پاکستان، بھارت اور افغانستان کی ریاستی قیادت کے لیے ناگزیر ہو چکا کہ وہ غیر ریاستی عناصر(Non State Actors) کے بارے میں یکسو ہوں۔جنوبی ایشیا میں امن ہو گا تو وہ اپنے اپنے مقاصدکا تعاقب کر سکیں گے۔بصورتِ دیگریہ خطہ خاکم بدہن، مشرقِ وسطیٰ بن جا ئے گا۔
غیر حکومتی عناصرکو کسی جذبہ محرکہ کی ضرورت ہوتی ہے۔تاریخ میں یہ کام مذہب نے کیا ہے یا وطن نے۔مذہب کے لیے لوگ جان دینے پر آ مادہ ہو جاتے ہیں یا وطن کے لیے۔پاکستان نظریاتی ریاست ہونے کا دعویٰ رکھتاہے۔یہاں مذہب اوروطن ،دو جذباتِ محرکہ جمع ہو جاتے ہیں ۔یوں غیر ریاستی عناصر کو منظم کرنا آسان ہے۔مقبوضہ کشمیرمیں بھی ایسا ہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہاں بھارت تمام ریاستی قوت استعمال کر نے کے باوجود تحریکِ آزادی کو ختم نہیں کر سکا۔
پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں بھی اسی ہتھیار کو آزمایا۔افغانوں کو جب سوویت یونین کے خلاف منظم کیا گیا تو وطن اور مذہب دونوں طرح کے جذبات کو بنیاد بنایاگیا۔حکمتِ عملی کے حوالے سے شاید اس کے حق میں کوئی دلیل تلاش کی جاسکے اگر بات یہیں تک محدود رہتی۔ بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔جنرل ضیاالحق مرحوم سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے پاکستانی عوام کوبھی اس میں جھونک دیا۔انہوں نے مذہبی سیاسی جماعتوں کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ اس کے لیے دینی استدلال فراہم کریں اور اس پر ایمان رکھنے والے مجاہد بھی۔ریاست نے غیر ریاستی عناصر کو دلیل تھمائی اور ہتھیار بھی۔سوویت یونین کے انخلا کے بعد افغانستان میں مجاہدین کے ہاتھوں جس خلفشار نے جنم لیا،اسے سنبھالنا کسی کے بس میں نہ تھا۔پاکستان کے عوام کو جس طرح اس جنگ میں جھونکا گیا اور یہاں غیر ریاستی عناصر کو ہتھیار دیے گئے، اس کے بعد یہاں بھی حالات کو قابو میں نہ رکھا جا سکا۔
افغانستان کے خلفشار پرطالبان کے ذریعے قابو پانے کی کوشش ہوئی۔یہ وقتی طور پر کامیاب رہی لیکن پھر یہاںالقاعدہ نے جنم لیا۔طالبان خود کو ان سے جدا نہیں کر سکے۔اس کا نقصان افغانستان کے ساتھ پاکستان کوبھی ہوا۔یہاں افغان طالبان سے تعلق رکھنے والوں نے اپنی محبت کادائرہ القاعدہ تک بڑھا دیا۔جو دینی استدلال افغان طالبان کے حق میں استعمال ہورہا تھا وہی القاعدہ کی تائید میں کام آیا۔اسی استدلال نے تحریک طالبان پاکستان کو جنم دیا۔یقیناً جنرل
ضیا الحق یہ نہیں چاہتے تھے لیکن اس سے اختلاف مشکل ہے کہ یہ سب کچھ انہی کابویا ہوا ہے۔انہوں نے غیر ریاستی عناصر کو استدلال اور ہتھیار فراہم کیے اور مذہبی جماعتوں نے اس میں ان کا بھر پور ساتھ دیا۔ انہوں نے افغانستان اور مقبوضیہ کشمیر میں ان ہی ہتھیاروں کو آزمایا۔
بھارت کے پاس کوئی ایسی نظریاتی بنیاد مو جود نہیں تھی جس کو متحرک کر کے، وہ غیر ریاستی عناصر کو منظم کر سکے۔ایک سیکولر ریاست کے لیے مشکل ہے کہ وہ غیر نظریاتی عناصرکواستعمال کر سکے۔یوں بھارت کے لیے مشکل ہو گیا کہ وہ اس محاذپر پاکستان کا مقابلہ کرے۔اس نے کوشش کی کہ بلوچستان میں وطن اور قومیت کے جذبات کو ابھار سکے۔اس میں بھارت کو جزوی کامیابی ہی مل سکی۔وہ غیر ریاستی عناصر کو اس طرح متحرک کر نے میں کامیاب نہ ہو سکا کہ پاکستان کے لیے ناقابلِ برداشت ہو جاتا۔اسے کسی موقع کی تلاش تھی اور یہ کام افغانستان کے فساد نے کرد یا۔افغانستان میں پاکستان کو طالبان کا حامی تصور کیا جا تا ہے۔اس وقت جو لوگ حکمران ہیں وہ طالبان کے مخالف ہیں اور طالبان بھی ان کے اقتدار کو ماننے پر آمادہ نہیں۔دونوں ایک دوسرے کے حریف ہیں۔یوں افغانستان کی حکومت پاکستان کو اپنا مخالف سمجھتی ہے۔
بھارت نے اس صورتِ حال سے پورا فائدہ اٹھایا۔ایک طرف وہ افغانستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کر نے والا ملک ہے۔دوسری طرف وہ مو جود ہ حکومت کے پاکستان مخالف جذبات کو تحریک دے رہا ہے۔وہ غیر ریاستی عناصر جو پاکستانی ہیں اور پاکستانی ریاست سے برسرِ پیکار ہیں،بھارت افغان انٹیلی جنس کی مدد سے ان کو مضبوط کر ہا ہے۔یہ ممکن ہے کہ ملا فضل اللہ کا بھارت سے کوئی براہ راست تعلق نہ ہو۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ٹی ٹی پی بھی بھارت سے غیر متعلق ہو۔تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ افغان انٹیلی جنس کی نصرت کے بغیر ملا فضل اللہ کے لیے افغانستان میں رہنا مشکل ہے۔پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی، بھارت اور افغان انٹیلی جنس کے لیے بیک وقت غیر پسندیدہ ہیں۔یوں دونوں مل کر اسے ان غیر ریاستی عناصر کے ہاتھوں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔یوںیہ ایک دائرے کا سفر بن گیا ہے۔ہمارا ہتھیار ہمارے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔
اب پاکستان امریکہ سے یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ و ہ ملا فضل اللہ کے ٹھکانوں پر ڈرون حملہ کرے۔دوسرے لفظوں میں غیر ریاستی عناصر کے خلاف پاکستان کو امریکہ کی مدد چاہیے۔ کچھ عرصہ پہلے یہی مطالبہ امریکہ پاکستان سے کر رہا تھا۔یہ دائرے کا ایک اور سفر ہے جو ایک دوسرے دائرے میں جاری ہے۔ہمیں اب اس دائروں سے نکلنا ہوگا۔اس کے لیے جرأت کے ساتھ گزشتہ پینتیس سالوں کا جائزہ لینا ہو گا۔اس حکمتِ عملی پر نظر ثانی کر نا ہوگی جوغیر ریاستی عناصر کے گرد گھوتی رہی۔اس سے مقصود کسی فرد کو ہدف بنا نا نہیں۔کسی کی نیت پر شک نہیں۔ غلطی اخلاص کے ساتھ بھی ہو جاتی ہے۔لیکن جب اس کے نتائج سامنے آ جائیں تو ان پر اصرار نہیں کرنا چاہیے۔دنیا کا کوئی نظریہ ایسا نہیں جو آج اپنی ابتدائی صورت میں موجود ہو۔کیا مارکس ازم آج ہی وہی ہے جو انیسویں صدی میں تھا؟ کیا نیشنلزم وہی ہے جس نے دو صدیاں پہلے یورپ میں ظہور کیا؟یہی نہیں کیا اسلام کی تفہیم وہی ہے جو امام ابو حنیفہ کے عہد میں تھی؟وقت کا اپناجبر ہے جس سے فرا رکی کوئی صورت نہیں۔یہی جبر ہم سے تقاضا کر رہا ہے کہ ہمیں اب دائرے کے سفر سے نکلیں۔
سوچ کا ایک زاویہ ہے کہ اب بھارت کو اسی زبان میں جواب دینا چاہیے۔یہی بات بھارتی وزیردفاع نے ہمارے بارے میں کہی۔دونوں باتیں جذبات کا غیر حکیمانہ اظہار ہیں۔اس سے بھارت کو کچھ ملنے والا ہے نہ ہمیں۔یہ دائرے کے سفر پر اصرا رہو گا۔اس وقت ایک سادہ سوال ہے جو سب کے سامنے ہے:جنوبی ایشا کو غیر ریاستی عناصر نے چلا نا ہے یا ریاست نے؟میں اپنے تجزیہ کو دہرا رہا ہوں کہ اسی ایک نکتے پر سہ فریقی کانفرنس ہو نی چاہیے۔پاکستان، افغانستان اور بھارت کی داخلی اور سرحدی خود مختاری کا مکمل احترام کیا جائے اور دوسرے کے معاملات میں کوئی مداخلت نہ کی جائے۔پاکستان اور افغانستان کے مابین تو اس کے علاوہ کوئی تنازع نہیں ۔بھارت اور پاکستان کوچاہیے کہ وہ اپنے اختلافات کو بین الاقوامی قوانین اور سفارتی آداب کے تابع رکھیں۔کوئی ریاست کسی غیر ریاستی گروہ کو نظریاتی یا ریاستی مفادات کی ذمہ داری نہ سونپے۔
اس وقت جنوبی ایشیا کو جرأت مند قیادت کی ضرورت ہے،پاکستان کو بطورِ خاص۔ میں تسلسل کے ساتھ لکھتا رہا ہوں کہ پاکستانی سماج برباد ہو رہا ہے۔ہمیں کبھی تو اپنی اس غلطی کی تلافی کر نا ہوگی جس کی بنیاد پینتیس سال پہلے رکھی گئی۔اب اگر اس کا احساس نہیں ہوا تو کب ہوگا؟کیا پاکستان کی سیاسی قیادت اس کا ادراک رکھتی ہے؟اس کا اندازہ تو ان اقدامات سے ہوگا جو اب اٹھائے جائیں گے۔نیشنل ایکشن پروگرام کی ناکامی گواہ ہے کہ کسی بیانیے کے بغیر اقدامات کا نتیجہ یہی ہو تا ہے۔غیر ریاستی عناصر دراصل ایک بیانیے کا عملی نتیجہ ہیں جو ریاست نے اپنا یا اور مذہبی ایوانوں میں تشکیل دیا گیا۔