جس مذہبی انتہا پسندی نے پاکستان کو فساد کا گھر بنا دیا،اب بھارت کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں اجتماعی عروج و زوال کے لیے فطرت کا ایک قانون ہے جس کا اطلاق ہر مذہب کے ماننے والوں پر یکساں ہوتا ہے۔الہامی ہدایت کی روایت میں یہ اللہ کی سنت ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔
جس' بٹوارے‘ کا صدمہ ہندو انتہا پسندوں کو چین نہیں لینے دیتا،ایک مقدمہ یہ ہے کہ اُس طرزِ عمل کا فطری نتیجہ ہے جوان کے آبائو اجداد نے اختیار کیا تھا۔ قائداعظم اور ان گنت لوگوںکی قلبِ ماہیٔت میں اسی سوچ کا دخل تھا۔فساد کو انسانی فطرت تادیر گوارا نہیں کر تی۔ وہ اِس کا کوئی نہ کوئی حل لازماً تلاش کرتی ہے۔ فساد عدم برداشت کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ انتہاپسندی اسی کا مظہر ہے۔مذہب جب حق پسندی کی بجائے گروہی عصبیت میں ڈھل جائے تو وہ دوسرے مذاہب کو برداشت نہیں کرتا۔ بدقسمتی سے آج ہر کسی کے لیے مذہب ایک عصبیت کا نام ہے۔اسی کا نتیجہ مذہبی اور مسلکی فسادہے۔راسخ العقیدہ مسلمان یا ہندو ہونا،سماجی اعتبار سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کر تا۔ مذہب مسئلہ اس وقت بنتا ہے جب انسان مذہب کی حقیقت سے بے خبر ہوکر ایک گروہی نفسیات میں جینے لگتا ہے۔تب وہ خود، ہر روز مذہبی روایت کو پامال کرتا ہے اور اسے احساس تک نہیں ہوتا۔ دوسرا کوئی یہی حرکت کرے تو وہ مشتعل ہو جاتا ہے۔کتنے ہندو ہیں جو عملاً گائے کو محترم جانتے یا ماں کی طرح اس کا احترام کرتے ہیں؟ لیکن مسلمان کے بارے میں انہیں شبہ بھی ہو جائے کہ اس نے گائے کی توہین کی ہے تو چڑھ دوڑتے ہیں۔کتنے مسلمان ہیں جو قرآن مجید کے احکام کا لحاظ رکھتے ہیں؟ لیکن قرآن کی بے حرمتی کی افواہ بھی پھیل جائے تو کسی تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھتے اورحافظِ قرآن کو زندہ جلا دیتے ہیں۔
بھارت کے مسلمانوں کا معاملہ پاکستان سے مختلف ہے۔وہ اقلیت ہیں۔وہاں کے مسلمان علما اور راہنماؤں کو بڑی حد تک اس کا احساس ہے۔ یہی سبب ہے کہ دارالعلوم دیوبند نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ گائے کے ذبیحہ سے پر ہیز کریں۔اس کی حکمت واضح ہے۔گائے کا گوشت کھانا جائز ہے لیکن فرض نہیں۔اگر فساد کا اندیشہ ہو تو ایک جائز کام سے بھی رک جا نا چاہیے۔پاکستان میں مسلمانوں کی تعداد 97 فیصد ہے۔ انہیں کبھی ان مسائل کا سامنا نہیں رہا جوایک اقلیت کو درپیش ہو تے ہیں،اس لیے یہاں لوگ اپنے حالات پر قیاس کرتے ہوئے مشتعل ہوجاتے ہیں۔ پھر یہاں ایسے گروہوں کی کمی نہیں جو اسی ذمہ داری پر مامور ہیں کہ بھارت کے خلاف نفرت کو کبھی کم نہ ہونے دیں۔ ہندو انتہا پسندوں نے دراصل اُن کا کام مزید آسان بنا دیا ہے۔
ہم اس سے اتفاق کریں یا اختلاف، سچ یہ ہے کہ تقسیمِ ہند کی ایک قیمت ہے جو بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کو ہمیشہ ادا کرنی ہے۔ آج بھی ہم پڑھتے ہیں کہ تحریکِ پاکستان زیادہ تر ان علاقوں میں برپا ہوئی جو بھارت کا حصہ بنے۔وہاں بسنے والے سب مسلمان تو ہجرت نہیں کر سکتے تھے، جو وہاں رہ گئے، ان کی نسلیں اس ماضی سے جان نہیں چھڑا سکتیں کہ ان کے آبائو اجداد نے پاکستان بنوایا تھا۔ہندو اکثریت کی نفسیات میں یہ تیر ترازو ہے۔مو لا نا ابوا لکلام آزاد کو یہی غم کھائے جا رہا تھا کہ جو مسلمان بھارت میںرہ جائیں گے، وہ بے امان ہو جائیں گے۔ محمد اخلاق کی شہادت بتا رہی ہے کہ یہ نفسیات کیسے آج تک کار فرما ہے۔
یہ تاریخ کا جبر ہے، ہندو اور مسلمان دونوں اس میں مبتلا ہیں۔اس کی سب سے زیادہ قیمت سرحد کے دونوں اطراف رہ جانے والی اقلیتوں کو ادا کرنی ہے اور وہ کر رہی ہیں۔ہمارے ساتھ
ایک حادثہ یہ ہوا کہ دونوں ملکوں میں کوئی ایسی قیادت نہیں اٹھی جو اس خطے کے مکینوں کو تاریخ کے اس جبر سے نجات دلا سکتی۔نہ سیاست میں نہ علمِ سیاست میں۔ ایسے بہت آئے جنہوں نے انتہا پسندی کا کاروبار کیا۔اس تجارت کی کامیابی اس سے واضح ہے کہ نریندر مودی بھارت کے وزیراعظم ہیں۔ بھارت کے شہریوں نے گویا اپنی مرضی سے اپنا ہاتھ ایسے ہاتھ میں دے دیا جو بھارت کی سب سے بڑی اقلیت کے لہو سے رنگین تھا۔ جب کوئی قوم انتہا پسندوں کو اپنا راہنما مان لیتی ہے تو دراصل وہ اپنے ہاتھوں فساد کی بنیاد رکھ دیتی ہے۔فہمیدہ ریاض نے اہلِ بھارت کو طعنہ دیا ہے کہ وہ ہم سے مختلف نہیں نکلے۔میں اختلاف کی جسارت کرتے ہوئے یہ کہوں گا کہ ہم ان سے بہتر رہے۔ ہم نے مذہب کی باگ تو انتہا پسندوں کے ہاتھ میں دی لیکن انہیںسیاست سے دور رکھا۔ پاکستان میں وہی سیاسی جماعتیں اقتدار تک پہنچیں جو معتدل تھیں۔ یہ الگ بات کہ ان میں بے بصیرتی اور عزم کی کمزوری، مذہبی انتہا پسندی کو روکنے میں ناکام رہی۔
تاریخ کا پہیہ اب پیچھے کی طرف نہیں چل سکتا۔اس خطے کی دانش کو سوچنا ہے کہ فساد کا دروازہ کیسے بند کیا جا سکتا ہے۔بھارت میں انتہا پسندی بڑھے گی تو اس کے نتائج ماضی سے مختلف نہیں ہوںگے۔ وہاں رہنے والے مسلمانوں کو اگر دیوار سے لگایا جائے گا تو وہ ماضی کی طرح نیا پاکستان بنا نا چاہیںگے۔ہندو انتہا پسند یاد رکھیں کہ وہ پاکستان ہجرت کر کے نہیں آئیں گے۔ یہ ممکن بھی نہیں ہوگا۔ دوسری صورت آزاد ملک کا مطالبہ ہی رہ جائے گا۔پاکستان کے مسلمانوں کو سوچنا ہے کہ وہ بھارت کے مسلمانوں کی کیا مدد کر سکتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ وہ انہیں وہی مشورہ دیں جو انہیں قائد اعظم نے دیا تھا۔ وہ بھارت کے وفادار شہری بن کر رہیں۔ اس کے ساتھ یہاں کے مسلمان اپنی اقلیتوں کے ساتھ ایسا سلوک کریں کہ ان کا حسنِ خلق بھارت کے لیے عالمی شرمندگی کا باعث بنے۔آج دنیا میں اقلیتوں کے حوالے سے بھارت اور پاکستان کا ذکر ایک ساتھ ہو تا ہے۔ پھر یہ کہ پاکستان میں عوامی سطح پر بھارت دشمنی کو جتنی ہوا ملے گی، اس کی قیمت بھارت کے مسلمانوں کو ادا کر نا پڑے گی۔
یہ بھی طے ہے کہ پاکستان میں اگر مذہبی انتہا پسندی بڑھے گی تواس کا اثر لازماً بھارت کے مسلمانوں پر پڑے گا۔پاکستان میں ایسے لوگ کم نہیں ہیں جو بھارت اور ہندو مذہب کو مترادف سمجھتے ہیں۔یہ ایسے ہی ہے کہ بعض لوگ اسرائیل اور یہودی مذہب کومترادف سمجھتے ہیں۔یہودیوں میں بہت سے ایسے بھی ہیں جو اسرائیل جانا پسند نہیں کرتے۔ امریکہ میں یہودیوں کا ایک موثر گروہ ہے جواسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھاتا اور یہودی مذہب کی سیاسی تعبیر 'صہیونیت‘ کو رد کرتا ہے۔نوم چومسکی جیسا اسرائیل کا سب سے بڑا ناقد ایک یہودی ہے۔اسی طرح بھارت میں وہ ہندو ادیب بھی ہیں جو ہندو انتہا پسندی کے خلاف بطور احتجاج سرکاری ایوارڈ واپس کر رہے ہیں۔وہ بھی جو سر مجلس اپنا منہ کالا کرانا گوارا کر لیتے ہیں مگر مذہبی انتہا پسندی کے سامنے جھکنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ہم اگر بھارت اور ہندو مذہب کو الگ کر سکیں تو اس سے بھی بھارتی مسلمانوں کی مدد ہوگی۔
پاکستان کو آج اپنا امتیاز واضح کرنا ہے۔ بھارت اگر اپنی باگ مذہبی جنونیوںکے ہاتھ میں دے گا تو قانونِ قدرت کے تحت اس کی قیمت ادا کرے گا۔ہمارے لیے اس میں بہت سبق ہے، اگر ہم عبرت پکڑنے پر آمادہ ہوں۔ یہ دنیا آزمائش کا گھر ہے۔یہی الٰہی سکیم ہے۔ انسان کا تاریخی تجربہ یہ ہے کہ الٰہی سکیم کے ساتھ ہم آہنگی ہی میں بقا کا راز مضمر ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے اگر مذہب کے معاملے میں جبر نہیں کیا،تو ہم بھی بطور ریاست ایسا کر سکتے ہیں نہ بحیثیت فرد۔ جو خدا کی سکیم کے خلاف چلے گا،ایسے فرد اور گروہ کو اپنا انجام سوچ لینا چاہیے۔اللہ کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔