"KNC" (space) message & send to 7575

نظریاتی اساس کا مسئلہ

اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں،آج سیاسی مذہبی جماعتوں کے راہنماجمع ہوں گے۔فورم ہے ملی یک جہتی کونسل کا اور مقصد ہے پاکستان کی نظریاتی اساس کے دفاع کے لیے حکمتِ عملی کی تشکیل۔راہنماؤں کی پُرعزم شخصیات کو دیکھتے ہوئے،میں پیش گوئی کرسکتا ہوں کہ وہ اس مقصدکے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کرنے کابھی اعلان کریں گے۔
تناظریقیناً وزیر اعظم کا وہ بیان ہے جس میں پاکستان کو ایک لبرل معاشرہ بنانے کی بات کہی گئی ہے۔حضرت مو لانا تقی عثمانی مدظلہ العالی نے اس فرد قراردادِ جرم میںایک اورجریمے کو بھی شامل کر دیا ہے اور وہ دیوالی کی ایک تقریب میں وزیراعظم کی شرکت ہے۔ان اقدامات کے بعد،اب اس سازش کے بارے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے کہ پاکستان کو لبرل بنانے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔آج بھی اگر ہماری مذہبی سیاسی جماعتیں دینی غیرت کا مظاہرہ نہ کریں گی تو کب کریں گی؟قوم تیار ہو جائے کہ اب ایک نئی تحریک اٹھنے والی ہے۔ہمیں بتا یا گیا کہ یہ حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے۔ اب یہ بھی معلوم ہو چکا کہ گڈ گورننس کا شدید فقدان ہے۔فوج کے ساتھ چند کالم نگاروں اورٹی وی میزبانوں کے علاوہ، کوئی ادارہ یافرد ایسا نہیں جسے ملک و قوم کی رتی برابر فکر ہو۔یہ جرائم کیا کم تھے کہ پاکستان کو لبرل بھی بنایاجا رہا ہے۔ظلم کی انتہا کہ اب حکومت پرویز مشرف صاحب کے خلاف مقدمے سے دست برداری کے بجائے،پیروی پر آ مادہ ہے۔اب آپ بتائیے،اس حکومت کے باقی رہنے کا کوئی جواز ہے؟کیا یہ عوام کی ملی، قومی اور دینی ذمہ داری نہیں کہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں؟ 
ایک منظر یہ ہے جو پاکستان میں ابھر رہا ہے یا ابھارا جا رہا ہے۔ایک منظروہ ہے جو ترقی یافتہ دنیا میں ابھر رہا ہے۔ 13نومبر کے واقعات، دکھائی یہ دیتا ہے کہ9/11 کی طرح ایک نئے عہد کی تمہید بننے والے ہیں۔ساری دنیا ایک نکتے پر متفق ہو رہی ہے۔غیر ریاستی دہشت گردی کے خلاف امریکہ،چین اور روس متحد ہو رہے ہیں۔فرانس نے اقدام ِ متحدہ میں قرارداد جمع کرا دی ہے۔یورپی ممالک جمع ہو رہے ہیں۔اس باب میں اب کوئی دوسری رائے مو جود نہیں کہ سب کو مل کر داعش سے نمٹنا ہے۔اہلِ مغرب کے تجزیے میں جو خلا ہے، میں اس کا بار ہا ذکر کر چکا۔میں اس وقت اس امرِ واقعہ کو بیان کر رہا ہوںکہ دنیا کس رخ پر سوچ رہی ہے۔اس کے سامنے دنیا کا نقشہ کیا ہے۔مغرب میں کیسے فکری یک سوئی کو تلاش کیا جا ر ہاہے۔کیسے اس یک سوئی کو ایک لائحہ عمل میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
یہ دو مناظر میں نے آپ کے سامنے رکھے ہیں۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ترقی یافتہ قوموں کے سوچنے کا انداز کیا ہے اور ہمارا کیاہے؟وہ ان مسائل سے صدیوں پہلے نمٹ چکے جو آج ہماری سیاسی و مذہبی قیادت کی اولیں ترجیح ہے۔وہاںلبرل ازم، نیو لبرل ازم کی منازل طے کر چکا۔سیکولرازم کی دنیا میں ایک سے زیادہ تعبیرات رائج ہیں۔اساسی اتفاق کے باوجودیورپ میں اس کا مفہوم کچھ اور ہے، امریکہ میں کچھ اور۔ہمارے ہاں لوگ ایک ایسے لفظ پر لڑ رہے ہیں جس کے مفہوم سے کوئی فریق واقف نہیں۔مجھے یقین ہے کہ جب نوازشریف صاحب نے یہ لفظ ادا کیا،وہ اس کے فکری پس منظر سے بے خبر تھے۔جو تنقید کر رہے ہیں،وہ بھی اس کے سیاق وسباق سے نا آ شنا ہیں۔مخالفین کو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ دلچسپی نہیں کہ وزیر اعظم کا مفہوم کیا تھا۔مذہب کے نام پر سیاست کے لیے کوئی موضوع تو چاہیے۔
وزیراعظم کے ارشادات پر تبصرہ میں ایک گزشتہ کالم میں کر چکا۔تاہم 'نظریاتی اساس‘کو درپیش خطرات میرے فہم سے بالا تر ہیں۔میں کبھی نہیں جان سکا کہ جس ملک کی 97 فی صدآبادی مسلم ہو،اس کا تشخص کیسے تبدیل ہو سکتا ہے؟یہ تو متحدہ ہندوستان میں نہیں ہو سکا۔مزید یہ کہ ملک کا آئین قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کی ممانعت کر تا ہے۔ یہاں وفاقی شرعی عدالت جیسے ادارے مو جود ہیں۔اس کے بعد نظریاتی اساس کوکیسے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟یہ حادثہ صرف دو صورتوں میں ممکن ہے۔ ایک ہے اجتماعی ارتداد۔یہ امرِ محال ہے۔دوسری صورت ہے اہلِ مذہب کا رویہ۔جب اہلِ مذہب کی تعبیرات اور رویے کے ہاتھوں،لوگوں کی جان و مال اور آبروخطرات میںگھر جائے تو پھر لوگ مذہب ہی کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔یہ کیسے ہوتا ہے، کوئی اس کو سمجھنا چاہے تویورپ میں اہلِ کلیسا کی تاریخ پر ایک نظر ڈال لے۔
میں یہ بھی نہیں سمجھ سکا کہ دیوالی کی تقریب میں وزیراعظم کی شرکت خلافِ اسلام کیسے ہو گئی؟پاکستان کے غیر مسلم شہریوں نے اپنی مرضی سے پاکستان کا انتخاب کیا۔وہ کوئی مفتوح قوم نہیں ہیں۔وہ معاہد ہیں اورویسے ہی پاکستان کے شہری ہیں جیسے کوئی مسلمان۔وزیر اعظم کو ان کی خوشی غمی میں شریک ہونا چاہیے۔ہر مذہبی گروہ کے تہوار ایک مذہبی پس منظر رکھتے ہیں۔ان تہواروں کی ایک حیثیت مذہبی ہوتی ہے اور ایک سماجی۔مذہبی حیثیت میں وہ جو رسوم ادا کرتے ہیں،وہ ظاہر ہے کہ اس مذہب کے ماننے والوں کے لیے خاص ہوتی ہیں۔سماجی حوالے سے دنیا بھر میں لوگ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو مبارک باد دیتے اور ان کی تقریبات میں بھی شریک ہوتے ہیں۔میں نہیں جان سکا کہ اس پر دینی پہلو سے کیا اعتراض کیا جا سکتا ہے؟اگر وزیراعظم کسی مشرکا نہ رسم میں شریک ہوتے، کوئی مشرکانہ کلمہ منہ سے ادا کرتے تو اعتراض کیا جا سکتا تھا۔ محض سماجی تقریب میں شرکت ناجائز کیسے ہوگئی؟
اللہ کے آ خری رسول سیدنا محمدﷺ کا اسوۂ حسنہ تو اس باب میں غیر معمولی وسعتِ قلبی کا مظہر ہے۔نجران کے مسیحیوں کے ساتھ آپ کے حسنِ سلوک کی روایت تو بہت معروف ہے۔مولانا مناظر احسن گیلانی اس واقعے کا ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:''لوگ سوچتے نہیں ورنہ العالمین کی رحمت کا دامن تو اس سے بھی زیادہ وسیع تھا۔ثقیف کے بت پرست مشرکین کا وفدطائف سے مدینہ پہنچا تودیکھیے سیرت طیبہ کی عام کتابوں میں یہ واقعہ مل جائے گا کہ''جب ثقیف والے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو مسجدنبوی کے ایک گوشہ میں ان کے لیے خیمہ قائم کیا گیا‘‘(زرقانی) حالانکہ خیمہ قائم کرنے کے لیے مدینہ میںبھلا جگہ کی کوئی کمی تھی۔لیکن مسلمان تو مسلمان،اہلِ کتاب تک طائف والے نہ تھے۔لات نامی بت کی پوجا کر تے تھے۔اور وہ سب کچھ تھے جو جاہلیت میں عرب کے عام باشندے ہو سکتے تھے... بعضوں نے کہا بھی کہ یہ لوگ تو ناپاک ہیں ۔جواب میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:''ان کی نا پاکی کا زمین سے کوئی تعلق نہیں‘‘(مسلمانوں کی فرقہ بندیوں کا افسانہ)۔ وزیراعظم اگر ہندوئوں کی تقریب میں گئے تو ان کے مذہب سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔انہوں نے پاکستان کے شہریوں کی دل جوئی کی اور یہ ان کا منصبی فریضہ تھا۔
اسلام کو اگر خطرہ ہو سکتا ہے توان تعبیرات سے جو معصوم لوگوں کی جان لینے اور پاکستان جیسی ریاست کو بر باد کرنے کو جائز قرار دیتی ہیں۔اگر مذہبی جماعتیں اور علماپاکستان اور اس کی نظریاتی اساس کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو ان کا ہدف کوئی اور ہونا چاہیے۔97 فی صد مسلم آ بادی کے اس ملک میں اسلام کو کوئی دوسراخطرہ درپیش نہیں۔مزید سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میںمسلسل اضطراب پیدا کیے رکھنابھی دراصل اسے نقصان پہنچانا ہے۔یاتو کھل کر کہیے کہ جس ادارے اور فردکی دیانت اور صلاحیت پر آپ کا ایمان ہے، حکومت ان کے حوالے کر دینی چاہیے۔یا پھراصلاح اور تبدیلی کے لیے وہ راستہ اپنائیے جو آئینی ہے اور جواستحکام کی ضمانت ہے۔افسوس کہ آج اہلِ مغرب یک سو ہورہے ہیں اور ہم ہیں کہ اپنے شخصی اور گروہی مفادات کی اسیری سے رہائی نہیں پا سکے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں