آج اہلِ شام ہجرت پر مجبور ہیں۔کل افغان بھی اِسی طرح مجبور تھے۔لوگ آخر ہجرت کیوں کرتے ہیں؟ہجرت تاریخ کے بڑے المیوں کاایک عنوان کیوں ہے؟
تاریخ کے اوراق پر ثبت ہونے والا ہر واقعہ، سلسلۂ واقعات کی ایک کڑی ہے۔اِ ن واقعات کے مابین ایک ربط ہوتا ہے۔اگر کوئی یہ ربط دریافت کر سکے تو ایک تصورِ تاریخ وجود میں آتا ہے۔ممکن ہے یہ تصورغلط ہو لیکن اس میں شبہ نہیں کہ یہ کام بڑے لوگ کرتے ہیں۔بصورتِ دیگر تبصرہ کرنے والے ہر واقعے کو منفرد جانتے اور تاریخی شعور سے دور رہتے ہیں۔کارل مارکس ایک بڑا آ دمی تھا۔ہم اس کے تصورِ تاریخ سے، ادب کے ساتھ اختلاف کرتے ہیں لیکن اس کی بڑائی میں شبہ نہیں کرتے۔اقبال بھی اس کے تصورِ تاریخ کو نہیں مانتے مگر مارکس کو مانتے ہیں۔اُس نے اپنے عہد کے واقعات کو ایک تسلسل میں دیکھا۔ان کو ایک تعبیر کے تابع کیا۔تاریخ کی اس تعبیر نے ریاست اور سماج کے مروجہ تصورات بدل ڈالے۔آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں،جو اس تعبیر کو معتبرمانتے ہیں۔
بقا کی خواہش انسانی جبلت ہے۔اس معاملے میں وہ دوسرے حیوانوں سے ممتاز نہیں۔یہ خواہش اُسے ہجرت پر مجبور کرتی ہے۔اس کے ساتھ آزادی بھی اس کا جبلی مطالبہ ہے۔زنجیر، جسم کو پہنائی جائے یا ذہن کو، انسان کبھی گوارا نہیں کرتا۔انسانی تاریخ میں ہجرتیں انہی دو مطالبات کے تحت ہو ئی ہیں۔مادی بقا‘ یا آزادی۔دریاؤں کے کنارے انسانی آبادیوں کا وجود اسی لیے دکھائی دیتا ہے کہ پانی ہمیشہ زندگی کی علامت رہا ہے۔لوگ زندگی کی تلاش میں دریاؤں کے قریب آ بسے۔ یوں انسانی تہذیب دریاؤں کے کنارے آگے بڑھتی رہی ،یہاں تک کہ انسانی ذہن نے دوسرے مقامات پر اپنی بقا کا سامان تلاش کر لیا۔دریائے سندھ کا بل کھاتاکنارہ بھی اسی طرح ایک تہذیب کی کہانی سناتا ہے۔
فکری اور ذہنی آزادی کے لیے مسلمانوں نے اپنے دورِ اوّل میںدو ہجرتیں کیں۔ایک حبشہ کی جانب اور دوسری مدینہ کی طرف۔مکہ میں جب ان کی فکری آزادی سلب کر لی گئی توانہیں بادلِ نخواستہ اس شہر کو چھوڑنا پڑا۔اللہ کے آ خری رسول ﷺ نے ہجرت کے وقت جو الفاظ ارشاد فرمائے،وہ اُن کے داخلی کرب کا غیر معمولی اظہار تھا۔ہجرت کے بعد جب مدینہ میں مسلمانوں کی ایک ریاست وجود میں آگئی تو پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں جہاد کی اجازت دی۔اس کی و جہ بھی بتائی کہ ا نہیں نا حق گھروں سے نکا لا گیا،صرف اس جرم پر کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب کہتے تھے(الحج39,40:22)۔اسلام نے ہر طرح کی آ زادی کوانسان کا بنیادی حق قرار دیا۔اُس کے قانونِ آ زمائش کی بنیاد ہی انسان کا یہ حق ہے۔آخرت میں وہ سزا و جزا کامستحق ہی اس آزادی کے باعث ہوگا۔اسلام اس معاملے میں اتنا حساس ہے کہ اس کے قانونِ جرم و سزا میں بھی لونڈیوں کے لیے آدھی سزا ہے کہ وہ اس حصار سے محروم ہو تی ہیں جو آزاد عورتوں کو میسر ہو تا ہے۔
امن ایک ایسی قدر ہے جو بقاکی ضمانت ہے ۔امن ہی سے روزگار کے مواقع میسر آتے ہیں۔امن جبر سے نہیں آتا۔امن خاموشی کا نام نہیں ہو تا۔خاموشی تو قبرستان میں سب سے زیادہ ہوتی ہے۔امن موت اور بھوک کے خوف سے آزادی کانام ہے۔امن انسان کے حق آزادی کو تسلیم کر نا ہے۔یہ آزادی جسمانی بھی ہے اور ذہنی بھی۔مجھے حیرت ہوتی ہے جب میں اپنے ارد گرد لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ کشمیر اور افغانستان کے لوگوں کو جبر سے آزادی دلانا چاہتے ہیں لیکن یہاں کسی کو فکری اور عملی آزادی کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ و ہ آزادی کے مفہوم سے واقف نہیں ہیں۔ان کے نزدیک کسی دوسرے کو توجبر کا حق نہیں لیکن اگر انہیں اختیار مل جائے تو وہ جبر کا پورا حق رکھتے ہیں۔
شام کے لوگ یورپ کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔چالیس لاکھ در بدر ہو چکے۔پانچ لاکھ کے قریب یورپ کی سرحدوں پر کھڑے ہیں۔یورپی یونین نے رکن ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار پناہ گزینوں کو کوٹے کے تحت اپنے ہاں جگہ دے۔ہنگری، سلواکیہ اور بعض دوسرے ممالک کے ساتھ،بر طانیہ کو بھی اس سے اتفاق نہیں۔ جرمنی البتہ ایک سال میں آٹھ لاکھ افراد کو پناہ دے رہا ہے۔اس کے متنوع اسباب ہیں جواس وقت میرا موضوع نہیں۔ہنگری کا وزیراعظم اس لیے اپنے ملک کے دروازے بند رکھنا چاہتا ہے کہ اس کے نزدیک، آنے والے مسلمانوں سے ہنگری کی مسیحی شناخت کو خطرہ ہے۔ اس کے برخلاف ،پوپ فرانسس نے یورپ کے کیتھولک اہلِ کلیسا سے کہا ہے کہ وہ مسیحی عبادت گاہوں کے درواز ے مسلمان پناہ گزینوں کے لیے کھول دیں۔عالمی سطح پرمذہب کا سیاسی کردار بھی آج میرا موضوع نہیں۔اس لیے میں اس با ت کوامرِ واقعہ کے طور پر بیان کرتے ہوئے،بنیادی سوال کی طرف لوٹتا ہوں کہ اہلِ شام کیوں گھروں سے نکل رہے ہیں؟ لوگ ہجرت کیوں کرتے ہیں؟ آج دنیا کے ہر آ دمی کی یہ خواہش کیوں ہے کہ وہ مغرب کے کسی ترقی یافتہ ملک کا شہری بن جائے؟ہجرت کا رخ مغرب کی طرف کیوں ہے؟
میرا خیال یہ ہے کہ مغرب نے بڑی حد تک وہ سماج قائم کر دیا ہے جہاں امن کو بنیادی قدر کی حیثیت حاصل ہے۔جہاں انسان کی جسمانی اور ذہنی آزادی کوبطور قدر مستحکم کر دیا گیا ہے۔وہاں انسان کو موت اور بھوک کے خوف سے ممکن حد تک آزاد کر دیا گیا ہے۔یہی سبب ہے کہ ہر آدمی کی ہجرت کا رخ آج مغرب کی طرف ہے۔ جب ہم مغربی معاشرے کی بات کرتے ہیں تو اس سے مغرب کے استعماری کردار کی نفی مقصود نہیں۔یہ ایک بدیہی بات ہے۔اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ آج اگر شام اور کل افغانستان کے لوگ ہجرت پر مجبور ہوئے تو اس کی ذمہ داری امریکہ اور مغرب پر ہے۔مشرقِ وسطیٰ میں اگرکسی نے فساد کی بنیاد رکھی تو وہ برطانیہ اور امریکہ ہیں۔آج سوال اٹھتا ہے کہ صدام حسین کا عراق زیادہ پرامن تھا یا آج کا عراق؟قذافی کا لیبیا زیادہ پرامن تھا یا آج کا لیبیا؟ ان دونوں نے بھی انسانی آزادی کو سلب کیا۔مغرب نے لیکن اس کا جو متبادل دیا، وہ اس سے بھی بدتر ثابت ہوا۔
اس ہجرت کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ مسلمان معاشرے اپنے شہریوں کو امن دے سکے نہ آزادی۔انہیں موت کے خوف سے آزاد کر سکے نہ بھوک کے اندیشے سے۔کہیں بادشاہتیں ہیں اور کہیں آ مریتیں۔جہاں ریاست جبر نہیں کرتی وہاں غیر ریاستی عناصر جبر کر رہے ہیں۔کوئی جان کے خوف سے ہجرت کر رہاہے اور کوئی بھوک کے خوف سے۔بد امنی ہے اور فتنہ۔فتنہ بمعنی مذہبی جبر(persecution)جسے قرآن مجید نے قتل سے شدید تر قرار دیا ہے۔شام میں، مارچ 2011ء کے بعدسے اب تک، تین لاکھ بیس ہزار افراد مار ڈالے گئے۔ایک شخص اقتدارچھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور دوسرے فساد کے ذریعے اسے ہٹانا چاہتے ہیں۔افسوس یہ ہے کہ ایک کا پشت بان ایک مسلمان ملک ہے اور دوسرے کا حامی و ناصر ایک دوسرا مسلمان ملک۔مرنے والے بھی مسلمان ہیں۔یمن اورلبنان میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔اس کے بعد اگر عام مسلمان اپنے آبائی ملکوں کو چھوڑ کر یورپ اور امریکہ کے دروازے پر دستک دے رہا ہے تواس کا سبب اس کی جبلت ہے۔
یہ واقعات ہمیں بتا تے ہیں کہ تاریخ میں ہجرت کیوں ہوتی ہے۔یہ با ت تب سمجھ میں آئے گی جب ہم یہ جانیں گے کہ تاریخ کے صفحات پر ثبت ہونے والا ہر واقعہ ایک سلسلۂ واقعات کی کڑی ہے۔اس سے آپ کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ ہمارے ہاں ہر کوئی امریکہ کو گالی دینے کے باوجود، امریکہ ہی میںکیوں رہنا چاہتا ہے۔