بعض نئے لکھنے والے ایسے ہیں کہ ندرتِ خیال یا اسلوبِ تحریر کے باعث آپ کو چونکا دیتے ہیں۔افسوس کہ قومی اخبارات میں ،اُن کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
میں سوشل میڈیا سے دور رہتا ہوں۔ٹی وی اور اخبار میں، مجھے ابلاغ کے جو مواقع میسر ہیں، ان پر شاد ہوں۔ دوست توجہ دلاتے ہیں تو چند ویب سائٹس دیکھ لیتا ہوں۔ان سائٹس پر جو کچھ میسر ہے،اسے پڑھ کر میری وہ رائے بنی جس کا میں نے کالم کے آ غاز میں اظہار کیا ہے۔نوجوان جو کچھ سوچ رہے ہیں، مذہب، سماج اور ریاست کے باب میں جو خیالات سامنے آرہے ہیں، ان میں بے پناہ تازگی ہے۔میراتاثریہ بھی ہے کہ یہ لکھنے والے تعصبات سے بڑی حد تک بے نیاز ہیں۔وہ کسی ایک تنگ نائے میں قید ہونے کے لیے تیارنہیں۔انہیں جو بات جہاں اچھی لگتی ہے، اسے قبول کر لیتے ہیں۔وہ ابلۂ مسجد ہیں نہ تہذیب کے فرزند۔ وہ سوال اٹھاتے ہیں۔جواب سے اطمینان نہ ہو تو محض عمر یا منصب کے احترام میں اسے قبول نہیں کرتے۔یہی نہیں، وہ بات کہنے اور اختلاف کر نے کا سلیقہ بھی رکھتے ہیں۔
ہمارا قومی پریس بڑی حدتک ان سے بے خبر ہے۔بعض کے کالم کبھی کبھارکسی اخبار میں چھپ جاتے ہیں جیسے آصف محمود ہیں یا فرنود عالم۔تاہم ان کے ہاں جو نیا پن ہے،اسلوب اور خیال، دونوں حوالوں سے،اس کی ویسی پزیرائی نہیں ہو سکی جیسی ہونی چاہیے۔ان کے جوہران ویب سائٹس پر کھلتے ہیں جو اجمل شاہ دین، وجاہت مسعود اور سبوخ سید سے منسوب ہیں۔سبوخ سید کی تحریرمیں جو کاٹ ہے،اس کی داددینے والوںکا دائرہ محدود ہے۔ظفراللہ خان کیا اچھا لکھتے ہیں۔ان کا معاملہ تو ہے کہ وہ خود بھی اخبارات سے بے پروا ہیں۔یہ چند نام میں نے یوں ہی گنوا دیے۔فرخ شہبازوڑائچ صاحب نے'کالم پوائنٹ‘ کے عنوان سے چند نئے لکھنے والوں کے کالم جمع کر دیے ہیںجن میں سے اکثر کا تعلق مضافات سے ہے۔یہ کنول کے وہ پھول ہیں جو جوہڑ میں کھلے ہیں۔
ان نو جوان لکھنے والوں میں،میں نے یہ محسوس کیا کہ وہ پڑھتے ہیں اور سوچتے بھی ہیں۔ان کے مطالعے کا دائرہ وسیع ہے۔مذہب، فلسفہ، سیاست، سماج،ان کے ہاں ان تما م مو ضوعات کاادراک پایا جا تا ہے جو کسی تحریر کو قابلِ مطالعہ بناتے ہیں۔پھر لٹریچر سے شغف کے باعث،یہ نو جوان اسالیبِ سخن سے بھی واقف ہیں۔ان میں خاص بات یہ ہے کہ لمحہ ء مو جود سے آگے دیکھ سکتے ہیں۔وہ خود کو نوازشریف ، عمران خان یا سراج الحق کے دائرے میں قید نہیں رکھتے۔سماج ، ریاست اور مذہب کو وسیع تر اور شخصیات سے ماورادیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ان میں مو لا نا ابو الکلام آزاد کی انشا پردازی کے ایسے مداح بھی ہیں جو منٹو کی بے ساختگی کی داد بھی دے سکتے ہیں۔میرا احساس یہ بھی ہے مدارس اور دینی پس منظر رکھنے والے جب دورجدید کی فکری و سماجی ضروریات سے متعارف ہوتے ہیں تو ان کے ہاں حالاتِ حاضرہ کی تفہیم ان نو جوانوں سے کہیں بہتر ہے جو دینیات یا روایت کا پس منظر نہیں رکھتے۔نئے لکھنے والوں میںایسے نو جوانوں کی تعداد زیادہ ہے اور یہ ایک نیک شگون ہے۔
افسوس یہی ہے کہ قومی اخبارات ان نئے لکھنے والوں سے بے نیاز ہیں۔آج صورت حال یہ ہو چکی کہ مستقل کالم نگاروں سے اخبارات کے صفحات مملو ہیں۔کسی نئے لکھنے والے کے لیے جگہ مو جود نہیں۔مستقل لکھنے والوں میں بھی بہت سے ایسے ہیں کہ ان کے لکھنے کا جواز ،کم از کم میں تو تلاش نہیں کر سکا۔میرے نزدیک ایک کالم یا مضمون کی اشاعت کے چند جواز ہیں۔جیسے ندرتِ خیال، حسنِ بیان،معلومات۔ پیغام یا سماج کا فکری ارتقا۔سیاسی تجزیہ اسی کی ایک قسم ہے۔لکھنے والے کا علم، مطالعہ، تجربہ، ان موضوعات میں رنگ بھرتا ہے۔بہت سی تحریریں، ان سب خواص سے تہی دامن ہوتی ہیں۔اس کے باوجود سالوں سے اخبارات میں چھپ رہی ہیں۔میرا کہنا ہے کہ ادارتی صفحات پر اُن نئے لکھنے والوں کا حق ہے جنہیں ایسے بے رنگ، بے بو اور بے ذائقہ مضامین اور کالموں کے خالقوں نے غصب کر رکھا ہے۔اگر انہیں قبضہ گروپ قرار دیا جائے تو یہ تعبیر بے جا نہیں ہوگی۔
ہم جانتے ہیں کہ بہت سی سیاسی جماعتیں اور حکومتیں، اس حوالے سے اخبارات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ہر حکومت یہ چاہتی ہے کہ اخبارات میں اس کا نقطہ نظر بیان ہو تا رہے۔ہر سیاسی جماعت بھی اس کی خواہش رکھتی ہے۔اخبارات کے لیے شاید اس دباؤ کو نظر انداز کر نا ممکن نہیں ہو تا۔اس کے علاوہ جب سے صحافت کو صرف کاروباری نقطہ نظر سے دیکھا جانے لگاہے،اس کے بعد ادارتی معاملات بھی مارکیٹنگ کے شعبے کے پاس چلے گئے ہیں۔مارکیٹنگ کا زاویہ نظر،ایک ماہر ایڈیٹر سے مختلف ہو تا ہے۔ایک ایڈیٹر کے نزدیک جو خوبیاں کسی تحریر کو اشاعت کا جواز بخشتی ہیں، وہ ان خوبیوں سے مختلف ہیں جن پر مارکیٹنگ کے کسی ماہر کی نظر ہوتی ہے۔
میں کاروباری ضرویات کا منکر نہیں۔عملی فیصلے زمینی حقائق ہی کی روشنی میں ہوتے ہیں۔تاہم اس میں توازن پیدا کیا جا سکتا ہے۔آخر ہم نجی زندگی میں بھی تو ایسا کر تے ہیں۔ہم ذاتی معاملات میں جدت، روایت، مذہب اورعصری تقاضوں میں توازن رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اسی توازن کی یہاں بھی ضرورت ہے۔مثال کے طور ہر اخبارمیںایک ایڈیٹوریل بورڈ ہونا چاہیے جو یہ جائزہ لے کہ کس طرح کے مضامین اور کالم شائع ہورہے ہیں۔ایک لکھنے والوں کی دس تحریروں میں کتنی ہیں جو اشاعت کے لیے سند ِ جوازرکھتی ہیں۔یوں سال کی اوسط نکالی جا سکتی ہے۔اس کے بعد یہ طے کیا جانا چاہیے کہ کوئی کالم جاری رکھا جا سکتا ہے یا نہیں۔اس بورڈ میں وہ لوگ ہونے چاہئیں جو جانتے ہوں کہ ایک قابل اشاعت یا اچھی تحریر کے اجزائے ترکیبی کیا ہوتے ہیں۔
اسی طرح میری تجویز ہوگی کہ ادارتی صفحات کا ایک حصہ نئے لکھنے والوں کے لیے مختص ہو۔اب کم و بیش ہر اخبارمیںدو صفحات کالموں اور مضامین کے لیے وقف ہوتے ہیں۔اگر ایک چوتھائی صفحے پر نئے لکھنے والوں کو موقع دیا جائے تواس سے اخبارات کا مستقبل زیادہ تابناک ہو سکتا ہے۔دنیا کے بڑے اخبارات اس کا اہتمام کرتے ہیں کہ ادارتی صفحات پر چھپنے والے مضامین میں موضوعات کے اعتبار سے تنوع ہو اورا س کے ساتھ ماہرین کے مضامین شائع ہوتے رہیں جو مستقل لکھنے والے نہیں ہوتے۔اردو اخبارات میں بھی اس روش کو اپنا نا چاہیے۔عصری سیاسی مو ضوعات کا غیر متوازن غلبہ عوام کی نفسیات پر بھی منفی اثرات ڈال رہا ہے۔
نئے لکھنے والوں کا یہ حق ہے کہ انہیں ابھرنے کا موقع دیا جائے۔ہم میں سے ہرقدیم لکھنے والے کواس سوال پر غور کر نا چاہیے کہ اس کے لکھنے کا جواز کیا ہے؟یا اگر وہ نہ لکھے تو اس سے سماج و ریاست کی تعمیر و ترقی اور ارتقا میں کیا خلا واقع ہوگا؟اخبارات کے ذمہ داران کو بھی سوچنا چاہیے کہ جو کچھ شائع ہورہا ہے، کیااس کی کوئی معقول وجہ بیان کی جا سکتی ہے؟
(پس ِ تحریر:چند دوستوں نے اصرار کیا اور فیس بک پر میرا ایک پیج بنادیا۔اس پر وہ میرا کالم مشتہرکردیتے ہیں۔اب معلوم ہواہے کہ کسی اور نے مہربانی کی اور میرے نام سے ایک اور پیج بنا دیا۔اس پر بہت کچھ مشتہر کیا جا رہا ہے، جس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔پڑھنے والوںسے درخواست ہے کہ وہ اس حوالے سے متنبہ رہیں۔صرف وہی میرا پیج شمار کیا جا ئے جس پر میرا کالم ہوتا ہے ۔میں خود سوشل میڈیا میں نہیں ہوں۔)