2 اکتوبرڈاکٹر فاروق خان کا یومِ شہادت ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف برسرِ زمین نہیں لڑی گئی،ایک معرکہ فکری محاذ پر بھی برپا ہوا۔ وہ اس محاذ کے پہلے فاتح شہید ہیں۔کتنے لوگ ہیں جنہیں اس کی خبر ہے؟
دہشت گردی کا ظہور اسلحہ بردار جتھوں ہی کی صورت میں نہیں ہوا۔ یہ پہلے ایک دینی استدلال کے ساتھ نمودار ہوئی۔ اسلام کی محترم و مقدس اصطلاحات کی ایک تعبیرِ نو ہوئی۔ آیات و احادیث کو نئے معانی پہنائے گئے۔ ہم جہاد کی ایک نئی فقہ سے متعارف ہوئے۔ پہلی بار مسلمانوں کو بتایا گیا کہ جہاد ریاست اور نظم اجتماعی کے بغیر بھی ہو تا ہے۔ مسلم ریاستوں کی قیادت ہی کونہیں، عام مسلمانوں کو بھی مرتد قراردیا گیا جو ریاست کے ماتحت کسی ادارے کے ملازم ہیں۔ یوں مسلمان ملک قتل گاہوں میں تبدیل ہونے لگے۔ پاکستان کی ریاست اور عوام بطور خاص ہدف بنے۔ اس ماحول میں علما مہر بلب تھے۔ ہر طرف سکوت کا عالم تھا۔ خوف اور دہشت کی اس فضا میں،لاہور کے ایک خلوت کدے میں ایک چراغ روشن تھا۔ اس کی روشنی میں لکھا جا رہا تھا کہ کیسے قرآن وسنت کی تعلیم مسخ ہو رہی ہے۔کیسے مسلمانوں کو ایک ایسی راہ پر ڈالا جا رہا ہے جس کا انجام بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ پھر ہم نے دیکھا کہ اس چراغ کی لَو سے ایک شخص اپنا چراغ روشن کرتا اور زبانِ حال سے اعلان کرتا ہے کہ وہ اس کی روشنی کو عام کرے گا۔ محراب و منبر میں علما کو متوجہ کرے گا۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات کے صفحات کو اپنے ہتھیار بنائے گا اور اُسے خدا نے ابلاغ کی جو بے پناہ صلاحیت بخشی ہے، اس روشنی کو عام کرنے کے لیے، وہ اُسے وقف کر دے گا۔
وہ ایسا کر گزرا۔ احباب نے کہا جان کو خطرہ ہے۔کہا جان جس نے دی ہے، وہ اسے اپنی راہ میں قبول کرتا ہے تو یہ سعادت ہے۔ اللہ نے وسائل سے نوازا تھا، مسلح گارڈز رکھ سکتا تھا، اس نے مگرگریزکیا۔ وہ شہر شہر تنہا محوِ سفر رہا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ کسی کا مخالف نہیں، وہ تو اپنے اُن بھائیوں کا خیر خواہ ہے جو ایک غلط راستے پر چل پڑے ہیں۔ ایک ہمدرد کوکوئی کیوں مارے گا؟ مگر اُس نے فراموش کیا کہ پہلا وار تو خیر خواہوں پر ہوتا ہے۔ اللہ کے پیغمبروں سے بڑھ کر انسانوں کا خیر خواہ کون ہو سکتا ہے۔ ان میں سے کسی کویہ لوگ اپنے تئیں مصلوب کردیتے ہیں اور کسی کو ہجرت پر مجبور۔ پیغمبروں کی راہ پر چلنے والوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے۔ اب بھی ایسا ہی ہوا۔ لوگوں نے دیکھا کہ شاگرد مصلوب ہوگیا اور استاد مہاجر بن گیا۔ وہ مگر فاتح شہید تھا۔ اس فکری محاذ پر اسے شکست دینا ممکن نہ ہو سکا، اس لیے تو مارڈالا گیا۔ ہم جیسوں نے اُن کی شہادت پر بھی عرض کیاتھا کہ فکر، استدلال سے مرتی ہے، صاحبِ فکرکو مارنے سے نہیں۔ آج مسلم دنیاکے اہلِ علم نے مان لیا کہ درست با ت وہی تھی جو شہید اور اس کا استاد کہہ رہے تھے۔ کوئی اس کو سمجھنا چاہے تو علامہ یوسف القرضاوی کی سولہ سوصفحات پر مشتمل 'فقہ الجہاد‘ کو پڑھ ڈالے:
ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیض ،گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے
فکری محاذکے اس پہلے شہید کا نام آج کسے یاد ہے؟ کتنے لوگ ڈاکٹر فاروق خان کو جانتے ہیں؟ ان کی یاد میں کتنے مضامین اور کالم لکھے گئے؟ کسے معلوم ہے کہ اس نے نظری محاذ پر کتنا بڑا معرکہ لڑا؟ دین کے نام پر پھیلے گمراہ خیالات کی غلطی کو کیسے دلیل کے ساتھ اوردعوتی اسلوب میں بیان کیا؟ کیا ہمارے رائے ساز جانتے ہیں کہ خود کُش حملوں کے لیے تیار کیے جانے والے بچوں کی نفسیاتی بحالی کا کام، سب سے پہلے کس نے شروع کیا؟ اس باب میں پاک فوج کی علمی، نفسیاتی اور عملی معاونت کس نے کی؟ سوات میں نوجوانوں کو کلاشن کوف کی جگہ کتاب دینے کا عزم کس نے کیا؟ سوات میں پہلی یونیورسٹی کی بنیاد رکھنے والا کون تھا؟ وہ سخاوت کا کیسا دریا تھا جس کی موجیں ہمیشہ متلاطم رہیں؟ اگر کوئی نہیں جانتا ہے تو اس کے اسباب کیا ہیں؟
یہ اسباب تین ہیں۔ یہاں لوگ عصبیت کی بنیاد پر یاد رکھے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی، خاندانی، نسلی اور مسلکی عصبیتیں ہیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے شہدا کو یاد رکھتا ہے، بلکہ اس کے نزدیک شہید ہوتا ہی وہی ہے جو اس کے گروہ اور مسلک کا ہو۔ میں نے علما کی تحریریں پڑھی ہیں جو شاہ اسماعیل شہید کو 'شاہ اسماعیل قتیل‘ لکھتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ اُن کے مسلک کے نہیں تھے۔ ڈاکٹرفاروق خان کسی عصبیت کے نمائندہ نہیں تھے۔ وہ اگر دیوبندی نہیں تھے تو دیوبندی انہیں کیوں یاد کریں؟ اگر بریلوی نہیں تھے وہ کیوں ان کا ذکر کریں؟ کیا ان کے اپنے اپنے شہدا کم ہیں؟ اسی طرح اگر وہ کسی سیاسی جماعت کے کارکن نہیں تھے تو سیاسی جماعتیں انہیں کیوں یاد کریں؟
دوسرا سبب یہ ہے کہ ریاست نے ان کی خدما ت کا اعتراف نہیں کیا۔ اس کے ہاں شہید وغازی کی جو تعریف ہے، وہ شاید اس پر پورا نہیں اترتے۔ ریاست کے سوچنے کا اپنا ایک زاویہ ہے۔ پھر حکومت کسی سیاسی جماعت کی ہو تو اسے برسرِ اقتدار آنے کے بعد صرف اپنے شہید یاد رہتے ہیں۔ ان کے نام پر ہسپتالوں اور تعلیمی اداروںکے نام رکھے جاتے ہیں۔ ایک تجویز سامنے آئی تھی کہ سوات یونیورسٹی کو ڈاکٹر فاروق خان سے منسوب کردیاجائے۔ وہ اس کے بانی وائس چانسلر تھے اور دہشت اورخوف کی فضا میں انہوں نے اس وقت یہاںعلم کا چراغ جلایا تھا جب سوات میں قدم رکھنا محال تھا۔ انہوں نے وہاں ڈیرے ڈال دیے۔ اس تجویز کومگر کسی نے مان کر نہیں دیا۔ عمران خان کی حکومت نے بھی انہیں یاد نہیں رکھا حالانکہ ڈاکٹر صاحب نے اُس وقت اُن کا ساتھ دیا تھا جب تحریک انصاف کے بارے میں یہ گمان ہی محال تھا کہ کبھی اقتدار کی دہلیز تک پہنچ سکتی ہے۔
تیسرا سبب سب سے اہم ہے۔ کسی کو یہ اندازہ ہی نہیں ہے کہ اس جنگ میںفکری محاذ کی اہمیت کیا ہے؟ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف مسلح گروہوں کو ختم کرنے سے نہیں جیتی جا سکتی۔ دہشت گردی جب تک فکری محاذپر شکست نہیں کھاتی، اُسے ہتھیار اٹھانے کے لیے نئے دست و بازو ملتے رہیں گے۔ آج ریاست سے لے کر عام آدمی تک، کسی کو اس بات کا ادراک نہیں ہے، الا ماشااللہ۔ متبادل بیانیہ کی بات تو ہوئی لیکن اس محاذ پر ایک انچ کی پیش رفت نہیں ہے۔ حکومتی حلقوں میں اس کا کہیں گزر نہیں۔ جنہیں ہم اہلِ دانش کہتے ہیں،ان میں سے بعض اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں لیکن ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جوابی بیانیہ مرتب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ کام وہی کر سکتا ہے جو دین کو جانتا ہے اور سماج کو بھی۔ اہلِ دانش کا یہ حلقہ دینی علوم سے بے خبر ہے۔ یوں اس محاذ پر لڑنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ عام آ دمی بھی یہ خیال کرتا ہے کہ مسلح گروہ نہیں رہیں گے تو امن آ جائے گا۔ کوئی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا کہ شجاع خانزادہ کو مارنے میں کتنے لوگ ملوث تھے اور کون کہاں پایا جا تا تھا۔ لوگ صرف اس خود کش کو جانتے ہیں جس نے خود کو اڑا دیا۔ اس فضا میں اگر کسی کو ڈاکٹر فاروق خان یاد نہیں آتے تو یہ قابلِ فہم ہے۔
ڈاکٹر فاروق خان جیسے لوگ، سید نامسیحؑ کے الفاظ میں، زمین کا نمک ہوتے ہیں۔ انہیں اس سے فرق نہیں پڑتا تو کوئی ان کو یاد کر تا ہے یا نہیں۔ خدا کے لیے جینے اور مرنے والے اس سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ وہ لوگوں سے اجر اور داد کے طلب گار نہیں ہوتے۔ سماج مگر ان کی اہمیت سے بے خبر ہوجائیں تو اس کا مطلب ہے کہ زمین اپنے نمک سے محروم ہو گئی ہے۔