اقبال سے وابستگی کی اساس ذرا ملاحظہ کیجیے! ''مرکز نے یوم اقبال پر چھٹی نہیں کی، آپ کر دیجیے‘‘۔ اڑھائی برس بعد ایک صوبائی حکومت کواقبال یاد بھی آ ئے تو کس عنوان سے؟ حقیر تمناؤں کی اسیر سیاست یہی کرسکتی ہے۔ عالم کا پروردگار مگر بے نیاز ہے، وہ اپنے خاص بندوں کا معاملہ اہلِ دنیاکے ہاتھ میں نہیں دیتا۔ اقبال آج اس لیے زندہ نہیں ہیں کہ ریاست اُن کا دن مناتی ہے۔ اقبال کی محبت کا چراغ تو لوگوں کے دلوں میں روشن ہے، وہ دل جو خدا کی دو انگلیوں کے درمیان ہے۔
ہم 2015ء میں جی رہے ہیں۔ اقبال1938ء میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ درمیان میںکم و بیش آٹھ دہائیاں حائل ہیں۔ یہ وہ مہ و سال ہیں جو انسانی تاریخ میں اپنی سبک روی کے باعث یاد رکھے جائیں گے۔ انسان کے مشاہدے میں کوئی دوسرا ایسا عہد نہیں آیا جب صبح و شام اس کی تقدیریں بدلتی ہوں۔ ارتقا امرِ واقعہ ہے مگر سست روی کے ساتھ۔ یہ مگر ایک استثنائی دور ہے۔ وقت نے سالوں کا فیصلہ لمحوں میں طے کیا۔ کسی فکر اور کسی تہذیب کے لیے آسان نہیں تھا کہ وہ اس رفتار کاسا تھ دے سکے۔ ایک عالمگیر کلچر نے دنیا کو اپنے حصار میں لے لیا۔ سب کے لیے بقا کا ایک ہی راستہ تھا کہ وہ خود کوایک بے جان تنکے کی طرح وقت کی لہروں کے حوالے کر دیں۔ اس رو میں بہنے والوں نے تاریخ کے خاتمے کا اعلان کیا۔ بہت جلد انہیں اندازہ ہوا کہ ان سے اندازہ لگانے میں غلطی ہوئی۔ اختتام ابھی کہاں؟ انہیں اپنی بات سے رجوع کر نا پڑا۔ تیز رفتاری کے باوجود اگر اقبال آج بھی موضوعِ بحث ہیں تو کیا اس وجہ سے کہ ریاست اُن کا دن مناتی ہے؟
پاکستان کا تصور بہت بعد میں مجسم ہوا۔ خطبہ الہ آباد میں وہ ایک مو ہوم خیال ہے۔1940ء میںاس کی تجسیم ہوئی۔ تب اقبال کو رخصت ہوئے دو سال ہو چکے تھے۔ایک دانائے راز پرمگر آنے والا عہد بے حجاب تھا۔ اہلِ اسلام کوانہوں نے اس عہدکے مطالبات کی طرف، وقت سے پہلے متو جہ کیا۔ انہوں نے عنوان باندھا ''فکرِ اسلامی کی تشکیل ِنو‘‘۔ فکرِ اسلامی سے مراد فہمِ انسان ہے۔ اسلام کو کسی تشکیل نو کی ضرورت نہیں تھی۔ اقبال کا خیال تھا کہ جو عہد اب نمودار ہوگا، اس کے لیے فکرِ اسلامی کی روایت کفایت نہیں کرتی۔ یہ تشکیلِ نو کی متقاضی ہے۔ انہوں نے اپنے دور کے علمی معیارات کو سامنے رکھا اور اس تشکیل ِنو کے مراد کو واضح کیا۔ ساتھ ہی یہ ابہام بھی نہیں رہنے دیا کہ وہ کوئی حرف ِآخر کہہ رہے ہیں۔ ان کا اصرارکسی خاص نتیجہ فکر پر نہیں تھا، غورو فکرکے استمرار پر تھا۔
بقا رائے کو نہیں، استمرارکو ہے۔ اقبال کے عہد میں 'علمِ جدید‘ نے جو چیلنج اٹھائے، وہ اب پرانے ہوگئے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ علم بھی پرانا ہوگیا۔ آج کا علمِ جدید کچھ اور کہہ رہا ہے۔ علم بالوحی اور علم بالحواس کی بحث اب غیر متعلق ہوتی جا رہی ہے۔ آج کے علم نے مان لیا ہے کہ حواس ایک دائرے میں متحرک ہوتے ہیں۔ یہ دریافت کا دائرہ ہے، جیسے جیسے یہ دائرہ وسیع ہو رہا ہے، حواس کا سابقہ علم متروک ہو تا جا رہا ہے۔ 'علمِ جدید‘ کا یہ مقدمہ اب باقی نہیں رہا کہ حواس جس وجود کی تصدیق نہ کریں وہ ثابت نہیں۔ مسلمانوں کا معاملہ البتہ دوسرا ہے۔ سو سال پہلے کی علمی دریافت میں ان کا کوئی حصہ تھا نہ ہے۔ نئے عہد سے متعلق ہونے کے لیے انہیں اقبال کی ضرورت ہے۔انہوں نے ایک منہج دیا جو علمِ جدید کے نظام (discourse) میں تعبیرِ دین کا منہج (paradigm) ہے۔ اس طرح ہم آج بھی اقبال کی راہنمائی سے بے نیاز نہیں ہو سکتے۔
سماجیات میں،اس خطے کے حوالے سے، اقبال کو ایک اور نتیجہ فکر بھی انہیں آج کے دور سے متعلق بناتا ہے۔ خطبہ الہ آباد میں انہوں نے واضح کیا کہ ہندوئوں سے ہمارا اختلاف مذہبی نہیں، سماجی ہے۔ ہندو ایک طبقاتی سماج کو مذہبی جواز کے ساتھ مانتے ہیں۔ اسلام کے سماجی نظام میں انسانوں کے مابین کوئی امتیاز گوارا نہیں، مذہبی بھی نہیں۔ اس کی اجتماعی تعلیم سماج سے متعلق ہو یا ریاست سے، وہ انسانوں میں تمیز نہیں کرتی۔ اس کے سماجی نظام میں پڑوسی کے حقوق ہیں، مسلم یا غیر مسلم پڑوسی کے نہیں۔ بایں ہمہ اس کے ریاستی قانون میں چور کی سزا ہے۔ اس میں یہ بات بے معنی ہے کہ چور کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے یا جس کا مال چرایا گیا،اس کا مذہب کیا ہے۔ اسی لیے اقبال کو مسیحیوں یا یہودیوں کے ساتھ ایک اجتماعیت تشکیل پر کوئی اعتراض نہیں۔ جدید انسان کا نتیجہ فکر بھی یہی ہے۔ اُن کے علمی کام پر تدبر سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ اسی کو روحانی جمہوریت کہتے ہیں۔کوئی چاہے تو اسے سیکولرزم کا نام دے سکتا ہے، یعنی روحانی اقدار پر کھڑی ایک سیاسی تشکیل جو مختلف مذہبی اقدار کو اپنے اندر سمو سکتی ہے، اگر وہ وحدتِ الہ اور وحدتِ آدم کے تصورات کو قبول کرتے ہیں۔
مودی صاحب کے ہندوستان نے ایک بار پھر اقبال کو اس بات کو جدید عہد سے متعلق کر دیا ہے۔ بھارت کا مسئلہ مذہبی نہیں، سماجی ہے۔ آر ایس ایس ایک خاص مذہب کی برتری کی اساس پر قائم ایک نظامِِ ریاست و سماج کی تشکیل چاہتی ہے۔ مودی اور ان کا گروہ انسان کے اس فکری ارتقا سے بے خبر ہیں جس نے انسانوں کے مابین ہر طرح کے امتیاز کو مسترد کر دیا ہے۔ بھارت کے اہلِ دانش کو اندازہ ہے، وہ جانتے ہیں کہ یہ وقت کے رو کے برخلاف بہنے کی ایک کوشش ہے جس کا مقدر ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔ بھارت کی اجتماعی دانش بھی اسے قبول نہیں کرتی۔ مسلمان ہو یا دلت،اگر اس کا سماجی مقام برہمن کے مساوی نہیں تو سماجی وحدت کا حصول ممکن نہیں۔ علمِ جدید نے شرک کی طرح سماجی مراتب کے تصور کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب شرک کی بنیاد پر کوئی مذہبی تشکیل باقی رہ سکتی ہے نہ طبقات کی بنیاد پر کوئی سماجی تشکیل۔ مذہبی تشکیل کو کچھ وقت کے لیے گوارا کیا جا سکتا کہ اسے ایک نجی مسئلہ مان لیا جائے۔ سماج کی تشکیل تو ایک دن بھی ممکن نہیں۔
دوسری طرف یہ بات بھی واضح ہے کہ ریاست ہو یا سماج، لازم ہے کہ کسی اخلاقی نظام کے پابند ہوں۔ انسان نے کوشش کی ہے کہ وہ طبیعیاتی اساسات پر ایک نظامِ اخلاق کھڑا کر دے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ایک واہمہ ہے۔ جن معاشروں میں ہمیں بظاہر ایک ایسا نظامِ اخلاق کامیابی سے چلتا دکھائی دیتا ہے، وہاں ابھی تک انسان کی نفسیاتی ساخت مابعد الطبیعیاتی ہے جو مذہب کے زیرِ اثر تشکیل پائی ہے۔ مسیحیت آج بھی مغرب میں ایک زندہ سماجی قوت ہے۔ پوپ فرانسس نے اس تصور کو کامیابی کے ساتھ مشہود کر دیا ہے کہ اہلِ مذہب اقتدار کی کشمکش سے دور رہ کر بھی سماج اور ریاست پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اس لیے میرا کہنا ہے کہ مغرب میں جہاں ہم ایک غیر الہامی نظامِ اخلاق کو رو بعمل دیکھتے ہیں تو اس کی بنیاد بھی انسان کی اس نفسیاتی ساخت میں ہے جو مذہب کے زیر اثر تشکیل پائی ہے۔ یہی روحانی جمہوریت ہے۔
سماج اور ریاست کی تشکیل،جب اس سطح پر زیرِ بحث آتی ہے تو اقبال خود بخود متعلق ہو جاتے ہیں۔ پھر یہ بات بے معنی ہے کہ ریاست یومِ اقبال کی چھٹی کرتی ہے یا نہیں۔ اگر اقبال سے ذہنی اور فکری رشتہ ٹوٹ جائے تو ریاست کی نمائشی وابستگی ہمارے کس کام کی؟ بات مگر اب کسی اور سمت بڑھ رہی ہے۔ اب یومِ ِاقبال کا تناظر عصری سیاسی فائد ے ہیں۔ وہ سیاست جس نے مذہب کو جنسِ بازار بنا یا، اب اقبال کے درپے ہے۔ مرکز نے چھٹی نہیں کی تو آپ کر دیجیے۔ اناللہ و انا الیہ راجعون! اقبال یاد بھی آئے تو کس عنوان سے؟
تری نگاہ فرومایہ ، ہاتھ ہے کوتاہ
ترا گنہ کہ نخیلِ بلند کا ہے گناہ