سرمایہ دارانہ جمہوریت میںسرمایہ ہی فیصلہ کن ہوتا ہے۔لودھراں میں بھی یہی ہوا۔تاہم اگر انتخاب صدیق بلوچ اور جہانگیر ترین میں ہو توترجیح بہر حال جہانگیر ترین ہی کو دی جا نی چاہیے۔ایک مجہول آ دمی کے ہاتھ میں کوئی کیسے اپنا ہاتھ دے سکتا ہے؟ اس تجربے کا حاصل یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں امیدوار کی شہرت اور ہیت سے پوری طرح صرفِ نظر نہیں کر سکتیں۔امیدوار کی ڈگری بے شک جعلی ہو لیکن اسے یہ تو معلوم ہو نا چاہیے کہ کس مضمون میں ہے۔
یہ مقدمہ درست ہے کہ جمہوریت کا مستقبل سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں ہے، پارلیمنٹ کے ہاتھ میں نہیں۔پارلیمنٹ تو ایک خالی برتن ہے۔سیاسی جماعتیں،جو کچھ اس میں ڈالیں گی،وہی کچھ باہر نکلے گا۔زمزم ڈالیںگے تو زمزم ،شراب ڈالیں گی تو شراب۔پارلیمانی نظام میں،حلقے کی سیاست اہم ہے۔سیاسی جماعتیں مضبوط ہوں تو امیدوار ٹکٹ کے متلاشی ہوتے اور سیاسی جماعتوں کے معیار پر پورا اترنے کی کوشش کرتے ہیں۔سیاسی جماعتیں کمزور ہوں تومضبوط امیدوار تلاش کر تی ہیں۔جس کے پاس پیسہ زیادہ ہواور برادری بڑی ہو، عام طور پر وہی انتخاب ہوتا ہے کہ جیتنے کی اہلیت نسبتاً زیادہ رکھتا ہے۔ہماری سیاسی جماعتیں کمزور ہیں۔انہیں جہانگیر ترین جیسے ارب پتی یا صدیق بلوچ جیسے بڑے قبیلے کے نمائندے کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ اب فیصلہ جس کے حق میں ہو، وہ نظام میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں لا سکتا کہ مخلوق اپنے خالق ہی کے تابع ہوتی ہے۔
جماعت اسلامی واحد سیاسی جماعت ہے جس نے سیاسی حرکیات کو بدلنے کی شعوری کوشش کی۔ایک ایسے سیاسی کلچر کو فروغ دیناچاہا جس میں جماعت امیدوارپر بالا دست ہو۔1950ء کی دہائی میں اسی اصول پر انتخابات میں حصہ لیا گیا۔وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکی۔ پے در پے انتخابی شکستوں نے اسے روش بدلنے پر مجبور کیا۔جماعت پہلے انتخابی عمل کو توسیعِ دعوت کا کام سمجھتی تھی ۔یوں انتخابی شکست اس کے لیے حو صلہ شکنی کا باعث نہیں ہوتی تھی ۔روایت ہے کہ 1970ء کے انتخابات میں جماعت کے کارکن پہلی بارشدید مایوس ہوئے کیونکہ وہ فتح کو اپنی دہلیز پر کھڑا دیکھ رہے تھے۔راولپنڈی کے مغموم کارکنوں سے امیر ضلع مو لا نا فتح محمد نے خطاب کیا اور کہا:''اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں ایک بڑی آ زمائش سے بچا لیا‘‘۔اس طرح کے جملے ٹوٹتے حو صلوں کا سہارا بن جاتے تھے،لیکن شاید سب کے لیے نہیں۔ان ہی میں سے ایک خرم مراد بھی تھے۔انہوں نے پہلی بار جماعت کے کارکنوں کو باور کرایا کہ انتخابات جیتنے کے لیے لڑے جاتے ہیں،توسیعِ دعوت کے لیے نہیں۔یہ بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں تھی۔انتخابی جیت لیکن سماجی اور زمینی حقائق کے تابع ہوتی ہے۔یہ حقائق وہی تھے، دیگر سیاسی جماعتیں جن کا لحاظ رکھتی ہیں؛سرمایہ ،برادری اور مقامی عصبیتیں۔یوں جماعت اسلامی نے بھی امیدوار کے سامنے اپناسرجھکا دیا۔
بھٹو صاحب کے عہد میں یہ موقع پیپلزپارٹی کو بھی ملا۔لیکن اس نے پہلے ہی انتخابات میں جاگیرداروں سے مصالحت کر لی کہ مروجہ معیار کے مطابق،انتخابات میں کامیابی کی صلاحیت ان ہی میں تھی۔ پھر یہ موقع تحریکِ انصاف کو ملا۔عمران خان بھی بھٹو صاحب کی طرح امیدوار کے سامنے جھک گئے۔اب آئندہ تحریکِ انصاف کا ٹکٹ جہانگیر ترینوں اور علیم خانوں ہی کو ملے گا اور یہ بات جسٹس وجیہ الحسنوں کوکیسی ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔لودھراں کے انتخابات نے تو گویا اس اندازِ نظرپر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔
لوگ اس ضمن میں خیبر پختون خوا کی بات کرتے ہیں جہاں تحریکِ انصاف نے عام لوگوں کو ٹکٹ دیے اور وہ جیتے۔بطور امرِواقعہ یہ بات درست ہے لیکن اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔کے پی دوسرے صوبوں کے مقابلے میں ذہنی طور پر آزاد لوگوں کا علاقہ ہے۔یہاں کے سماجی اور سیاسی کلچر میں غلامی نہیں ہے۔تحریکِ انصاف سے پہلے اس کامظاہرہ متحدہ مجلس ِ عمل بھی کر چکی۔اس اتحاد نے بھی عام افراد کو ٹکٹ دیے اور وہ کامیاب ہوئے۔مسئلہ تو پنجاب اور سندھ کا ہے۔پنجاب ملک کا کم وبیش ساٹھ فی صد ہے۔یہاں لوگ ذہنی طور پر جاگیر اور سرمایے کی غلامی سے نہیں نکل سکے۔سندھ کا معاملہ بھی یہی ہے۔جب تک یہاں تبدیلی نہیں آتی، ملک کا سیاسی کلچر تبدیل نہیں ہوگا۔بدقسمتی سے ن لیگ اور تحریکِ انصاف جیسی جماعتوں نے اس کلچر کو بدلنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ ن لیگ تو تھی ہی روایتی جماعت،تحریکِ انصاف نے بھی اب اسی کے نقشِ قدم پر چلنے کا فیصلہ کر لیا۔
تو کیا پنجاب اور سندھ کا سیاسی کلچر تبدیل ہونے کا کوئی امکان نہیں؟ میرا جواب نفی میں ہے۔لودھراں کا نتیجہ بتا رہا ہے کہ امیدوار کی اہمیت سے پوری طرح انکار نہیں کیا جا سکتا۔اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کا تجزیہ بھی یہی ہے۔یہاں شکست ن لیگ کو چھو کر گزر گئی۔وجہ یہ بتائی گئی کہ پارٹی نے مخلص اورباکردار افراد پر پراپرٹی ڈیلرز کو ترجیح دی۔عوام کے ایک بڑے حصے نے اس فیصلے سے اتفاق نہیں کیا۔اس کی ایک مثبت مثال سیالکوٹ میں بھی سامنے آئی۔ یہاں ن لیگ نے وریو خاندان کے اختر سبحانی پر مسلم لیگ کے دیرینہ کارکن چوہدری امان اللہ باجوہ کر ترجیح دی۔عوام نے اس فیصلے کی تائید کیا اور وہ جیت گئے۔اختر سبحانی صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔یہ خاندان براستہ ق لیگ ،ن لیگ میںآیا۔اگر اب امان اللہ باجوہ چیئرمین کے منصب کے لیے بھی ن لیگ کے امیدوار بنتے ہیں تواس سے یقیناً ن لیگ کی مضبوطی کا تاثر سامنے آئے گا۔
سیاسی جماعتیں مضبوط ہوں گی تو امیدواروں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنیں گی۔بصورتِ دیگر وہ ان کے رحم و کرم پر رہیں گی۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس باب میں سیاسی جماعتوں کی قیادت نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ن لیگ تو اس میں سر ِ فہرست ہے۔ شریف خاندان اقتدار میں آنے کے بعد جس طرح ن لیگ کو نظر انداز کرتا ہے،وہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک المنا ک باب ہے۔یہ اس کا نتیجہ ہے کہ وہ صدیق بلوچوں کو ٹکٹ دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ جو وزیر مشیر ایسے امیدواروں کے دفاع میں ٹی وی پروگراموں میں دلائل تراشتے ہیں، وہ تنہائی میں اپنا سامنا کیسے کرتے ہوں گے؟عمران خان جب شاہ محمود قریشی کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر 'سٹیٹس کو‘ کے خلاف اعلان ِ بغاوت کرتے ہیں تو کیا ان کے ہاتھ میں کوئی جنبش نہیں ہوتی ہوگی؟
پارلیمانی جمہوریت میں لیکن ایسا ہی ہوتا ہے الا یہ کہ سیاسی جماعتیں مضبوط جمہوری کلچر اور اخلاقی بنیادوں پر کھڑی ہوں۔ایک طریقہ متناسب نمائندگی کا بھی ہے جو سیاسی جماعتوں کو امیدوار وں کی قید سے نجات دلا سکتا ہے۔جب تحریکِ انصاف کے بارے میں قدرے خوش گمانی موجود تھی تو میں نے عمران خان کو اس جانب توجہ دلائی دی۔میرا خیال ہے کہ وہ 2011ء میں مقبولیت کی جس سطح پر تھے،یہ کام کر سکتے تھے۔انہوں نے مگر علاج بالمثل ہی کو ترجیح دی۔انہیں شاید اندازہ نہیں کہ روایتی سیاسی کلچر نے انہیں اپنی پچ پر کھیلنے پر مجبور کر دیا ہے۔اب ن لیگ جیتے یا تحریکِ انصاف ،جیت ایک طبقے ہی کی گرفت میں رہے گی۔جہانگیرترین جیتیں یا ذوالفقار مرزا،جیت تو شوگر مافیا کی ہے۔پھر یہ کہ اس پچ پر برسوں سے کھیلنے والے ان کے مدِ مقابل ہیں۔اس نے عمران خان کی کامیابی کے امکان کو مزید مدھم کر دیا ہے۔
میرا خیال ہے کہ سیاسی کلچر کی تبدیلی کے لیے، سیاسی جماعتوں پر خارج سے دباؤ ہو نا چاہیے۔ رائے ساز حلقوں میں اس موضوع پر بات ہونی چا ہیے کہ عوام کو وہ انتخابات کیسے دیے جائیں جن میں وہ خوب سے خوب تر کاانتخاب کریں نہ کہ بد سے بد ترکا۔