نسبتیں بہت سی ہیں۔خاندان، علاقہ،وطن۔ایک نسبت لیکن ایسی ہے کہ سرشار کر دیتی ہے۔ایک عجیب احساسِ تفاخر، وجود کا احاطہ کرتا ،ایک پیکرِ آب و گل کو زمین سے اٹھاتاا ور ملاء اعلیٰ کا مسجود بنادیتا ہے۔اس نسبت کا تعلق رسالت مآب سیدنامحمد ﷺ سے ہے۔میں آپ کا امتی ہوں،آپ کی نسبت سے میں انبیا کی کہکشاں سے جڑ جاتا ہوں ۔اس الہامی روایت سے،آپﷺ جس کا آخری مظہر ہیں،قیامت کی صبح تک ہدایت کاواحد اور سب سے مستندماخذ۔پھر میرے ہرطرف نور ہوتا ہے،حیات کا کوئی گوشہ پھر تاریک نہیں رہتا۔
12۔ ربیع الاوّل کو میرا سماج بھی نسبت کے اسی احساس سے مہک اٹھتا ہے۔بازار سج جاتے ہیں،ٹولیاں نکلتی اورآپؐ کے حضور میں عقیدت کے پھول پیش کرتی ہیں۔ایک جشن کا سماں ہوتا ہے،شام ڈھلتے ہی لوگ گھروں کو لوٹتے ہیں اور پھر اگلے سال تک ہماری یہ نسبت دوسروں نسبتوں کے ہجوم میں کہیں کھو جا تی ہے۔خاندان، وطن، اورعلاقے کی نسبتیں ترجیحات میں جگہ پالیتی ہیں۔ میرااحساسِ تفاخراب کسی اور نسبت سے جلا پاتا ہے۔تورانی، ایرانی، پاکستانی اور اگر میں مذہب کی طرف رجوع کرنے والا ہوں تو سنی،شیعہ،دیوبندی، بریلوی۔ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ایک امتی کی شناخت میری ہر شناخت پر غالب رہے؟
مذہب کی ایک تجسیم ثقافتی بھی ہے اوریہ فطری ہے۔مذہب مقامی کلچر سے اثر قبول کرتا اور اس سے وابستگی کو رد نہیں کرتا اگر اس کی بنیادی تعلیم پر حرف نہ آتا ہو۔یہ فنونِ لطیفہ ہوں یا فیشن،ہر معاملے میں مذہب کی تعلیم یہی ہے۔اسی سبب سے اسلام جس علاقے میں گیا،وہاں کی تہذیب سے متصادم نہیں ہوا۔رسالت مآبﷺ نے
قبولِ اسلام کے بعد اہلِ عرب کے نام بھی تبدیل نہیں کیے، سوائے ان ناموں کے جن میں شرک پایا جا تا تھا۔آج بھی انڈونیشیا ہو یا مشرقِ وسطیٰ، ایران ہو یا افریقہ مسلمانوں کے نام وہی ہیں جو مقامی ہیں۔ہمارے ہاں بھی عرب ناموں کا رواج عربی اثرات کے باعث ہوا ہے ورنہ یہ کوئی دینی ضرورت نہیں تھی۔نام چو نکہ نسبت ظاہر کرتی ہے اور ایک مسلمان کو اچھا لگتاہے کہ اس کا یا اس کے بچوں کا نام اللہ کے ناموں یا رسالت مآب ﷺ سے نسبت رکھتا ہو،اس لیے ہم اس کو ترجیح دیتے ہیں ۔تاہم یہ مستحب درجے کی چیز ہے۔ہمارے ہاں بہت سے نام ایرانی اور فارسی کا پس منظر رکھتے ہیں۔ان پر دینی حوالے سے کوئی اعتراض وارد نہیں ہو تا۔
رسالت مآب ﷺ اور مذہب کے ساتھ ہمارے وابستگی پر ثقافتی رنگ ایسا غالب ہوا کہ اس سے مذہب کا جوہر پسِ منظر میں چلا گیا۔اب مذہب جشن کی چیزبن گئی۔رمضان جشنِ قرآن کا موسم ہے اور ربیع الاوّل جشنِ عید میلاد النبی کا۔مسلمان معاشروں میں جو تہذیبی اورثقافتی تبدیلیاں آئیں،ان کے باعث سیرت دو موضوعات میں سمٹ گئی:مغازی اور فضائل۔اس سے دو رجحانات پیدا ہوئے۔ایک جہادی اور دوسرانعت گوئی کا رحجان۔سیرت کو محض جنگ وجہاد سمجھنے والوں نے یہ گمان کیا کہ سیرت صرف قتال کا نام ہے۔انہوں نے دین کی ساری تعلیم کا مرکز اس تصور کو قرار دیا۔یہ بات کہ رسالت مآب ﷺ نے کوئی معاشرہ تشکیل دیا،رہن سہن کے طریقے بتائے؛ انسانی حقوق کے باب میں کوئی تعلیم دی۔ان کا ذکر اگر ہوا بھی تو بطورحواشی۔گویا متن سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
جنہوں نے سیرت کو فضائل کا بیان جا نا،انہوں نے نعت گوئی کے کلچر کو فروغ دیا۔اب سیرت کے جلسے نہیں ہوتے، نعت گوئی کی محافل ہو تی ہیں۔نعت خوانوں کو نوٹوں میں تولا جا تا ہے اور ان کی اہمیت ایک عالم کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ایسی محافل پر روپیہ خرچ کر نے کے بعد لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کے ساتھ نسبت کا حق ادا ہو گیا۔یہ رجحان کچھ ایسا غالب ہوا کہ محترم مفتی منیب الرحمٰن صاحب جیسی شخصیت کو بھی اپنے کالم میں اس عدم توازن پر صدائے احتجاج بلند کر نا پڑی۔آج ہمارے لیے سیرت صرف جہاد کا بیان ہے یا جشن کا سماں۔رسول اللہﷺ کے ساتھ نسبت کوہم نے دودائروں میں مقید کر دیا ہے۔
ایسا کیوں ہوا؟اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ ہم نے سیرت کو اصل ماخذ سے سمجھنے کے بجائے،اسے اپنے خیالی پیکر میں ڈھالنا چاہا۔سیرت کاا صل مآخذقرآن مجید ہے۔آج ہم ایک نظریہ یا رویہ اختیار کرتے اورپھر اس کے حق میں دلائل کی تلاش کے لیے قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے ہیں۔میں دیکھتا ہوں کہ کیسے لوگ قرآن مجید کی آیات کو سیاق وسباق سے اٹھاتے اور اپنی تاویل کا حصہ بناتے ہیں۔پیغمبر کون ہوتے ہیں؟انہیں کیوں مبعوث کیا جاتا ہے؟ان پر ایمان کے تقاضے کیا ہیں؟پیغمبر اور خدا کا تعلق کیا ہے؟ان سے محبت کا معیار کیا ہے؟انبیا کا ایک دوسرے سے تعلق کیا ہے؟کیاپیغمبروں کے مابین تقابل کرنا چاہیے؟بطور مسلمان سابقہ انبیا سے ہماری نسبت کیا ہے؟پیغمبر لوگوں کو اپنی طرف بلاتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کی طرف؟اللہ تعالیٰ نے کائنات کا جو مجموعی نظام تشکیل دیاہے،اس میں انبیا کی حیثیت کیا ہے؟تصورِ نبوت سے متعلق کوئی بنیادی سوال ایسا نہیں، جس کا جواب قرآن مجید نے نہ دیا ہو۔ ہم نے ان سوالات کے لیے کبھی قرآن مجید کی طرف رجوع نہیں کیا۔ہم نے ،شاید مقامی مذہبی کلچر کے زیرِ اثر،ایک تصورِ نبوت اختیار کیا ور پھر بعض ایسی روایات سے ان کوثابت کرنا چاہا جو محدثین کے ہاں بھی ناقابلِ اعتبار ہیں،اس لیے کسی مصدقہ مجموعہ احادیث میں جگہ نہیں پا سکیں۔اس کا نقصان یہ ہوا کہ ہم اسلام کو سمجھ سکے نہ رسالت مآب ﷺ کی سیرت کو۔ہم نے بعثتِ پیغمبر کی اس بنیادی وجہ کو نظر انداز کیا کہ وہ انسانوں کو اپنے رب سے جوڑنے کے لیے آتے ہیں۔یہ کام کیسے ہوگا،اس کے لیے خود کو بطور نمونہ پیش کرتے ہیں۔قرآن مجید آپﷺ کی ذات والا صفات کو اسوہ حسنہ قرار دیتا ہے۔پیغمبرکی دیانت کا عالم یہ ہو تا ہے کہ وہ بار بار
متوجہ کرتا ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی طرف نہیں، خدا کی طرف بلانے آیا ہے۔وہ اس بات کو مسلسل دہراتاہے کہ اس کی بعثت کا اصل مقصد لوگوں کو قیامت کی خبر دینا اورانہیں خبردار کرنا ہے کہ انہیں اللہ کے حضور میں پیش ہونا اوراپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہونا ہے۔رسالت مآبﷺ اس غم میں گھلے جاتے تھے کہ لوگ آخرت میں خدا کی پکڑ سے بچ سکیں۔انسانوں کے ساتھ محبت کا یہ وہ آ خری درجہ ہے، جس پر پیغمبر کے علاوہ کوئی فائز نہیں ہو سکا۔آج دین کے علم بردار لوگوں کو واصلِ جہنم کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔
جہاد سیرت کا ایک باب ہے،اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا؛تاہم یہ زندگی کا اصل روپ نہیں ہے۔جنگ ایک ہنگامی صورتِ حال ہے جس کا عمومی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔رسالت مآب ﷺ نے تو سماج تشکیل دیا اور ریاست بھی۔سیرت کو مغازی سمجھنے کا نتیجہ یہ ہے کہ مکی اسوہ حسنہ پس منظر میں چلا گیا اور عہدِ نبوی کے مدنی باب کا بھی سب سے بڑا حصہ نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے۔اسی طرح نعت گوئی کے کلچرنے سیرت رسول کی تفہیم اور اطاعت کے احساس کوپس منظر میں دھکیل دیا۔
رسالت مآب ﷺ سے میری نسبت میرے تفاخر کی اساس ہے۔لیکن اس کے ساتھ ایک بڑی ذمہ داری بھی ہے۔بندے پرجب یہ احساس غالب آتا ہے تو اقبال کی وہ رباعی وجود میں آتی ہے جس کا باربار ذکر رہتا ہے۔پھر آ دمی سوچتا ہے کہ میرا نامہ اعمال جب اللہ کے حضور پیش ہوا اور اس وقت رسالت مآب ﷺ بھی مو جود ہوئے تو بطور امتی کیا میں آپ کا سامنا کر پاؤں گا؟کیا رسول اللہ اس موقع پر مجھ پر فخر کریں گے؟ خدا کی جواب دہی کا مرحلہ تو اس کے بعد ہے۔