلم میسر آئیں جو ان کے بچوں کو دینی تعلیم دے سکیں۔ ان کی مساجد کو آباد رکھیں اور یہ کہ موت اور پیدائش سے متعلق دینی رسوم ادا کی جا سکیں۔ آزادی کے بعد لازم تھا کہ ریاست یہ ذمہ داری اٹھا لیتی۔ اس نے ایسا نہیں کیا۔ یوں یہ روایت نجی سطح پر برقرار رہی کیونکہ ضرورت باقی تھی۔ ریاست کی اس لاتعلقی نے مذہب کی ایک معیشت کو جنم دیا۔ یوں ایک طبقہ وجود میں آیا جس کی معاش اس سے وابستہ ہوگئی۔ 1979ء کے بعد جب ریاست کو افغانستان میں ایک معرکہ درپیش ہوا تو اس نے ان مدارس کو ایک نرسری سمجھا اور یوں ان کی مدد سے افغانستان کی جنگ کے لیے رضاکار تیارکیے اور وہ مبلغ بھی جو ریاست کے تصورِ جہاد کو پھیلا رہے تھے اور مزید رضاکار تیارکرنے میں ریاست کے مددگار تھے۔
اس کے نتیجے میں جو کچھ ہوا، اسے بارہا دہرایا جا چکا۔ قصہ مختصر کہ اب ریاست اس کام کو سمیٹنا چاہتی ہے، جسے اس نے1979ء کے بعد پھیلا دیا تھا۔ اس باب میں ریاست سے دو بنیادی غلطیاں ہوئیں۔ ایک تو یہ کہ آزادی کے بعد اس نے مسلم آبادی کی دینی ضروریات سے صرفِ نظرکیا۔ دوسرا یہ کہ افغانستان کی جنگ میں اس نے ان مدارس کے سماجی کردارکو یکسر تبدیل کردیا۔ پہلے ان کا کام سماج کی دینی ضروریات کی تکمیل تھا۔ اب انہیںریاست کے سکھائے ہوئے تصورِ دین کا مبلغ بنا دیا گیا اور ساتھ ہی رضا کاروں کی فراہمی کا کام بھی سونپ دیا گیا۔ ریاست ہی نے وہ ماحول فراہم کیا جس کے ذریعے، مذہبی سیاسی جماعتوں نے طلبا تنظیموں کے زیراہتمام، اس تصوردین کو جدید تعلیمی اداروں تک پہنچادیا۔ اب اس تصورِ دین کے مبلغ اور رضاکار دونوں طرح کے تعلیمی اداروں میں موجود تھے۔ افغان جنگ سے لے کر القاعدہ تک، سب کو زیادہ جاں نثار، جدید تعلیمی اداروں سے ملے۔ اس کے لیے اگر آج کسی مردِ دانا نے پورے نظامِ تعلیم کی اصلاح کی بات کی تو اس نے غلط نہیںکہا۔
اس خرابی نے چونکہ ریاست کی غلطی سے جنم لیا، اس لیے لازم ہے کہ وہی اس کو درست کرے۔ ایک تووہ سماج کی دینی ضروریات کی تکمیل کی ذمہ داری اٹھائے۔ دوسرا یہ کہ تعلیمی نظام کو ایک سمت دے اور اس سے دوئی کوختم کرے۔ میں اس کے لیے چند اقدامات تجویز کر رہا ہوں:
1۔ملک میں بنیادی بارہ سالہ تعلیم کا یکساں نظام قائم کیا جائے۔ تمام بچوں کے لیے یہ تعلیم لازم ہو۔
2۔بارہ سالہ تعلیم کے بعد تخصیص کا آغاز ہو۔ آج جس طرح میڈیکل، انجینئرنگ اور دوسرے شعبوں کے ماہرین تیارکرنے کے لیے خصوصی تعلیم کے کالجز قائم ہیں،اسی طرز پر دینی تعلیم کے ماہرین کی تیاری کے لیے ادارے قائم ہوں جہاں پانچ سال تک دین کی تعلیم دی جائے۔
3۔حکومت جس طرح ڈاکٹرز، انجینئرز کو ڈگری دیتی ہے اسی طرح دینی تعلیم کے ماہرین کو ڈگریاں جاری کرے۔ ان کو بھی اسی طرح تنخواہیں اور مراعات دی جائیں، جیسے دوسرے شعبے کے لوگوں کو دی جاتی ہیں۔
4۔مرکزی سطح پر ایک محکمہ قائم کیا جائے جو سماج کی دینی ضروریات کا خیال رکھے۔ مسجد، مکتب اور دیگر دینی ذمہ داریوں کے لیے افرادکا انتخاب کرے اور ان کی تعیناتی کرے۔اس کے لیے ترکی کے ادارے 'دیانت‘ کو مثال بنایا جا سکتا ہے۔
5۔ اس وقت جو دینی مدارس تخصص اور اعلیٰ تعلیم کی شہرت رکھتے ہیں،انہیں اسلامی یونیورسٹی کا درجہ دے دیا جا ئے۔ ان کا نظم بھی دیگر یونیورسٹیوںکی طرح ایچ ای سی کے پاس ہو۔ نجی سطح پراعلیٰ دینی علوم کے لیے یونیورسٹیاں قائم کر نے کی اجازت ہو جس طرح آج دیگر علوم کے لیے جامعات قائم ہو رہی ہیں۔
6۔ دیگر تمام مدارس کو بارہ سال کی عمومی تعلیم کے اداروں میں بدل دیا جائے۔ اساتذہ میں جو اہل ہیں،انہیں ریفرشرکورسزکرائے جائیں اورانہیں وہی سکیل دیے جائیں جو اس وقت دیگر اساتذہ کو دیے جاتے ہیں۔ جو اپنی تعلیم کو بہتربنانا چاہیں، انہیں اس کا موقع دیا جائے۔ عام اساتذہ کی طرح ان کی بھی تبدیلی اور ریٹائرمنٹ ہو۔
7۔تمام تعلیمی اداروں میں سیاسی اور مذہبی جماعتوںکا داخلہ ممنوع ہو،انہیں طلبا ونگز بنانے سے روک دیا جائے۔ اداروں کی انتظامیہ کو پابند کیا جائے کہ طالب علموں کی دینی اور دیگر ضروریات کا خیال رکھے۔ جیسے مسجد کا قیام اور مروجہ اخلاقی روایات کی حفاظت۔
8۔اتحاد تنظیمات المدارس کے ذمہ داران کی مشاورت سے اس سارے نظام کی تشکیلِ نو کی جائے اور اس کے لیے تدریج کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ جن مدارس کو عمومی تعلیم کے اداروں میں بدلنا ممکن نہ ہوانہیں مکتب بنا دیا جائے، جن کی حیثیت قبل از تدریس (Pre-Schooling) اداروں کی ہو۔
9۔ حکومت علما کی تائید حاصل کر نے کے لیے، یہ منصوبہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی مو جودگی میں ان کے سامنے رکھے۔ انشاء اﷲ برکت ہوگی۔
کیا یہ سب کچھ ہو جائے گا؟ میرا جواب ہے،'نہیں‘۔ اربابِ اقتدار اور بیوروکریسی میں یہ صلاحیت موجود نہیں۔ ان کی قوتِ پرواز ہم دیکھ چکے جو اسلام آباد کے نظامِ صلاۃ تک ہے۔ نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اس کام کے لیے سماج اور مذہب کا مطالعہ ضروری ہے۔ یہ اہلِ اقتدار کے نصاب میں شامل ہیں نہ افسر شاہی کے۔ اگر میں اس کو لاحاصل سمجھتا ہوں تو لکھ کیوں رہا ہوں؟ اس کا میرے پاس ایک ہی جواب ہے :وما علینا الاالبلاغ