تعلیمی اداروں کوہم حصول ِعلم کے مراکز بنانا چاہتے ہیں یا سیاست کی نرسریاں؟
ایوان بالا میں معزز اراکین نے اس کے لیے دلائل کے پہاڑ کھڑے کر دیے کہ طلبا تنظیموںکو بحال کیا جائے۔ سب تقریریں پڑھیے تو ایک رائی ہے جسے پہاڑ بنا دیا گیا۔ وہ رائی یہ ہے کہ ' طلبا تنظیمیں سیاست کی نرسریاں ہیں‘۔ تو کیا تعلیمی ادارے اس لیے قائم ہوتے ہیں کہ وہاں تنظیمیں بنیں اور وہ سیاسی جماعتوں کو کارکن فراہم کریں؟کیا بغداد کی جامعہ نظامیہ اسی مقصد کے لیے بنی تھی؟ آکسفورڈ اور کیمبرج نے یہی خدمت سر انجام دی؟ دارالعلوم دیوبند اور مسلم کالج علی گڑھ اسی لیے آباد کیے گئے؟
دنیا بھر میں تعلیمی ادارے ، فروغِ علم کے لیے قائم ہوتے ہیں۔ ان کا پہلا اور آخری مقصد نئی نسل کو تعلیم سے آراستہ کرناہے۔ تعلیم چند درسی کتب کی تدریس کا نام نہیں۔ یہ ایک ہمہ جہتی عمل ہے۔ سادہ لفظوںمیں انسان کے نتائج فکر تک رسائی اور پھر انسانی ذہن کو ایسے مواقع کی فراہمی کہ وہ ان نتائج پر غور کرے۔ اپنے علم اور استدلال کی بنیاد پر انہیں قبول کرے یا رد کر دے۔ انسان ماضی سے وابستہ رہتے ہوئے نئے دور کی صورت گری کرتا ہے۔ وہ بار بار پہیہ ایجاد نہیں کرتا بلکہ آگے بڑھتا ہے۔ اسی طرح انسانی زندگی کا سفر دائرے میں قید نہیں رہتا، خطِ مستقیم پر آگے بڑھتا ہے۔ علم اسی مقصد کے لیے ہوتا ہے اور علم کے بغیر ترقی ، مادی ہو یا اخلاقی ، خارج از امکان ہے۔ تزکیۂ نفس کی پہلی منزل تزکیۂ علم ہے۔ مادی ترقی کا تمام تر انحصار بھی علم پر ہے۔ گویا انفس و آفاق کی دریافت سر تا پا ایک علمی سرگرمی ہے۔ یہی سبب ہے کہ جنہوں نے قوموں کی زندگی کے لیے جد و جہد کی، انہوں نے سب سے پہلے علمی انحطاط کا علاج تلاش کیا۔ اہل دیو بند نے بر صغیر کے مسلمانوں کو زندہ کرنا چاہا تو اس کے لیے روایت سے وابستگی کو لازم قرار دیا۔ اس کے لیے سب سے پہلے ایک علمی مرکز قائم کیا ۔ سر سید نے انحطاط کے خاتمے کے لیے جدید تعلیم اور نئے عہد سے وا بستگی کو ضروری جانا۔انہوں نے بھی ایک تعلیمی مرکز قائم کیا۔ منزلیں بظاہر مختلف ہیں،اگرچہ حقیقی طور پر نہیں۔لیکن راستہ ایک ہی تجویز کیا گیا:تعلیم۔
دنیا بھر میںتعلیم و ترقی کا یہی نسخہ ہے کہ معاشرے کی علمی اساسات کو مضبوط کیا جائے۔ آج تو خیر' علمی سماج‘ (knowledge based society) کا تصور مقبول ہے کہ مادی ترقی کا راستہ بھی یہی ہے۔ اس مقصد کے لیے تعلیمی ادارے قائم کیے جاتے ہیں۔ ہر ادارہ کوشش کرتا ہے کہ وہ دنیا کے بہترین اہل علم کو اپنے ہاں جمع کر دے۔ ان اداروں میںتحقیق و جستجو کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ امریکہ کی ترقی کا ایک راز یہ ہے کہ وہ اہل علم پر سرمایہ کاری کرتا ہے۔دنیا بھر کی ذہانتوں کو اپنے ملک میںجمع کر دیتا ہے۔ وہ بہترین طالب علموں کے لیے پرکشش مواقع پیدا کرتا ہے۔حصول ِ علم کے بعد،وہ انہیں اظہار ِعلم کے لیے پرکشش ماحول فراہم کرتا ہے۔ یوں دنیا کے بہترین دماغ اس کی ترقی کے لیے وقف ہو جاتے ہیں۔ امریکہ نے ترقی اس لیے کی کہ اس نے تعلیمی مراکز کو علم و جستجو کے اعلیٰ مراکز بنا دیا۔ غور کیجیے، اگراس کے عالی دماغ ان اداروں کو سیاست کی نرسریاں بناتے تو پھر امریکہ کا کیا حشر ہوتا؟ وہی جو ہمارا ہو رہا ہے۔
طلبا تنظیموں نے اس ملک کی تعلیم کو برباد کر دیا۔ ہمارا تعلیمی زوال70 19ء کی دہائی میں اپنے عروج پر پہنچا۔ یہ وہ دور ہے جب سیاسی جماعتوں نے تعلیمی اداروں کو اپنی نرسریاں بنانے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کر دیں۔ کسی نے اسلامی انقلاب کے ہراول دستے تیار کیے اور کسی نے سرخ انقلاب کے۔ یہ کوششیں اگرچہ پہلے سے جاری تھیں لیکن اس عرصے میںتو تعلیمی ادارے سیاسی کشمکش کی آماجگاہ بن گئے۔ کتاب کی جگہ پستول نے لے لی۔ تعلیم کے انقلاب کی جگہ رنگ برنگے انقلاب طلبا کے مطمحنظر بنے۔ آہستہ آہستہ تعلیم کے سرکاری ادارے برباد ہونے لگے۔ یونیورسٹیوں کے ہاسٹل مجرموں کی پناہ گاہیں بن گئیں ۔ اب یہ ادارے مکمل طور پر سیاسی نرسریاں بن چکے تھے۔ تعلیم ان سے مکمل طور پر غائب ہو گئی۔
سماج میں لیکن خلا نہیں رہتا۔ تعلیم زندگی کے لیے ایسے ہی لازم ہے جیسے جینے کے لیے ہوا۔ زندگی نے متبادل راستے تلاش کرنے شروع کیے۔ تعلیم کے نجی ادارے وجود میں آنے لگے۔ تعلیم کاروبار بننے لگی۔ تعلیم کی اہمیت سے باخبر لوگوں نے ان اداروں کا رخ کیا۔ جو صاحبانِ وسائل تھے ، ان کے لیے تو متبادل موجود تھا لیکن عام پاکستانی کے لیے نہیں۔ وہ مجبور تھا کہ سرکاری تعلیمی اداروں ہی میں بچوں کو پڑھائے۔ وہ مگر تعلیمی مرکز نہیں، سیاست کی نرسری بن چکے تھے۔ یوں عام آدمی کے لیے اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند ہونے لگے۔ طلبا تنظیمیں سیاسی مقاصد کے لیے بنی تھیں اور سیاسی مقاصد ہی کے تحت ایک فوجی آمر نے ان پر پابندی لگائی۔ پھر بحالی کی تحریک شروع ہو گئی۔ چند سال مزید برباد ہو گئے جو ایک پوری نسل کی زندگی میں دوبارہ لوٹ کر نہیں آ سکے۔
اس دوران میں تعلیم ایک نفع بخش کاروبار بن چکا تھا۔ سرکاری تعلیمی اداروں کو سیاست کی نرسری بنانے کی خواہش نے تعلیمی زوال کی بنیاد رکھی۔ پھر دیگر اسباب بھی جمع ہوتے گئے۔ حکومتوں کی عدم توجہی، اس کا دوسرا بڑا محرک بنی۔ آج بھی پاکستانیوں کی اکثریت کے بچے انہی سرکاری اداروں میںتعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ آج لازم تھا کہ ایوان بالا میں اس پہ بات ہوتی کہ عام پاکستانی کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی کیسے ممکن ہے؟ ہم سرکاری کالجوں اور جامعات کو کیسے اعلیٰ تعلیم کے مراکز بنا سکتے ہیں؟ افسوس کہ اس پر گفتگو ہونے کے بجائے، پارلیمان کے معزز ارکان کو دلچسپی اس سوال سے ہے کہ تعلیمی اداروں کو کیسے سیاست کی نرسریاں بنا دیا جائے۔
میرا کہنا یہ ہے کہ یہ ادارے حقیقی معنوں میں سیاست کی نرسریاں بھی نہیں بن سکے۔ ان اداروں نے قومی سیاست کو جو تحفے دیے، انہوں نے سیاسی ما حول کو برباد کیا اور سیاست کے معیار کو پست کیا۔ الا ماشااﷲ۔ ایک نظر ذرا ان راہنماؤں پر ڈالیے جو طلبا تنظیموں نے ہمیں عطا کیے۔ ان کی گفتگو کو ذہن میں تازہ کیجیے۔ ان کے اسلوب پر غور کیجیے، پھر اپنے آپ سے سوال کیجیے: ان کی وجہ سے سیاست اخلاقی و فکری اعتبار سے تنزل کی طرف گئی ہے یا بہتری کی طرف؟
ایک عجیب تضاد یہ بھی ہے کہ جو اہل سیاست طلبا تنظیموں کی بحالی پر اصرار کر رہے ہیں، ان میں سے کئی تعلیم کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ ان میں سے کسی نے اپنے قائم کردہ تعلیمی ادارے میں طلبا تنظیموں کو قدم نہیں رکھنے دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو کل خود ان تنظیموں کے عہدے دار رہے ، انہوں نے جب اس کاروبار میں قدم رکھا تو اس تنظیم کو بھی گھسنے نہیں دیا، جس سے وہ وابستہ رہے۔فاعتبروایااولی الابصار۔
آج اگر ہم پاکستان کے مستقبل کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ ہم اپنے سماج کو علمی سماج بنائیں۔ ایسا سماج جس میں علم بنیادی قدرکے طور پر مستحکم ہو ۔ یہ اسی وقت ہو گا جب تعلیمی ادارے تعلیم کے مراکز بنیں نہ کہ سیاست کی نرسریاں۔