بلدیاتی انتخابات کا تیسرا مرحلہ ایک فرد کے نام رہا یا پھر ایک جماعت کے۔ فرد ہیں حنیف عباسی اور جماعت ہے ایم کیو ایم۔
2013ء کے انتخابات میں راولپنڈی سے عمران خان جیتے اور حنیف عباسی ہارے تھے۔ حنیف عباسی کی ہار حیران کن تھی۔ عمران خان نے چار حلقے کھولنے کی بات کی تھی۔ اگر مجھ سے پوچھا جاتا‘ تو میں راولپنڈی کے اس حلقے کو کھولنے کا بھی مطالبہ کرتا۔ حنیف عباسی نے لیکن اس ہار کو ایک سیاسی عمل کے طور پر دیکھا۔ دھاندلی کی رَٹ لگانے کے بجائے، سیاسی حرکیات پر نظر رکھی۔ عوام کے ساتھ اپنے تعلق کو مزید توانا کیا۔ ان کی خدمت کے لیے شب و روز ایک کر دیے۔ انہوں نے میٹرو جیسے میگا پروجیکٹ ہی کی نگرانی نہیں کی، شہر میں تعلیم، صحت اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کو اپنی ترجیح بنایا۔ ہسپتالوں کی انتظامیہ کے ساتھ پریس کانفرنسیں کیں۔ تعلیم اور صحت کے اداروں کی صورت ہی نہیں، سیرت بھی بدل ڈالی۔ آج اگر مجھے خدانخواستہ، ایمرجنسی میں کسی طبی مدد کی ضرورت ہو گی‘ تو میں ایک لمحے کا توقف کیے بغیر نجی ہسپتالوں پر سرکاری ہسپتال کو ترجیح دوں گا۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ شہر میں تعلیم اور صحت کے سب مسائل حل ہو گئے۔ راولپنڈی کے سرکاری ہسپتالوں میں خیبر پختونخوا سے لے کر کشمیر تک لوگ آتے ہیں۔ آبادی کے اس بہاؤ کا سامنا کرنا صحت کے کسی نظام کے لیے ممکن نہیں۔ اس کے باوجود اللہ کا شکر ہے کہ مایوسی کا لمحہ بہت کم آتا ہے۔ اس وقت مری روڈ پر گردوں کے امراض کے لیے ایک بڑا مرکز زیرِ تعمیر ہے۔ حنیف عباسی اس کے لیے سرگرم ہیں اور عنقریب یہاں علاج کی سہولتیں میسر ہوں گی۔ انتخابی ہار پر یہ ایک سیاسی کارکن کا ردِ عمل تھا۔ اُسے یقین تھا کہ وہ خدمت سے رائے عامہ کا رخ بدل دے گا۔
دوسری طرف جیتے ہوئے عمران خان تھے۔ ایک دن بھی شہر کے لوگوں کی خبر نہیں لی۔ ایک مرتبہ شیخ رشید کی معیت میں ایک گھر میں آئے‘ جب ناکے پر نہ رکنے والا نوجوان پولیس کی گولی کا نشانہ بنا تھا۔ شہر کے لوگوں نے یہی سمجھا کہ یہ ایک روایتی سیاست دان کا طرزِ عمل ہے‘ جو زخموں اور لاشوں کی سیاست کرتا ہے۔ عمران خان ایسے نہیں تھے‘ شیخ رشید کی صحبت نے ایسا بنا دیا۔ اس پر مستزاد ان کی روایتی خود پسند سیاست۔ وہ سیاست جو رومان سے پھوٹی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ لوگ ان کے ساتھ محبت کرنے کے پابند ہیں۔ یہ خیال کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ ان سے وابستہ زیادہ تر وہی ہیں‘ جو سیاسی حرکیات کو جانتے ہیں‘ نہ ان سے وابستگی کی عقلی بنیاد رکھتے ہیں؛ تاہم سب ایسے نہیں ہوتے۔ ایسے بھی تھے جو اس بے اعتنائی کو قبول نہ کر سکے۔ حنیف عباسی کی خدمت اور عمران خان کے لاپروائی نے رنگ دکھایا اور راولپنڈی شہر ن لیگ کی طرف لوٹ گیا۔ ن لیگ کے امیدواروں کی برتری حیران کن حد تک زیادہ ہے۔
اب آئیے ایم کیو ایم کی طرف، جس کی سخت جانی نے لوگوں کو حیران کر دیا۔ جیسے بدترین حالات کا اس جماعت کو سامنا تھا، اس کی کوئی مثال ہماری قومی تاریخ میں موجود نہیں۔ حکومت نہیں، ریاست اس کے مدِمقابل کھڑی تھی۔ میڈیا بھی کم مخالف نہیں تھا۔ ہر پولنگ سٹیشن پر رینجرز تھے۔ دھاندلی کو روکنے کی جو انسانی تدبیر ممکن تھی، کر ڈالی گئی۔ عمران خان جیسا 'مسیحا‘ مقابلے میں تھا‘ اور جماعت اسلامی کی برسوں کی جدوجہد بھی۔ اس کے باوجود اس نے مخالفین کو بری طرح پچھاڑ دیا۔ حیرت در حیرت یہ رہی کہ ن لیگ کسی شمار میں نہ ہونے کے باوجود پی ٹی آئی سے زیادہ نشستیں لے گئی۔ یہ سب کیوں ہوا؟ کیا اس کے بعد لازم نہیں کہ کراچی آپریشن کی حکمتِ عملی پر ایک بار پھر غور کیا جائے؟
میں مدتوں سے تنہا ایک بات کی دُہائی دے رہا ہوں۔ سیاسی عصبیت اور جرم جب جمع ہو جائیں تو جرم و سزا کے عمومی قانون کا نفاذ ممکن نہیں رہتا۔ مشرقی پاکستان میں بھی یہی ہوا تھا۔ عوامی لیگ محض عوام کی نمائندہ نہیں تھی۔ وہ مکتی باہنی جیسی پُرتشدد اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والی تنظیم کی خالق بھی تھی۔ یہی نہیں، اس تنظیم کو بھارت کی پوری تائید حاصل تھی۔ انہیں مالی مدد کے ساتھ دہشت گردی کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ اندرا گاندھی اور مودی صاحب دونوں، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو بھارت کا کارنامہ قرار دیتے ہیں۔ یہ کارنامہ ظاہر ہے کہ عوامی لیگ اور مکتی باہنی کی تائید ہی سے سرانجام دیا جا سکا۔ ریاست ان کے خلاف طاقت کے استعمال کا حق رکھتی تھی۔ اس کے باوجود آج تک ہم طاقت کے استعمال کو ریاست کی غلطی کہتے ہیں۔ یہ بات درست نہیں کہ عوامی لیگ کی طرف سے یہ حکمتِ عملی ریاست کے جواب میں اختیار کی گئی۔ مکتی باہنی اس سے پہلے بن چکی تھی اور وارداتیں بھی ہو رہی تھیں۔
اگر آج مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو ہم ریاست کی غلطی کہتے ہیں تو اس کی ایک وجہ ہے۔ ریاست جرم اور سیاسی عصبیت کے اشتراک سے جنم لینے والے سیاسی عمل کو سمجھ نہیں سکی۔ فوج کا پس منظر رکھنے والے کسی فرد کے لیے اسے سمجھنا ممکن بھی نہیں تھا۔ آج لیکن سیاسی حکومت ہے‘ اسے سوچنا ہو گا کہ کراچی کو ایک مختلف حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ جرم اور سیاست کو الگ کیے بغیر، کوئی پالیسی پوری طرح نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔ بلدیاتی انتخابات نے ثابت کیا کہ کراچی کے عوام کسی سیاسی قوت کو ایم کیو ایم کا متبادل نہیں سمجھتے۔ اس کا مطلب ہے کہ متبادل دیے بغیرکراچی کے عوام اور ایم کیو ایم کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اب دو صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ ایم کیو ایم کو اصلاحِ احوال کا موقع دیا جائے‘ جیسے مسلح بلوچوں اور سندھ میں جی ایم سید جیسے لوگوں کو دیا گیا۔ اس بات کا موقع کہ وہ جرم اور سیاست کو الگ کریں۔ دوسری صورت یہ ممکن ہے کہ کوئی ایسی مقامی قیادت سامنے لائی جائے جسے لوگ اپنا سمجھیں اور ایم کیو ایم کا متبادل بھی۔
میرا احساس ہے کہ کراچی کی مہاجر آبادی ایک مخمصے میں ہے۔ وہ کسی غیر مہاجر پر، سردست اعتبار پر آمادہ نہیں۔ وہ ایم کیو ایم سے خوش نہیں ہے۔ لیکن اس میں جو عصبیت بیدار ہو چکی، وہ اسے کسی دوسری جماعت میں جانے نہیں دے گی‘ جس کی بنیاد 'مہاجر قومیت‘ میں نہ ہو۔ یہاں ابن خلدون سے راہنمائی لینا چاہیے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ایک عصبیت پر اُس سے بڑی کوئی عصبیت ہی قابو پا سکتی ہے۔ مہاجر، سندھی یا پختون اور پنجابی عصبیت پر اگر کوئی دوسری عصبیت غالب آ سکتی تھی تو وہ پاکستانیت تھی۔ اس نام کی کوئی عصبیت ہم پیدا نہیں کر سکے۔ جب تک ایسا نہیں ہو جاتا، میرا خیال ہے کہ ہمیں ایم کیو ایم کا متبادل مہاجروں ہی میں سے تلاش کرنا پڑے گا‘ یا پھر ایم کیو ایم کو اصلاح احوال کا موقع دینا ہوگا۔
اس وقت کراچی اور سندھ میں ایم کیو ایم یا پیپلز پارٹی کو نظر انداز کر کے کوئی حل مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا تعلق غلط اور صحیح کی اصولی بحث سے نہیں، سیاسی حرکیات سے ہے اور وہ حالات کے تابع ہوتی ہیں۔ کوفہ سیدنا عمرؓ کے دور ہی سے فساد کا گھر تھا۔ امیرالمومنین جسے گورنر بنا کر بھیجتے، ناکام ہو کر واپس آجاتا۔ ایک مجلس میں ذکر کیا کہ میں سب سے نیک اور متقی فرد کا انتخاب کرتا ہوں لیکن ناکام لوٹ آتا ہے۔ مجلس میں تشریف فرما ایک صحابی نے کہا: امیرالمومنین! اگر آپ تقویٰ اور نیکی پر اصرار نہ کریں تو معاملات سدھر سکتے ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے سنا تو مسکرائے اور انہی سے کہا کہ آپ جا کر وہاں کے معاملات سنبھال لیں۔ اس کے بعد پھر کسی کو شکایت کا موقع نہیں ملا۔ کراچی کے معاملات کو بھی جروم و سزا کی آنکھ سے نہیں، سیاسی حرکیات کے حوالے سے دیکھنا ہو گا۔ بلدیاتی انتخابات کا پیغام بھی یہی ہے۔
آخری بات: اسلام آباد شہر میں تحریکِ انصاف کو زیادہ ووٹ ملے تو کہا گیا کہ شہری لوگ پڑھے لکھے ہوتے ہیں‘ اور ان میں سیاسی شعور زیادہ ہو تا ہے۔ اب راولپنڈی اور کراچی کے شہریوں کے بارے میں کیا فتویٰ ہے؟