شیخ مجیب الرحمٰن کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ انہیں پاکستان کی فوج نے نہیں، بنگالیوں نے مار ڈالا۔ محسوس ہوتا ہے کہ حسینہ واجد بھی اپنے باپ کے نقشِ قدم پر پاؤں رکھتی، اسی منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔ کوئی جذبہ، مثبت ہو یا منفی، حدود سے تجاوز کر جائے تو آ دمی خود اس کا ایندھن بن جاتا ہے۔
پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہلِ شوق کا!
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے
قیادت کے باب میں، برصغیر کے عوام بہت بدقسمت واقع ہوئے ہیں۔ تقسیم کے بعد ہر نئے آنے والے پہلے سے بدتر۔ بھارت نہرو سے مودی تک آپہنچا، پاکستان، قائد اعظم سے آصف زرداری تک اور بنگلہ دیش مجیب الرحمٰن سے حسینہ واجد تک۔ ماضی کے اسیر پست نظر لوگ جو ذات اور تعصبات سے اوپر اٹھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ یوں خود برباد ہوتے ہیں اور عوام کو بھی برباد کرتے ہیں۔ ساری دنیا ماضی کو خیرباد کہتے ہوئے، مستقبل میں چھپے امکانات کی تلاش میں ہے۔ اس خطے پر ایسا آسیب کا سایہ ہے کہ کوئی ستر سال پہلے کے حادثے کو رو رہا ہے اور کوئی 1971ء سے آگے نہیں بڑھ سکا۔
حسینہ واجد کا مرض سنگین تر ہے۔ 1974ء کے سہ فریقی معاہدے سے سب واقف ہیں۔ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش نے طے کر لیا تھا کہ گڑے مردے نہیں اکھاڑے جائیں گے۔ ماضی کو بھلا کر مستقبل کی طرف دیکھا جا ئے گا۔ حسینہ واجد نے مگر اِس سے انحراف کیا۔ 2009ء میں انتقامی عمل کا آغاز کر دیا۔ شمشاد احمد اور سلمان بشیر جیسے سفارت کار اور احمر بلال صوفی جیسے قانون دان واضح کر رہے ہیں کہ یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ یہی نہیں، عدالتی کارروائی کے بارے میں بھی عالمی تنظیمیں یہ کہہ چکیں کہ ایک ڈرامہ ہے جو عدالت کے ایوانوں میں رچایا جا رہا ہے۔ سکرپٹ میں پہلے سے لکھا ہے کہ کسے سزا ہونی ہے۔ اس کارروائی کا اصل ہدف جماعت اسلامی ہے۔ جماعت نے پاکستان کو متحد رکھنے کی کوشش کی تھی۔ پروفیسر غلام اعظم سے لے کر علی احسان محمد مجاہد تک، لوگوں نے اس کی قیمت ادا کی۔ اب صلاح الدین قادر چوہدری بھی اس فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔
اس بات کی کوئی شہادت نہیں کہ ''جنگی جرائم‘‘ کے خلاف مقدمات بنگلہ دیشی عوام کی خواہش ہے۔ وہ نسل اب کم و بیش ختم ہو چکی جو 1970ء کے واقعات کی گواہ ہے۔ اب معاملات اس نسل کو منتقل ہو چکے جو اس کے بعد پروان چڑھی۔ اس کے لیے یہ واقعات ماضی کی ایک داستان ہیں، ذاتی تجربہ نہیں۔ پاکستان سے انہیں کوئی خاص محبت ہے‘ نہ نفرت۔ مجھے جب ایک بار بنگلہ دیش جانے کا اتفاق ہوا تو میں نے وہاں کے بازاروں میں جاکر بطور خاص اس بات کو سمجھنا چاہاکہ ایک عام آ دمی کا برتاؤ ایک پاکستانی کے ساتھ کیسا ہے۔ میرے ساتھ ملائشیا سے آئی ہوئی ایک مسلمان خاتون بھی تھیں۔ میں نے محسوس کیا کہ وہاں کا دکان دار اور عام شہری دونوں کو ایک ہی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ اس کے لیے ہم غیر ملکی گاہک تھے۔ نہ مجھے پاکستانی سمجھتے ہوئے کسی التفات کا مظاہرہ کیا گیا‘ نہ نفرت کا مستحق سمجھا گیا۔
میرے ماموں ڈاکٹر ممتاز احمد بنگلہ دیش کو اپنا دوسرا گھر کہتے ہیں۔ وہاں کے دینی مدارس اور اسلامی تحریکوں پر ان کی تحقیق بین الاقوامی شہرت رکھتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب وہاں کے ان گنت سفر کر چکے اور اس کے تمام اہم شہروں اور قابل ذکر قصبوں میں جا چکے ہیں۔ ان کا تعلق اُس نسل سے ہے جس نے 'ڈھاکہ کو ڈوبتے دیکھا‘۔ ڈھاکہ روانہ ہونے سے پہلے، میں نے ان سے پوچھا کہ وہ مجھے وہاں کی کوئی خاص بات بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ فلاں محلے میں 'بابو کی بریانی‘ ملتی ہے جو شہر بھر میں مشہور ہے۔ تم اس دکان پر ضرور جانا۔ اس بریانی کا آغاز کراچی سے ہوا اور پھر اس کے ماہر ڈھاکہ منتقل ہو گئے۔ میں وہاں گیا۔ بریانی کھائی۔ اچھی لگی‘ مگر پاکستان کی کوئی خوشبو نہ آئی۔ میں نے وہاں بیٹھے آ دمی کو اپنا تعارف کرایا تو اس کی آنکھوں میں آشنائی کی کوئی چمک نہیں دیکھی۔ اسی طرح نفرت بھی نہیں تھی۔ دونوں جذبوں کا اگر میں تقابل کروں تو شاید محبت کا پلڑا بھاری ہو۔کہنا مجھے یہ ہے کہ حسینہ واجد کے دل میں پلنے والی نفرت کو عوامی جذبات سے کوئی غذا نہیں ملی۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جماعت اسلامی آج بنگلہ دیش کی ایک بڑی جماعت ہے۔ وہاں کی پارلیمان کا حصہ رہی اور اس کے افراد کابینہ میں بھی رہے۔ بنگلہ دیش پر اس کا اتنا ہی حق ہے جتنا کسی دوسری جماعت کا۔ وہ متحدہ پاکستان کی حامی تھی لیکن جب یہ حادثہ ہو گیا تو اس نے اپنی توانائیاں بنگلہ دیش کو ایک جمہوری اور اسلامی ریاست بنا نے کے لیے وقف کر دیں۔ جمہوریت کے لیے اس کی جدوجہد اس بات کا اعلان تھا کہ وہ اپنے تصورِ ریاست کو بالجبر عوام پر مسلط نہیں کرنا چاہتی۔ وہ قومی دھارے میں ہمیشہ شامل رہی اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا کی جماعت کے ساتھ اس نے اتحاد بھی بنایا‘ جو وہاں کی دوسری بڑی سیاسی قوت ہے۔ یوں حسینہ واجد یہ سزا غیر ملکیوں کو نہیں، بنگلہ دیش کے شہریوں کو دے رہی ہیں۔
حسینہ واجد کا انتقامی جوش بنگلہ دیش کے امن کے لیے بھی خطرناک ہے۔ دنیا کو اس بارے میں سوچنا ہو گا کہ جمہوریت پر یقین رکھنے والی قوتوں کا راستہ جب بالجبر روکا جاتا ہے تو اس سے فساد پیدا ہوتا ہے۔ آج اگر مشرقِ وسطیٰ میں داعش اور کل القاعدہ جیسی تنظیموں نے جنم لیا تو اس کا ایک بڑا سبب عوام کے جمہوری حقوق کی پامالی بھی تھا۔ مصر میں تیس سال حسنی مبارک مسلط رہے۔ جب اتنے عرصے بعد عوام نے اپنا فیصلہ سنایا تو اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ عوام کا قتلِ عام ہوا اور پھر ایک نئی فوجی آمریت مسلط ہوگئی۔ شام پر بشارالاسد کا خاندان اکثریت کی تائید سے محروم سالوں سے اقتدار پر قابض ہے۔ باپ نے صرف اپنے اقتدار کے لیے فروری 1982ء میں اپنے بھائی کے ہاتھوں حماۃ شہر کو تاراج کر وایا اور چالیس ہزار افراد کو مار ڈالا۔ کوئی اس کی تفصیل جاننا چاہتا ہے تو آج بھی وکی پیڈیا پر Hama massacre کے عنوان سے یہ خوں چکاں داستان پڑھ سکتا ہے۔ بیٹے نے چار سالوں میں ساڑھے تین لاکھ شامیوں کو مروا دیا مگر اقتدار نہیں چھوڑا۔ اگر عوام کے جمہوری حقوق اس طرح پامال ہوں گے تواس کا نتیجہ داعش یا القاعدہ کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟ اگر دنیا چاہتی ہے کہ جنوبی ایشیا، خاکم بدہن مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ پیش نہ کرے تو اسے حسینہ واجد اور مودی جیسو ںسے اعلانِ برات کرنا ہوگا۔ جو جمہوریت کے نہ ہونے اور انسانی حقوق کی پامالی پر پابندیاں عائد کرتے ہیں، کیا وہ مصر اور بنگلہ دیش کی طرف نگاہ اٹھائیں گے؟ اگر نہیں‘ تو جان لیں کہ داعش کے خلاف ان کی حکمتِ عملی نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔
پاکستا ن میں لوگ مضطرب ہیں۔ یہ قابلِ فہم ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب جو بھی تھے، یہ ہے تو ایک زخم جو ہمارے دل پر لگا۔ کون ہے جو اپنے ملک کو دو لخت دیکھ سکتا ہے؟ قربانی صرف جماعت اسلامی نے دی لیکن یہ دکھ تو سب کا ہے۔ جماعت کے لوگوں نے پاکستان کا مقدمہ لڑا۔ قوم اِس کو ووٹ نہ دے، لیکن اس کے تاریخی کردار کی تحسین تو کرے۔ بھارت کے اہلِ دانش نے، ریاست کے ایوارڈ واپس کرتے ہوئے، مودی سرکار کے خلاف اپنے احتجاج کو تاریخ کا حصہ بنا دیا۔ پاکستان کے کچھ دانش وروں کو بھی حسینہ واجد نے ایوارڈ دیے تھے۔ کیا وہ اُن کے مظالم پر احتجاج کرتے ہوئے، یہ ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کریں گے؟ یہ جماعت اسلامی نہیں، متحدہ پاکستان کا مقدمہ ہے۔ یہ انسانی حقوق کا مقدمہ ہے۔