آج یومِ عاشور ہے۔خوف میں لپٹاہوا ایک دن‘ جوامن کی دعا کے ساتھ طلوع ہوا اور اسی دعا کے ساتھ ڈھل جائے گا۔
اسلا م کے ساتھ تین حادثے گزر گئے۔ایک یہ کہ اسے تزکیہ نفس کے بجائے،سیاسی عصبیت کی علامت بنا دیا گیا۔دوسرا یہ کہ اس کی باگ ان ہاتھوں میں چلی گئی جو نا اہل تھے،نیم خواندہ۔تیسرا حادثہ یہ ہوا کہ سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کے زیرِ اثر،مذہب جنس ِ بازار بن گیا۔اس کا ایک مظہر یہ ہے کہ میڈیا نے اسے شو بز کا ایک حصہ سمجھ لیا۔ اس کے دو نتائج واضح ہیں:اسلام ، مسلم دنیا میںکسی سنجیدہ تحقیق کا موضوع نہ بن سکا۔دوسرا یہ کہ مذہب اپنے اصل مقصد ،تزکیہ نفس سے لاتعلق ہو گیا۔اب یہ میرے لیے سب کچھ ہے مگر تذکیر اور تزکیہ کا عنوان نہیں ہے۔
شیعہ اور سنی مسلمانوں کے دو گروہ ہیں۔ایک ماخذپر ایمان مگر اِس کی دو مختلف تعبیرات پر یقین ۔یہ ایک سیاسی مسئلے سے پیدا ہو نے والا اختلاف تھا جس نے تاریخی عمل سے گزرتے ہوئے،ایک مذہبی اختلاف کی صورت اختیار کر لی۔رسالت مآبﷺ کے بعد یہ سوال اٹھا کہ آپ کا سیاسی جانشین کون ہوگا؟یہ مذہبی جانشینی کا سوال نہیں تھا۔سب جانتے تھے کہ آپﷺ کی دنیا سے رخصتی کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کا باب بند ہو گیا۔سورہ مائدہ کی آیت سب نے سن رکھی تھی کہ دین کی تکمیل ہوچکی۔اب دین میں کچھ داخل کیا جا سکتا ہے نہ خارج۔اس باب میں اختلاف کا تو کوئی سوال نہ تھا کہ اب اس امت کی اجتماعی ذمہ داری صرف حفاظتِ دین ہے۔دین مکمل ہوا ،تاہم اس پرغور وفکر کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہے گا کہ یہی فطرت کا تقاضا تھا۔
سقیفہ بنو ساعدہ میں مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے نمائندے بیٹھے اور اس سوال پر غور کیا کہ آپﷺ کا سیاسی جانشین کون ہوگا۔ استحقاق کی بات ہوئی اور سب نے اپنا مو قف پیش کیا۔سب کے دلائل سیاسی و عقلی تھے۔کسی نے اپنے موقف کی تائید میں کوئی دینی دلیل پیش نہیں کی۔اپنے حق میںکوئی آیت پڑھی نہ حدیث سنائی۔ آپ ﷺ کا ایک ارشادِ گرامی پیش کیا گیا کہ ''آئمہ قریش میں سے ہوں گے۔‘‘یہ ایک سیاسی حقیقت کا بیان تھا۔یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اقتدار سیاسی عصبیت سے باقی رہتا ہے اور اِس وقت عرب میں یہ عصبیت قریش کو حاصل ہے۔آپ کے اس ارشادِ مبارک کا یہی مفہوم اس اُمت نے سمجھا۔اس لیے جب سیاسی عصبیت کا ما خذ تبدیل ہوا توعلما نے بتایا کہ یہ اسلام کا کوئی دائمی حکم نہیں تھا۔جب بر صغیرمیں تحریکِ خلافت برپا ہوئی تو عثمانیوں کے خلاف کچھ لوگوں نے اس حدیث سے استدلال کیا۔مو لا نا ابو الکلام آزاد نے اس کے سیاق و سباق کو واضح کیا اور بعد میں مو لا نا مودودی جیسے اہلِ علم نے بھی اسی تعبیر کواختیار کیا۔
فیصلہ سید نا ابو بکر صدیق ؓ کے حق میں ہوا۔اگر کسی نے ا ختلاف کیا بھی تو مذہبی بنیاد پر نہیں،سیاسی یا سماجی دلیل کی بنیاد پر کیا۔تاہم امت کے اس اجتماعی فیصلے کو سب نے قبول کیا۔سید نا عثمانؓ کے عہد تک اس باب میں کوئی اختلاف نہیں ہوا۔سید نا علی ؓ جن کو بعض لوگوں نے منصبِ خلافت کے لیے فائق سمجھا، وہ خود حضراتِ شیخین کے سب سے معتمد مشیر اور ساتھی رہے۔سید نا عثمان ؓ کے عہد میں دوسرا سیاسی خلفشار پیدا ہوا۔یہ بھی ایک سیاسی مسئلہ تھا، دینی نہیں۔میرے علم میں نہیں کہ جنہوں نے حضرت عثمانؓ کے خلاف شورش برپا کی،انہوں نے کوئی دینی استدلال پیش کیاہو۔ سب الزامات سیاسی تھے۔سید علیؓ نے مخالفینِ عثمان کا ساتھ نہیں دیا۔وہ اس معرکے میں سید نا عثمانؓ کے ساتھ کھڑے تھے۔جب بلوائی خلیفہ راشد کی جان کے درپے ہوئے تو انہوں نے سیدناحسن ؓاور سیدنا حسینؓ کو ان کی حفاظت پر ما مور کیا۔یہ آسان کام نہیں تھا۔یہ دو بیٹوں کی جان کو خطرے میں ڈالنا تھا۔یہ خطرہ سید ناعلیؓ نے اسی لیے مول لیا کہ وہ حضرت عثمانؓ کو ایک جائز حکمران سمجھتے تھے۔اسی طرح جمل اور صفین کے معرکوں کی بنیاد بھی سیاسی اختلاف تھا۔
سانحہ کربلا کے بعدسیاسی اختلافات نے ایک نیا موڑ اختیار کیا۔اس کے بعد جو سیاسی عصبیتیں وجود میں آئیں ،انہوں نے اپنے موقف کے حق میں دینی استدلال پیش کر نا شروع کیا۔مسلمانوں میں اپنی رائے کو قابلِ قبول بنانے کے لیے سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اسے مذہبی جواز فراہم کر دیا جائے۔یوں دینی نصوص اور اسلام کے صدرِ اوّل کی تاریخ کی ایک نئی تاویل سامنے آئی جو دینی استدلال لیے ہوئے تھی۔یہ میں عرض کر چکا کہ جب ان تاریخی واقعات نے جنم لیا، اس وقت یہ محض سیاسی موقف تھے،ان کی بنیاد کسی دینی استدلال پر نہیں تھی۔اب نصوص کی مختلف تعبیرات رائج ہوگئیں اور سیاسی اختلاف کی بنیاد پر وجود میں آنے والے گروہ ، مذہبی گروہوں میں تبدیل ہوگئے۔آج یہ مسلمہ مذہبی گروہ ہیں، جن کا دینی استدلال ہے۔یہ واقعہ ہو چکا۔اب اسے بطور واقعہ ہی قبول کر نا ہو گا۔
اس قبولیت کا مطلب کیا ہے؟ایک تو اس امرِ واقعہ کااعتراف کہ یہ نصوص اورتاریخ کے باب میں تعبیر اور تاویل کا اختلاف ہے۔یہ تاویلات اورتعبیرات علم کی دنیا میں زیرِ بحث آتی رہی ہیں اورآنی بھی چاہئیں۔شعوری ارتقا کا سفر اسی طرح آگے بڑھتا ہے۔تاہم یہ کام عالمانہ سنجیدگی اور شائستگی کے ساتھ ہو نا چاہیے۔دوسرا یہ کہ اِن کامحل علمی فورمز ہیں ،گلی بازارنہیں۔جب اِن اختلافات کی بنیاد پر گروہ وجود میں آ چکے تواس کا مطلب یہ ہے کہ گروہی تعصبات بھی پیدا ہو چکے۔اگر ہم ان اختلافات کو فتویٰ کی زبان میں بیان کریں گے تو لازماًفرقہ واریت پیدا ہوگی۔اسی طرح جب ہم مسلکی موقف کو دینی موقف کے طور پر پیش کرتے ہوئے،مذہب کی بنیاد مانیں گے اور اسی بنیاد پر دوسروں کی تکفیر کریں گے تو اس کے بعد کسی کو مسلمان ثابت کر نا ممکن نہیں رہے گا۔سب سے اہم یہ کہ سب مسالک کے زعما اپنے پیروکاروں کو سمجھائیں کہ مذہب کا اصل وظیفہ تزکیہ نفس ہے۔وہ عوامی مذہبی مجالس میں اسی پہلو کو نمایاں کریں۔
یہ سب اسی وقت ہوگا جب ہم علمی متانت کے ساتھ مذہبی اختلافات کو زیر بحث لانے کی عادت ڈالیں گے‘جب مسلک ہمارے لیے مذہبی عصبیت کی اساس نہیں ہوگا‘جب اس کے ساتھ ہمارے معاشی اور سیاسی مفادات وابستہ نہیں ہوں گے۔ہمیں تسلیم کر نا چاہیے کہ اب ایسا نہیں ہو رہا۔اب یہ ممکن نہیں رہا کہ ہم دوسرے کے ساتھ کسی آیت یا روایت کی تاویل کے باب میں گفتگو کرسکیں۔ ہر کوئی اپنی تاویل کو واحد مستند تاویل سمجھتے ہوئے،اس کی مخالفت یا تائید کی بنیاد پر دوسرے کے کفر اور ایمان کا فیصلہ کرتاہے۔مذہب ہمارے لیے ایک سیاسی عصبیت ہے،تزکیہ نفس کا موضوع نہیں۔اسی حوالے سے ہم دوسرے مذاہب کے ساتھ معاملات کو زیرِ بحث لاتے ہیں اور اسی بنیاد پر مسالک کے باہمی تعلقات کا فیصلہ کرتے ہیں۔ایک طرف ہم اس بنیاد پر دوسرے مذاہب کے ساتھ جنگ اور معرکہ آرائی کی خبر دیتے ہیں اور دوسری طرف خلیج ممالک کے مابین اختیار اور اقتدار کے جھگڑوں میں کسی فریق کا ساتھ دیتے یا اس کی مخالفت کرتے ہیں۔جب اس سے معاشی مفادات وابستہ ہوجاتے ہیں تو گروہی مفادات جنم لیتے ہیں۔ میڈیا بھی مذہب کو اسی زاویے سے دیکھتاہے۔یوں وہ محرم میں خود کو کسی ایک مسلک کے حوالے کر دیتا ہے اور ربیع الاوّ ل میں کسی دوسرے مسلک کے۔ اسے اس بات سے زیادہ سروکار نہیں کہ وہ اسلام کی بات کر رہے ہیں یا کسی خاص مسلک کی ۔
اس پس منظر میں اگر یومِ عاشور خوف کی فضا میں طلوع ہوتا ہے تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔آئیے خیریت کی دعا کریں کہ اس خوف کے ا سباب کا تدارک ہمارے بس میں نہیں۔