نقار خانے میںملک شجاع الرحمٰن کی آوازکسی نے نہیں سنی۔ یہی نہیں،ن لیگ کے اس دیرینہ جان نثارنے جماعت کے جن لوگوں کے خلاف آواز بلند کی، ان میں سے ایک کو وزیربنا دیا گیا۔
ملک شجاع کومیں برسوں سے جا نتا ہوں۔میرا مشاہدہ یہ ہے کہ وہ دیانت دار آ دمی ہے جو سیاست کو عبادت سمجھتا ہے۔اپنے نام کا مصداق ہے۔اپنی جماعت کے ساتھ اس نے جس طرح وفاداری نبھائی،اس کی مثالیں اب خال خال ہیں۔مشرف عہد میں وہ نتائج سے بے پروا شمشیرِبرہنہ بنا رہا‘ مگر وہ مثالیت پسندہے۔برسوں سے اس کوشش میں ہے کہ ن لیگ صحیح معنوں میں ایک سیاسی جماعت بن جائے۔چند دن پہلے تک وہ خیال کر تا تھا کہ یہ ممکنات کا کھیل ہے۔نوازشریف صاحب کے بارے میں انتہائی خوش گمان کہ وہ یہ کارنامہ سر انجام دے سکتے ہیں۔اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے لیے امیدواروں کا اعلان ہوا تواس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔وہ چہرے جو شہر میں قبضہ مافیا کی شہرت رکھتے ہیں،اب ن لیگ کی نمائندگی کریں گے۔اس اطلاع پر پہلی بار اُس نے اعلانیہ اپنی جماعت کے فیصلے کو چیلنج کیا۔اس کا کہنا تھا کہ وہ کسی فرد کے نہیں، اس سیاسی کلچر کے خلاف ہے جوصرف پیسے والوں کو سیاست کا حق دیتا ہے۔اس کی آواز کومعاصرانہ چشمک کے تناظرمیں دیکھا گیا اور اس کا جوہرنظروں سے اوجھل ہو گیا۔
میرے نزدیک یہ کچھ ایسا غیر متوقع نہیں تھا۔پاکستان میں جمہوریت کو ابھی ارتقائی مراحل سے گزرنا ہے۔فی الوقت اس ملک میں ایک ہی سیاسی جماعت پائی جاتی ہے۔اس کے تین دھڑے ہیں۔ایک ن لیگ کہلاتا ہے،دوسرا تحریکِ انصاف اور تیسرا پیپلزپارٹی۔اس کے علاوہ چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں جومختلف عصبیتوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔یہ مذہبی ہیں، علاقائی ہیں اور لسانی بھی۔ان کا اپنا اپنا حلقہ ہے اور اپنا اپنا علاقہ۔قومی سطح پر استحکام،یک سوئی اورہم آہنگی کے لیے قومی سیاسی جماعتیں ناگزیر ہیں۔پیپلزپارٹی سے اختلاف کے بہت سے پہلو ہیں لیکن اس میں شبہ نہیں کہ اس نے وفاق کو متحد رکھا۔اس کے علاوہ بھی ان جماعتوں کی خدمات ہیں۔ایک بڑی خدمت یہ ہے کہ انہوں نے جمہوریت کا علم بلند کیا۔ان خدمات کے اعتراف کے ساتھ یہ بھی امر ِ واقعہ ہے کہ پاکستان میں وہ سیاسی کلچر نہیں بن سکا، ملک شجاع کو جس کی تلاش ہے۔
جمہوریت کی نتیجہ خیزی ہمارے ہاں اکثر زیرِبحث رہتی ہے۔لوگ اس کا ذمہ دار سیاست دانوں کو قرار دیتے اور پھر سوال اٹھاتے ہیں : جمہوریت نے ہمیں کیا دیا؟یوں وہ متبادل راستے تلاش کرتے ہیں اور سب سے پسندیدہ راستہ کسی مردِ مومن، کسی فردِ واحد کی حکومت ہے جو ان کا خیال ہے کہ بیک جنبشِ قلم سب درست کر سکتا ہے۔یہ ایک سطحی تجزیہ ہے۔تاریخ اس کی شہادت دیتی ہے اور نہ عقلِ عام۔واقعہ یہ ہے کہ جمہوریت کا کوئی متبادل نہیں۔ہمیں جمہوریت کا متبادل تلاش کرنے کے بجائے، ساری توجہ اس پر دینی چاہیے کہ اس میں اصلاح کیسے لائی جائے۔
یہ کام دو طرح سے ہو سکتا ہے۔ایک سیاسی جماعتوں کے کلچر میں تبدیلی اور دوسرا قوانین میں اصلاح۔مغربی جمہوریت نے در اصل سرمایہ دارانہ نظام کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔اس میں لازم ہے کہ روپے پیسے کا کردار سب سے زیادہ ہو۔اہلِ مغرب کے دانش وروں کواس کا اندازہ ہے،اس لیے مغربی جمہوریت ارتقا کے مراحل سے گزرتی رہی ہے۔ابتدا میں یہ جمہوریت گوری چمڑی اور سرمایے کے ہاتھوں یرغمال رہی۔وہاں جمہوریت نے ان زنجیروں کو توڑنے کی کوشش کی اور اس میں اسے کامیابی ہوئی۔اس میں شبہ نہیں کہ سرمایے کا کردار اب بھی بہت ہے لیکن اس کے باوجود ممکن ہوا کہ بارک اوباما جیسا آ دمی امریکہ کا صدر بن جائے جس کی چمڑی گوری ہے نہ وہ بش خاندان کی طرح سرمایہ دارطبقے سے تعلق رکھتاہے۔
اس جمہوری ارتقا میں سیاسی جماعتوں کا بہت حصہ ہے۔مغرب میں سرمایہ دار سیاسی جماعتوں کو چندہ دے کر ان کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔تاہم سیاسی جماعتوں نے جو نظم اختیار کیا،اس میں اس بات کی پوری گنجائش رکھی کہ سماج کے دوسرے طبقات،جن کے پاس صلاحیت ہے لیکن پیسہ نہیں، وہ بھی آگے آئیں۔اس کی بے شمار مثالیں مو جود ہیں کہ کونڈولیزا رائس جیسی خواتین جو یونیورسٹی کی پروفیسر تھیں، وزیر خارجہ جیسے اہم منصب تک پہنچ گئیں۔پاکستان میںایسا نہیںہے۔ یہاں سرمایہ دار اور کاروباری طبقے نے سیاسی جماعتوں کوچندہ دینے کے بجائے،ان پر قبضے کو ترجیح دی۔سرمایہ دارسیاسی رہنما بن گیا۔اس سے سرمایہ سیاست میں بہت اہم ہوگیا۔جب سرمایہ دار خود سیاسی جماعت کے اہم عہدوں پر فائز ہے تو اس نے تمام اہم جماعتی مناصب کو اپنے طبقے کے لیے خاص کر دیا۔
یہی وہ کلچرہے جو تبدیلی کی راہ میں حائل ہے۔اس میں ملک شجاع جیسے لوگوں کی صرف اتنی اہمیت ہے کہ وہ جس جماعت سے وابستہ ہوں،اس کے بالائی طبقے کواقتدار کے ایوانوں تک پہنچائیں۔اس کے بعد ان کا کردار ختم ہو جا تا ہے۔اس طبقے نے انتخابات کے نظام کو اس طرح تشکیل دیا ہے کہ عام آ دمی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اس نظام کا حصہ بن سکے۔پاکستان میں متحدہ مجلسِِ عمل اور تحریکِ انصاف نے عام آ دمی کے لیے راستے کھولے۔یہ نظام لیکن اتنا طاقت ور ہے کہ اس نے اس سارے عمل کو معکوس کر دیا۔ مجلس عمل چند افراد کے سیاسی مفاد کے لیے ایک محاذ بن گیا۔مجلس عمل ختم ہوگئی لیکن وہ طبقہ معاشی طور پر اتنا توانا ہو چکا ہے کہ برسوں خود کو سیاسی طور پر زندہ کر سکتا ہے۔ تحریکِ انصاف پرسرمایہ دار گروہ کا قبضہ ہوگیا۔اب کوئی ہیلی کاپٹر اور جہا زسے بڑھ کر کچھ لائے تو پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنے۔کوئی علیم خان سے بڑھ کر سرمایہ خرچ کر سکے تو اسے ٹکٹ ملے۔ جسٹس وجیہ الدین اور ملک شجاع جیسے جب اس حقیقت کا ادراک نہیں کرتے،تو شکایت کرتے ہیں۔ان کی آواز لیکن نقارخانے میں سنائی نہیں دیتی۔
سیاسی جماعتوں کے داخلی کلچر کو بدلے بغیریہ ممکن نہیں کہ اسے سرمایہ دار کے شکنجے سے نکا لا جا سکے۔سب سے پہلے ضروری ہے کہ جماعتوں کے معاشی معاملات کوعوامی چندے کی بنیاد پرمنظم کیا جا ئے۔ایک حد سے بڑھ کر کسی کا چندہ قبول نہ کیا جائے۔دوسرا یہ کہ جماعتی عہدے کے لیے،وہ تحصیل کی سطح کا ہو یا مرکزی سطح کا،خاص سیاسی تجربے، صلاحیت اور خدمات سے مشروط کر دیا جائے۔ مثال کے طور پر ایک ضلعی عہدے دار کے لیے لازم ہو کہ اس نے تحصیل سطح پر کچھ وقت گزرا ہو۔اب ایک آ دمی صوبے کا گورنر ہوتا ہے۔ ایک خاص جماعت کی قیادت کے گیت گاتا ہے۔ جب اس کی ذاتی توقعات پوری نہیں ہو تیں تو دوسری جماعت میں شامل ہو جا تاہے۔اگلے دن پارٹی کارکنوں کو معلوم ہوتا ہے کہ صوبائی نظم میں بڑے عہدے پر فائزہے۔
آج کوئی جماعت اس کلچر میں تبدیلی پر آ مادہ نہیں۔اسی لیے میں کہتا ہوں کہ ایک جماعت کے تین دھڑے ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں۔عوام اپنی سادگی کے باعث یہ سمجھتے ہیں کہ فلاں تبدیلی کی علامت ہے۔ملک شجاع جیسے مخلص یہ عزم کرتے ہیں کہ وہ ن لیگ جیسی جماعت کے کلچر کو سرمایے کی گرفت سے آزاد کرا سکیں گے۔ ایک دیرینہ کارکن کی آواز جس طرح صدا بصحرا ثابت ہوئی،یہ اہلِ سیاست کے لیے مقامِ عبرت ہے۔اہلِ دانش اگر ایسے لوگوں کا ساتھ دیں جو سیاسی جماعتوں کے کلچر کو بدلنا چاہتے ہیںتوبہتری ممکن ہے۔مغربی جمہوریت میں ارتقا اس کی دلیل ہے۔ اس طرح ہم جمہوریت کو نتیجہ خیزبنا سکیں گے۔ بصورتِ دیگرسطحی تجزیے ہوں گے ۔لوگ جمہوریت کو گالی دیں گے اور آمریت کے لیے راستہ ہموار کریں گے۔یوں ملک کو ایک زیادہ گہری اور تاریک تر کھائی میں دھکیل دیں گے۔