وزیرداخلہ کی مسلسل تردید کے باوجود،پاک سرزمین پر داعش کے نقوشِ پادریافت کر لیے گئے ہیں۔یہ کارنامہ ایک سرکاری ادارے ہی نے سرانجام دیا۔سیالکوٹ کی سرزمین پر یہ تنظیم بیج سے پودا بنی۔ضلع بھر میں انفراسٹرکچرقائم ہوا۔ قریب تھا کہ اس کی جڑیں پورے ضلع میں پھیل جاتیں کہ ریاست کی نظر پڑ گئی۔اب تو ایف آئی آر درج ہوچکی۔اس کے بعد بھی،دیکھیے اب وزیر داخلہ کیا تاویل پیش کر تے ہیں۔میر ے لیے البتہ، یہ دریافت اچنبھے کی بات نہیں۔
داعش کے ساتھ مدارس،طالبان،دینی تبلیغ کے اداروں،مذہبی سیاسی جماعتوں اور چند کالم نگاروں کاکیا تعلق ہے؟'بظاہر‘ کچھ نہیں۔یہ سب داعش کے ذمہ داروں سے کبھی ملے ہوں گے اور نہ ان سے واقف ہوں گے۔مجھے اس بات پر سو فی صدیقین ہے۔ مدارس کے ذمہ داران ببانگِ دُہل اعلان کرتے ہیں کہ کوئی مدرسہ دہشت گردی کی تربیت میں ملوث نہیں۔'بظاہر‘ وہ صحیح کہتے ہیں۔لیکن بظاہرصرف یہی نہیں ہے، کچھ اور بھی ہے۔تاشفین کو پکڑا جا تا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ دینی دعوت کے ایک ادارے میں پڑھتی رہی ہے جس کا دہشت گردی سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔سیالکو ٹ سے گرفتار ہونے والے بھی ایک مذہبی فلاحی جماعت سے وا بستہ رہے ہیں۔ کراچی میں ایک جدید تعلیم یافتہ شخص گرفتار ہوتاہے جو جدید تعلیمی ادارے میں پڑھا رہا ہے۔بظاہر جدید تعلیمی اداروں کا داعش سے کوئی تعلق نہیں۔ایک مذہبی جماعت کے افراد بھارتی پرچم سڑک پر بچھاتے ،اس پر گائے ذبح کرتے اور ساتھ ہی مودی کو پیغام دیتے ہیں کہ تمہاری گاؤ ماتا کے ساتھ ہم یہ سلوک کرتے ہیں۔اب اس واقعے کابھی دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔صرف یہی نہیں،بظاہر ان واقعات کا ایک دوسر ے سے بھی کوئی تعلق نہیں لیکن بباطن یقیناً موجود ہے۔اسی پر وزیر داخلہ سمیت کسی کی نظر نہیں۔
داعش دوچیزوں کا مجموعہ ہے:ایک بیانیہ اورایک مسلح گروہ۔مسلح گروہ سے کسی کا کوئی تعلق نہیں ہو گا لیکن بیانیے سے ہے۔یہ بیانیہ کیا ہے،اس کے چندنکات میں یہاں درج کر رہا ہوں:
1۔جمہوریت ایک غیر اسلامی اور کفریہ تصورہے۔اسے مسلمان معاشروں پر ایک سازش کے تحت مسلط کیا گیا ہے۔
2۔ممالک کے مابین موجودہ سرحدیں غیر شرعی ہیںجنہیں کو تسلیم کرنا مسلمانوں پر لازم نہیں۔
3۔ امریکہ،یورپ اورغیر مسلم دنیا ،اہلِ اسلام کے دشمن ہیں،ان سے قتال ناگزیر ہے۔
4۔ بھارتی وزیراعظم کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگین ہیں،ان سے ہاتھ ملانا، اس خون سے اور پاکستان سے غداری ہے اور ہمارے حکمران اس غداری کے مرتکب ہیں۔
5۔پاکستان پر ایک کرپٹ سیاسی مافیا مسلط ہے۔اس نے موجودہ نظام کویرغمال بنا رکھا ہے اور مروجہ جمہوری طریقے سے،اس سے نجات نہیں مل سکتی۔
6۔ حکمران طبقے کو ملک اور عوام سے رتی برابر دلچسپی نہیں۔اس کے خلاف مسلسل نفرت کی آبیاری قومی فریضہ ہے۔
7۔ ملک پر سودی معیشت کی حکمرانی ہے۔سود اللہ اور رسول کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔حکمران طبقہ اس کے خاتمے کے لیے تیار نہیں اور منافق ہے۔
8۔ مسلمان حکمران طاغوت کے ایجنٹ اور اسلام کے باغی ہیں۔
یہ وہ بیانیہ ہے جس پر مذہبی سیاسی جماعتیں، مدارس، تحریکِ طالبان پاکستان اور دوسری مذہبی و دعوتی تنظیمیں متفق ہیں۔بعض نکات پر حیلے سے کام لیا جا تا ہے۔جیسے جمہوریت کے باب میں مذہبی سیاسی جماعتوں کا موقف ہے۔یہ جماعتیں اس بات کو تسلیم نہیں کرتیں کہ قانون سازی کا حق ایک ایسی پارلیمان کو دیا جاسکتاہے جو ان کے نزدیک کرپٹ، بد کرداراور دینی علو م ہی سے تہی دامن ہو۔سیاسی قیادت کے بارے میںکم و بیش یہ وہی مقدمہ ہے جو تحریکِ پاکستان کے دنوں میں جماعت اسلامی سمیت سب مذہبی جماعتوں نے قائم کیا تھا،داعش کابیانیہ بھی کم و بیش انہی نکات پر مشتمل ہے،اس سے پہلے القاعدہ بھی اسی کی علم بردار تھی۔
یہ بیانیہ مسجد کے منبر سے جاری ہو تا ہے۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کی قیادت کے بیانات میں سنائی دیتا ہے۔ مدارس میں اس کی تلقین ہو تی ہے۔اخباری کالموں اور ٹی وی پروگراموں میں اس کی وکالت کی جاتی ہے۔یہ سب، ایک دوسرے سے تنظیمی رابطہ نہ ہوتے ہوئے بھی،اسی بیانیے کو مضبوط کر رہے ہیں۔اس کے نتیجے میں ذہن سازی ہو تی ہے۔جب ذہن بن جاتا ہے توہر فرد بقدرِ ہمت اوست،ردِ عمل کا اظہار کر تا ہے۔کوئی تقریر کرتا ہے،کوئی تحریک اٹھاتا ہے،کوئی کالم لکھتا ہے اور کوئی ہتھیار اٹھا لیتا ہے۔یہ سب غیرتنظیمی طور پر ایک دوسرے کے دست و بازو بن جا تے ہیں۔جزوی یا کسی ایک آدھ نکتے کے اختلاف کے ساتھ،یہ سب ایک دوسرے کو اپنا رفیق سمجھتے ہیں۔جو مذہبی سیاسی جماعتیں بظاہرجمہوریت پریقین رکھتی ہیں ،ان کی تقریبات میں کبھی جمہوریت کو کفر کہنے والوں کی پزیرائی دیکھیے۔قرب کا گہرا احساس چھپائے نہیں چھپتا، سب اصلاً ایک ہی دینی تعبیر کے قائل ہیں۔
ان متفرق اجزاء سے ایک اتفاقِ رائے وجود میں آتا ہے۔یہ نفرت کا بیانیہ ہے،حکم رانوں کے خلاف، نظم ِاجتماعی کے خلاف،فوج کے خلاف،غیر مسلم دنیا کے خلاف، جمہوریت سمیت تبدیلی کے پرامن ذرائع کے خلاف۔اب تبدیلی کی ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے،اس کرپٹ اور غیر اسلامی نظام اور اس کے کل پرزوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اوریہاں ایک صاف ستھری ،دیانت دار اور اہل افراد پر مشتمل افراد کی حکومت قائم کی جائے۔مذہبی بیانیے میں اس کو خلافت کہتے ہیں اور داعش اسی کی علم بردار ہے۔سیالکوٹ سے گرفتار ہونے والوں نے یہی حلف اٹھا یا ہے کہ :''مسلح جدو جہد کے ذریعے جمہوریت کو اکھاڑ کر، نظام خلافت کا قیام‘‘۔
اس سار ے منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اس بیانیے پرغور کیجیے:اگر ایک کالم نگار یہ کہتا ہے کہ اس کا داعش سے کوئی تعلق نہیں اور اس کے ساتھ وہ اسی بیانیے کو پیش کر تا ہے تواس کادعویٰ سچا ہونے کے باوجود قابلِ قبول نہیں۔اگر ایک شخص یہ کہے کہ میں مرزا غلام احمد قادیانی کو پیغمبر نہیں مانتا لیکن نبیﷺ کے بعد نبیوں کی آمد کا قائل ہو ں تو اس کا مطلب کیا ہوگا؟اسی طرح اگر کوئی نفرت کے اس کاروبار کو دامے درمے سخنے قوت پہنچاتا ہے تو اس کو اس معاملے سے غیر متعلق نہیں قرار دیا جا سکا۔ یہی وہ پہلو ہے جو سب سے اہم ہونے کے باوجود، بدقسمتی سے سب سے زیادہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔حکومت اور ریاستی اداروں کو اس کا شعور ہے اور نہ میڈیا سمیت رائے سازوں کو۔
جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی کیسی قدر ہے،کاش لوگ اس کا اندازہ کرسکیں۔ ،29۔دسمبر2015ء کو ایک معاصر انگریزی اخبار میں ،عرب میں مقیم ایک خاتون صحافی کا مضمون شائع ہوا ہے۔اسے پڑھ کر اندازہ ہو تا ہے کہ ایک جمہوری معاشرے میں جینا، اللہ کی کیسی نعمت ہے اور مشرقِ وسطیٰ کے مسلمان کس طرح اس سے محروم ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ اگر سونے کا نوالہ کھلا کرکسی کوآزادی رائے سے محروم کر دیاجائے تو ایسی زندگی سے موت بہتر ہے۔پاکستان میں ہمیں یہ نعمت میسر ہے۔اسی طرح پاکستان بہتری کی طرف سفر کرنے والا ملک ہے۔اس نظام میں خرابیوں کے باوجود اب بھی بہت خیر ہے۔آج ہی اخبار میں خبر چھپی ہے کہ پاکستان نے ایک سال میں سترہ ۱یف جے 17 طیارے بنائے ہیں،یہ کام سرمائے اور مہارت سے ہوا۔سرمایہ دفاع کے اس بجٹ سے آیا جس کی منظوری پارلیمان میں بیٹھی سیاسی قیادت نے دی۔یہ سرمایہ عوام کے ٹیکسوں سے آتا ہے۔معیشت میں جان نہ ہو تو طیارے نہیں بن سکتے اور نہ ہی قومیں ایٹمی قوت بن سکتی ہیں۔یہ اسی نظام کی دین ہے جسے صبح شام گالیاں دی جاتی ہیں اور جس کے خلاف نفرت پھیلائی جا تی ہے۔
اس نظام میں اصلاح ہو نی چاہئے لیکن یہ ارتقا اور جمہوری طریقے سے ہوگی اور ہو رہی ہے۔اس پر عدم اعتماد پیدا کرنے کا نتیجہ ایک غیر جمہوری تبدیلی کو جواز فراہم کرناہے۔کچھ لوگ اس آگ کے لیے دینی دلائل کا ایندھن فراہم کر رہے ہیں اور کچھ دنیاوی۔ان سب کا حاصل داعش کا فروغ ہے اور سب اس کے دست و بازو ہیں۔افسوس کہ اکثریت کواس کا اندازہ نہیں، وزیر داخلہ کوبھی نہیں۔دیکھیے اب وہ داعش کی مو جود گی کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔