اسلامی احکام کے بارے میںعلما اور اہلِ مذہب کی حساسیت قابلِ رشک ہے۔ کاش ایسی حساسیت کے مظاہر ہم اسلامی اخلاقیات کے باب میں بھی دیکھ پاتے۔
اسلامی معاشرہ اسلامی اخلاقیات کی بنیاد پرتشکیل پاتا ہے۔ ان میں چندباتیںاہم تر ہیں، جیسے حسنِ ظن، دوسروں کے بارے میں اچھا گمان۔ سورۃ حجرات میں اس کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک مسلمان کے بارے میں اگر دو طرح کی آراء ہوں تو اچھی رائے کو ترجیح دینی چاہیے الاّ یہ کہ شواہد دوسرے پہلو پر اصرار کریں۔ اسی طرح اپنی بات کی تشریح اور تعبیر کا حق متکلم ہی کو ہے۔کسی بات کے بارے میں ابہام یا ایک سے زیادہ احتمالات ہوں تو اسی احتمال کو ترجیح دی جانی چاہیے جو متکلم خودبیان کرے۔ یہ اسلامی سماج کے ساتھ خاص نہیں ہے، عام اخلاقیات کا تقاضا بھی یہی ہے۔ مسلمان سماج میں بہر حال اس کا اہتمام بدرجہ اَولیٰ ہونا چاہیے۔
سود کے بارے میں صدر ممنون حسین صاحب کا ایک بیان ان دنوں زیرِبحث ہے۔ ان کی طرف سے وضاحت آ چکی کہ انہوں نے ڈاکٹر حمیداللہ مرحوم کے حوالے سے ایک بات کہی تھی۔ تناظردورِجدید کا معاشی نظام ہے جس نے مسلمانوں کو مخمصے میں ڈال رکھا ہے۔ ایک طرف سود ہے جو کسی طور ایک مسلمان کا انتخاب نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف وہ معاشی مسائل ہیں جن سے مسلمان دوچار ہیں۔ ہاؤس بلڈنگ کا قرض ایسا ہی ایک مسئلہ ہے۔ انہوں نے علما سے درخواست کی کہ وہ معاملے کا حل نکالیں جو سود کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے۔ میں نہیں جان سکا کہ اس میں کیا بات قابلِ اعتراض ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ صدر صاحب نے خود کوئی فتویٰ نہیں دیا۔ انہوں نے علما ہی سے درخواست کی ہے کہ وہ اس سے نکلنے کاراستہ بتائیں۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ ایسا کوئی راستہ موجود نہیں ہے تو وہ اپنی رائے دے دے۔ اگر کسی کے نزدیک راستہ ہے تو اس کی نشان دہی کردے۔ صدر صاحب نے اپنی کسی رائے کا اظہار نہیں کیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ صدر صاحب اپنی بات کی وضاحت بھی کر رہے ہیں۔ اس سے تو کسی غلط فہمی کا امکان بھی باقی نہیں رہنا چاہیے۔ اب ان کے منہ میں کوئی اپنی بات کیسے ڈال سکتا ہے؟ کیا ان کی وضاحت کے بعد، اسلامی اخلاقیات کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ ہم اسی مدعا کو قبول کریں جو متکلم خود بتا رہا ہے؟ تیسری با ت یہ ہے کہ صدر مملکت کا پس منظر اور عمومی خیالات کس بات کی تائید کر رہے ہیں؟ ہم سب جانتے ہیں کہ وہ دینی رجحان رکھنے والے ایک پاکستانی ہیں جو اپنی مذہبی شناخت کے بارے میں حساس ہیں۔ مذہب و تہذیب کے باب میں ان سے ہم انہی خیالات کی امید رکھتے ہیں جو ایک عام پاکستانی کے خیالات ہیں۔
صدر پاکستان کا مقدمہ، میرا خیال ہے کہ اس کے بعد واضح ہے۔ اس پر مزیدکچھ کہنا حدود سے تجاوز ہوگا۔ بلاسود معاشی نظام کی تشکیل کا مسئلہ البتہ ایسا ہے جومزید بحث کا متقاضی ہے۔ صدر صاحب کہیں یا نہ کہیں، وہ اہلِ علم کی توجہ چاہتا ہے۔ اسے دو طرح سے دیکھا جانا چاہیے۔ ایک یہ کہ جو مسلمان ریاستیں اپنے نظریاتی تشخص پر اصرار کر تی ہیں،کیا اُن کی سیاسی قیادت نے بلاسود
معاشی نظام کی تشکیل کے لیے کوئی کوشش کی ہے؟ اگر کی ہے تو اس کا انجام کیا ہوا؟ میرے علم کی حد تک ایسی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔ چند سال پہلے ایران کی شورائے نگہبان کا ایک وفد پاکستان آیا۔ یہ پارلیمان سے بالاتر، ریاست کا سب سے طاقتور ادارہ ہے جو علما پر مشتمل ہے۔ اس کے قائد آیت اللہ بہشتی سے، اسلامی نظریاتی کونسل میں اسی حوالے سے سوال کیا گیا۔ میں اس مجلس میں موجود تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم مسلسل ایک ایسے معاشی نظام کی تشکیل کے لیے کام کر رہے ہیں جو سود سے پاک ہو لیکن ابھی تک اس میں کامیابی نہیں ہو سکی۔ یہی معاملہ سعودی عرب اور دوسری ریاستوں کا ہے جہاں کی سیاسی قیادت دینی معاملات کے بارے میں حساس ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ اہلِ علم اس باب میں کیا کہتے ہیں؟ کیا وہ اس بارے میں یک زبان ہیں؟ میرے علم کی حد تک علما اور سکالرز
کے مابین سود کی حرمت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ اختلاف دوسوالات پر ہے۔ ایک کا تعلق ربا کے مفہوم سے ہے۔ قرآن مجید جس ربا کوممنوع قرار دیتا ہے،کیا یہ وہی سود ہے جو دورِ حاضر میں رائج ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ایک غیر سودی بینکاری نظام کی تشکیل ممکن ہے؟ موجودہ بینکاری نظام میں علما نے جو تبدیلیاں تجویز کی ہیں،کیا ان کو قبول کرنے سے مو جودہ بینکاری نظام اسلامی ہو جاتا ہے؟ ان سوالات کے جواب میں یک سوئی نہیں ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ علما کے مابین اختلاف ہے۔ خود ہمارے ہاں، موجودہ بینکاری کے حوالے سے علما دیوبند میں دو آرا ہیں۔ ایک رائے وفاق المدارس کے صدرمولانا سلیم اللہ خان اور ان کے ہمنوا علما کی ہے۔ دوسری رائے مولانا تقی عثمانی کی ہے۔ ان دونوں کے مابین اختلاف ظاہرو باہر ہے۔ متعدد کتابیں لکھی جا چکیں۔ سود کے موضوع پر انورعباسی صاحب کی کتاب ''بینک انٹرسٹ: منافع یا ربا‘‘ اس لٹریچر میںاہم اضافہ ہے۔ ان کی تحقیق سے بھی صرفِ نظر مشکل ہے۔
یہ بات بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ مسلمان اہلِ علم کم و بیش پچاس ساٹھ سال سے موجودہ مالیاتی و اقتصادی نظام کے تناظر میں، اسلامی نقطہ نظر سے غور و فکر کر رہے ہیں۔ یہ ارتقائی عمل ہے جو جاری ہے۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے، جو خود بھی علمِ معاشیات ہی سے متعلق ہیں، اپنی کتاب ''مقاصدِ شریعت‘‘ میں اس ارتقائی عمل کی تفصیل بیان کی ہے۔ یہ ارتقا بیان کرتا ہے کہ علما کن امور میں مختلف الخیال ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ یہ وہ دائرہ ہے جس میںاختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس بنیاد پر لوگوںکے کفر اوراسلام کا فیصلہ کرنا حدود سے تجاوز ہے۔ علم کی دنیا میں اختلاف کوئی اجنبی چیز نہیں۔ جو معاشرے علمی طور پر متحرک ہوں وہاں اختلاف پر کوئی اضطراب پیدا نہیں ہو تا۔ مسلمان سماج بھی جب زندہ تھا، تب اختلاف ہمارا روز مرہ تھا اور اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ یہ دورِ زوال کی یادگار ہے جس میں اختلاف سے لوگ ڈر جاتے ہیں کہ کہیں اجتماعیت کا شیرازہ بکھر نہ جائے۔ یہ دور چونکہ جاری ہے، اس لیے فتویٰ سے زبان بندی کی کوشش کی جاتی ہے اور اسے خدمتِ اسلام سمجھا جاتا ہے۔
صدر ِ پاکستان نے میرا خیال ہے کہ ایک اہم معاملے میں غور و فکر کا دروازہ کھولا ہے۔ انہوں نے خود کوئی رائے نہیں دی بلکہ علما سے درخواست کی ہے۔ اگر ہم اسلامی اخلاقیات کے بارے میں حساس ہوں تو اس پر صدرکی مذمت کے بجائے، اس بیان کو ایک علمی بحث کا نقطہ آ غاز بھی بنا سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایوانِ صدر کو بھی اسی پہلو سے بات کو آگے بڑھانا چاہیے۔ ہمارے ہاں حکمرانوںکا معاملہ یہ ہے کہ وہ مسلسل خدشات میں گھرے رہتے ہیں۔ وہ مذہبی طبقات کی ناراضی سے بطورِ خاص خوف زدہ ہوتے ہیں۔ صدر صاحب کو معذرت خواہانہ رویے کے بجائے، اسے ایک علمی چیلنج کے طور پر پیش کرنا چاہیے۔ اس وقت عدالت میں بھی یہ معاملہ زیرِ سماعت ہے۔ یوں اہلِ علم ایوانِ صدر کی وساطت سے اس میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ ربا کی ممانعت کے معاملے میں صدر صاحب کو کوئی ابہام ہے نہ دیگر کو۔ اصل سوال یہ ہے کہ قائد اعظم نے سٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر اسلامی اصولوں پر مبنی جس اسلامی معاشی نظام کی با ت کی تھی، اس کی تشکیل کیسے ممکن ہے؟ صدر صاحب نے جب ایک بات کہی ہے تو اسے کسی منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔