اسلام اگر آج دنیا میںسب سے زیادہ زیرِبحث آنے والا مذہب ہے تو پوپ فرانسس، سب سے زیادہ موضوع بننے والی مذہبی شخصیت ہیں۔فرانسس کیتھولک مسیحیت کے پیشوا ہیں جو مسیحیت کا سب سے بڑا فرقہ ہے۔اس وقت دنیا میں ایک ارب بیس کروڑ ڈالر افراد اس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔اب انہیں امن کے نوبل انعام کے لیے بھی نامزد کر دیا گیا ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ وہ عالمِ مسیحیت کی ایک تاریخ ساز شخصیت ہیں۔انہوں نے مسیحیت کو عالمی سطح پر ایک موثرسیاسی و سماجی قوت بنانے کی کوشش کی ہے ۔ایک طرف انہوں نے چاہا کہ وہ مذہب کودورِ حاضر کی ایک موثرطاقت بنائیں اور اجتہاد کا دروازہ کھولتے ہوئے،ان لوگوں کو مسیحیت کی طرف واپس لائیں جو مذہبی اقدار سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔دوسری طرف وہ عالمی سیاسی و سماجی مباحث میں بھی مسیحیت کے نمائندے کی حیثیت سے شریک ہیں۔یوں سیکولرزم پر یقین رکھتے ہوئے بھی،انہوں نے اہلِ مذہب کے موثر سیاسی کردارکو نمایاں کیا ہے۔ان کا اپنا تعلق لاطینی امریکہ کے ایک ملک ارجنٹائن سے ہے۔انہوں نے امریکہ اور اس خطے کے مابین تعلقات کی بحالی میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔وہی فیڈرل کاسترو اور صدر اومابا کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنے۔ان کا خصوصی نمائندہ دونوں سے ملا اور یوں برف پگھلنے کا عمل شروع ہوا۔وہ خود بھی فیڈرل کاسترو سے ملے اور حالیہ دورہ امریکہ میںصدراوباما سے بھی۔وہ بائیں بازو کے خیالات کی شہرت رکھتے ہیں۔اس کا اظہار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ان کے خطاب سے بھی ہوا۔انہوں نے ترقی یافتہ ملکوں پر زور دیا کہ وہ ترقی پزیر ممالک کے بارے میں اپنے قرض کی پالیسی بدلیں جو غربت میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔
2013 ء میںاس منصب پر فائز ہونے کے بعد،انہوں نے سب سے پہلے غریب ممالک کا دورہ کیا۔اس ستمبر کے آخری ایام میں وہ پہلی مرتبہ امریکہ گئے۔غریب اور مظلوم لوگوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی ان کی حکمتِ عملی کا نمایاں جزو ہے۔انہوں نے فلسطین کی ریاست کو بھی تسلیم کیا جس پر صہیونی یہودیوں نے انہیں تنقید کا نشانہ بنا یا۔اسی طرح وہ سیاسی کے ساتھ سماجی امور پر بھی اپنا نقطہ نظر پیش کر رہے ہیں۔انہوں نے ماحولیات پرایک جاندارموقف اختیارکیا جس کی دنیا بھر میں پذیرائی ہوئی ۔اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت عالمی سیاست و معاملا ت میں وہ ایک موثر آواز کے طور پر موجود ہیں جسے نظر انداز کر نا مشکل ہے۔ مغرب میں اٹھنے والی تحریکِ اصلاحِ مذہب (Reformation)نے مذہب کو کچھ اس طرح دفاعی جگہ پر لا کھڑا کیا تھا کہ اس کی بقا کو خطرات لاحق ہوگئے تھے۔وہ مغرب کی اجتماعیت سے تو نکلا ہی تھا، فرد کی زندگی میں بھی اس کا کردار محدود سے محدود ر ہو تا جارہا تھا۔مغرب میں بسنے والاآج کا مسیحی،عملاً لامذہب ہو چکا۔میرا تاثر ہے کہ پوپ فرانسس نے نہ صرف اس عمل کوایک حد تک روک دیا ہے، بلکہ اب یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ عالمی سطح پر مذہب کے سیاسی و سماجی کردار میں اضافہ ہو۔ پوپ فرانسس،لیکن اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کے لیے مذہب کی تجدید ناگزیر ہے۔اسلام کی طرح مسیحیت کو بھی لبرل ازم کے چیلنج کا سامنا ہے۔ان کے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو کیسے واپس لائیں۔وہ مسیحی جو لبرل اقدار کو قبول کر چکے ہیں،کیسے دوبارہ مذہبی رویہ اپنا لیں۔ان کے سامنے دوراستے تھے۔ ایک یہ کہ ان سب کو مرتد قرار دے کر،ان کو غیر مسیحی،یا اپنے مذہبی تناظر میں 'کافر‘ کہتے ہوئے،ان سے اظہارِ برأت کر دیں۔دوسرا راستہ یہ تھا کہ وہ ان کے ساتھ اظہارِمحبت کریں۔ان کوقریب کرتے ہوئے،ا نہیں ایک بار پھر مسیحیت کے حصار میں لے آئیں۔پوپ نے دوسرا راستہ اختیار کیا ہے۔
پوپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مذہب کا اصل دائرہ سماج ہے۔یوں بھی سیکولرزم کوبطورقدر قبول کرنے کے بعد،یہی وہ میدان ہے جس میں مذہب کوئی کردار ادا کر سکتا ہے۔سماج چونکہ خاندان کی اکائی پر کھڑا ہے،اس لیے خاندان کو زندہ کیے بغیر مذہب کو ایک زندہ سماجی قوت نہیں بنا یا جا سکتا۔یوں خاندان کا ادارہ اس وقت اُن کی توجہ کا مرکز ہے جسے لبرل اقدار سے شدید خطرا ت لاحق ہیں۔گزشتہ سال، اکتوبر میں ،انہوں نے ویٹی کان میں ،اسی موضوع پر،کیتھولک راہنماؤں کا ایک اجتماع منعقد کیا۔اِن دنوں بھی اس نوعیت کا دوسرا اجلاس جاری ہے۔4 اکتوبر سے شروع ہونے والے اس بیس روزہ اجتماع میں دنیا بھر سے تین سو پادری شریک ہیں جو، امکان یہ ہے کہ تین بڑے مسائل پر غور کریں گے:
1۔ مسیحی روایت اور بعض ممالک کے قوانین میں طلاق(Divorce) اور علیحدگی(Annulment) میں فرق ہے۔یہاں تفصیل کا موقع نہیں، صرف یہ بات اس کالم کے موضوع سے متعلق ہے کہ علیحدگی اسی وقت مذہبی طور پر قابلِ قبول ہوتی ہے جب ایک مذہبی عدالت اس کی توثیق کرے اورفریق یا فریقین کوئی ایسا سبب بتائیں جسے چرچ علیحدگی کی جائزوجہ کے طور پر قبول کر لے ۔ اس کے بعدفریقین کو مذہبی طور پر یہ اجازت ہوتی ہے کہ وہ دوسری شادی کرسکتے ہیں اور وہ مذہبی تقریبات(Communion)میں شرکت کا استحقاق رکھتے ہیں۔اس وقت بڑی تعداد میں لوگ اس کا خیال نہیں رکھے۔وہ طلاق ہی پر اکتفا کرتے اور پھر دوسری شادی کر لیتے ہیں۔کلیسا کے سامنے ایک اہم سوال یہ ہے کہ ایسے لوگوں پرمذہبی اجتماعات سے دوری کی پابندی برقراررکھی جائے یا انہیں 'علیحدگی‘ کے بغیر بھی شرکت کی اجازت دی جائے؟پابندی کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے افراد کو کسی غلطی یا گناہ کے سبب کلیسا اور مذہبی ماحول سے دور کر دیا جائے۔
2۔ ہم جنسی یا ایک جنس کی شادی امریکہ سمیت بہت سے ممالک میں قانونی حیثیت اختیار کر چکی۔مسیحی روایت میں یہ قابلِ قبول نہیں۔مسیحیت کے لیے ایک سوال یہ بھی ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟اگر وہ ان کی مذمت کرتی ہے تو پھر اسے لبرل طبقے کی شدید تنقید کا سامنا کر نا پڑتا ہے جو اسے بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ سمجھتا ہے۔پوپ نے دورہ امریکہ میں کنٹکی کی ایک کلرک کم ڈیوس سے ملاقات کی جس نے ہم جنسوں کو شادی کا سرٹیفکیٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔قانون کی خلاف ورزی پر اسے چھ ماہ کی قید ہوگئی۔اس ملاقات کے خلاف ہنگامہ برپا ہو گیا۔توازن برقرار رکھنے کے لیے پوپ کو ایک ہم جنس جوڑے سے ملاقات کرنا پڑی۔
3۔ مغرب میں بہت سے جوڑے باقاعدہ شادی کے بغیر بھی ساتھ رہتے ہیں اور بعض اخلاقی پابندیاں قبول کرتے ہیں۔اسے سماجی اور قانونی سطح پر ایک جائز تعلق سمجھا جاتا ہے۔پوپ کے سامنے ایک سوال یہ بھی ہے کہ ان کے بارے میں چرچ کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔
بین المذاہب ہم آہنگی کے باب میں بھی پوپ فرانسس نے بعض اہم قدم اٹھائے ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے توہین آ میز خاکوں کو آزادی رائے سمجھنے سے انکار کیا۔جب فرانس میں چارلی ایبڈو کے عملے کا قتل ہوا تو انہوں نے کہا کہ جو میری ماں کو گالی دے گا اسے میرے گھونسے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔اسی طرح شام کے پناہ گزیں یورپ کے دروازے تک آئے تو انہوں نے تما م اہل ِ کلیسا سے کہا کہ ان کے لیے مسیحی عبادت گاہوں کے در کھول دیے جائیں۔
یہ مسیحیت کی دنیا میں نئے دور کا آ ٖغازہے۔میرا خیال ہے کہ اہلِ اسلام کو درپیش چیلنج بھی اس سے مختلف نہیں۔کیا اہلِ اسلام میں اس سطح کا سوچ بچار کہیں دکھائی دیتا ہے؟پھر یہ کہ کیا بنیادی مذہبی اقدار پر، مذاہبِ عالم، بالخصوص ابراہیمی ادیان میں اشتراک اور تعاون کی کوئی صورت ہو سکتی ہے؟میرا خیال ہے کہ عالمی ا من اب اس سوال کے جواب سے وابستہ ہے۔