یہ اسلام آباد کے پوش علاقے، ایف۔8 کا ایک بڑامکان ہے۔ مکان کی پچھلی دیوار سے داخلی دروازے تک، ایک صاف ستھرا دستر خوان بچھا ہے۔ دونوں طرف لوگوں کی بڑی تعداد اطمینان کے ساتھ بیٹھی ہے۔ اپنے حلیے اور لباس سے، یہ اس علاقے میں اجنبی دکھائی دیتے ہیں؛ تاہم ان کے رویے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گھر ان کے لیے اجنبی نہیں ہے۔کچھ دیر پہلے مغرب کی اذان ہوئی ہے۔ قریب کی مسجد سے بھی کچھ لوگ نماز پڑھ کر یہاں آئے ہیں۔ صاف ستھری تھالیوں میں کھانا لگا دیا گیا ہے۔ ایک صاحب نے ہاتھ اٹھائے، وہ صاحبِ خانہ کی درازی عمر، صحت اور رزقِ حلال میں برکت کے لیے دعا گو ہیں۔ لوگ دل کی گہرائیوں سے آمین کہہ رہے ہیں۔ مختصر دعا کے بعد لوگ کھانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ میں بھی دعا اور کھانے میں شریک ہوں۔ میں یہ منظر اپنی آنکھوں اور ذہن میں محفوظ کر لیتا ہوں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میں آپ کو اس میں شریک کرنا چاہتا ہوں۔
یہ سابق وزیر قانون بابر اعوان کا مکان ہے۔ پہلے یہ اُن کا گھر تھا۔ آج کل ان کی پیشہ ورانہ اور سماجی سرگرمیوں کے لیے خاص ہے۔ میرا ان کے ساتھ دیرینہ تعلق ہے۔ اس کی کئی جہتیں ہیں۔ خاندان، علاقہ، خیالات۔۔۔۔اشتراک کے بہت سے زاویے ہیں۔ ایک زاویہ سیاست بھی ہے لیکن شاید سب سے کمزور۔ میں ذاتی معاملات میں ان سے مشورہ کرتا ہوں۔ مشورہ آپ اسی سے کرتے ہیں جس کی بصیرت، دیانت اوراخلاص پر اعتماد رکھتے ہیں۔ رشتوں کے معاملے میں، میں نے ا نہیں بہت حساس دیکھا ہے۔ ایک امتی ہونے کے ناتے، اُن کا ایک رشتہ رسالت مآب سیدنا محمدﷺ کے ساتھ ہے۔ یہ لنگر اسی تعلق کا اظہار ہے۔
اس مشاہدے سے چند دن پہلے فون پر بات ہوئی۔ ملنے کا پروگرام بنا تو کہا سوموار کو آجاؤ، بعد از مغرب۔ معلوم ہوا کہ اس دن یہاں لنگر کا اہتمام ہو تا ہے۔ ارد گرد کی کچی آبادیوں میں بسنے والے، بڑے گھروں میں چھوٹی اجرت پرکام کر نے والے، دیہاڑی دار مزدور اور جو آنا چاہے، سب بے تکلف کھانے میں شریک ہوتے ہیں۔ میں نے پوچھا: سوموار ہی کیوں؟ کہا: یہ رحمۃ للعالمین ﷺ کا یومِ دلادت ہے۔ خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اسے آپ ﷺ سے نسبت دے دی جائے۔ رزق اللہ کی ایک نعمت ہے اورآپ ﷺ کی بعثت بھی ایک ایسی نعمت ہے جسے اللہ نے خود مو منوں کے لیے اپنا احسان کہاہے۔ دو نعمتوں کے ایک ساتھ شکر کا یہ انداز مجھے بہت اچھا لگا۔
لوٹتے وقت، میں ارد گرد کے وسیع وعریض گھروں کو دیکھ رہا تھا۔کروڑوں کے گھر اورکروڑوں کی گاڑیاں۔ دولت کا یہ انبار تو دکھائی دے رہا ہے، جو دیکھنے والے کی آنکھوں سے اوجھل ہے، وہ اگر زیادہ نہیں تو کم ہرگز نہیں ہوگا۔ اس مشاہدہ کا دامن پکڑے ایک سوال سامنے آ کھڑا ہوا: کیا ان گھروں میں بھی کہیں شکر کا کوئی احساس ظہور کر تا ہوگا؟ کوئی دستر خوان؟ کسی غریب کی اعانت؟ کسی طالب علم کی فیس؟ کسی بے کس کا علاج؟ کسی بیٹی کی شادی؟
یہ زندگی سر تا پا آ زمائش ہے۔ ایک ایک سانس اور ایک ایک پائی، مالک کی عطاہے۔ نعمت آزمائش ہے اور محرومی بھی آزمائش۔ ایک شکر کی آزمائش، ایک صبر کی۔ رزق اللہ کی ایک نعمت ہے۔ ہمیں آزمانے کے لیے وہ ہمارے مال میں محروموں کا حق رکھ دیتا ہے۔ پھر وہ دیکھتا ہے کہ ہم اسے حق دار تک پہنچاتے ہیں یا نہیں۔ اگر ہم اسے لوٹا دیں تو یہ کوئی کمال نہیں۔ حق دار کو اس کا حق دینا کون سا کمال ہے؟ اس عالم کا پروردگار مگر اپنے بندوں پر احسان فرمانے والا ہے۔ وہ اس پر بھی اجر دیتا ہے۔ یہ اجر بھی وہ بندے کی طلب نہیں، اپنی شان کے مطابق دیتا ہے۔ ایک کے بدلے دس، سو، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ وہ کہتا ہے کہ بے حساب دیتا ہوں۔ سچ یہ ہے کہ انفاق اور افلاس،دونوں ایک گھر میں جمع نہیں ہوسکتے۔
سرمایہ، پیسہ خدا کی نعمت ہے۔ یہ کوئی وبال ہے نہ بری چیز۔ نعمت لیکن یہ اسی صورت میں ہے جب حلا ل طریقے سے آئے اور پھر خدا کی راہ میں خرچ کی جائے۔ حرام اور ظلم سے سمیٹے گئے مال میں سے کیسا انفاق؟ کیا لوگ اتنے جری ہیں کہ اپنے رب کو، معاذ اللہ دھوکہ دینا چاہتے ہیں؟ مال اسی وقت نعمت ہے جب حلال ہونے کے ساتھ منعم کاشکربھی ادا کیا جائے۔ جب یہ سمجھا جائے کہ اس میں اللہ کی بندوں کا حصہ ہے جو امانتاً ہمارے سپرد کیا گیا ہے۔ ہمیں یہ حصہ، ان تک پہنچانا ہے۔ جو لوگ اس رازکو جان لیتے ہیں، سرمایہ ان کیے لیے دنیا اور آخرت کی آسودگی کا سامان بن جاتا ہے۔ پھر وہ سیدنا عثمان بن عفانؓ اور سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف ؓکے گروہ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ایک غیر صحابی کے لیے بھی صحابہ کی صحبت کا دروازہ کھل جاتا ہے۔
انفاق کا اجر ایک ایسی نعمت ہے جو دنیا ہی میں حاصل ہو جاتی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کے کسی بازار میں میسر نہیں۔ یہ صرف خدا کی عطا ہے اور اس کی قیمت انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ یہ قناعت ہے۔ یہ نعمت اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو وافر عطا فرمائی تھی۔ سیدہ عائشہ ؓکا معاملہ تو غیر صحابہ میں بھی غیر معمولی تھا۔ شام ڈھلنے کے بعد، گھر میںکوئی درہم دینار رہ جائے، یہ ممکن نہیں تھا۔ رمضان کے ایام میں ایک دن ہزاروں آگئے۔ شام ہوئی تو خدا کی راہ میں بانٹے جا چکے تھے۔ خادمہ نے کہا: بہت دن ہوئے، گھر میں گوشت نہیں پکا۔ ایک آدھ درہم اس کے لیے بچا لیتیں۔ ام المومنینؓ نے شانِ بے نیازی سے فرمایا: 'پہلے یاد دلایا ہوتا‘۔ یہ استغنا صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتا ہے جو انفاق کر تے ہیں۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے وقت حساب نہیں رکھتے۔
یہ بے نیازی اگر نصیب ہو جائے تو کاروبار کا خسارہ فشار ِخون کو متاثر نہیں کرتا۔ مال و اسباب سے محرومی، دل کو مریض نہیں بناتی۔ پھر اطمینان کی نیند آپ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ پھر خوشی اورآپ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں رہ سکتا۔ پھر آسمان سے سکینت اترتی اور آپ کے قلب کا رخ کر تی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اس کا ٹھکانہ کوئی نفسِ مطمئنہ ہی ہے۔ یہی نہیں، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے دلوں میں آپ کی محبت ڈال دیتا ہے۔ وہ غیب و حضور میں آپ کے لیے دعا گو ہوتے ہیں۔ آپ بے خبر ہوتے ہیں اور اس اعلیٰ ترین دربار میں، آپ کے لیے سفارشی چٹھیوں کا انبار لگ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی درخواست کو کبھی مسترد نہیں کرتا۔
اس ملک میں کتنے اہلِ سرمایہ ہیں جنہیں اس کا احساس ہے؟ کتنے تاجر ہیں جنہوں نے خدا کے ساتھ تجارت کرنے کا سوچا ہے۔ وہ دنیا بھر میں بزنس پارٹنر تلاش کرتے ہیں۔ کیا وہ جانتے ہیں کہ سرمایہ کاری کی ایک دعوت اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی آخری کتاب میں دے رکھی ہے؟ صرف دعو ت نہیں، کئی گنا منافع کی یقینی ضمانت۔ انسان کا معاملہ عجیب ہے۔ یقین کو چھوڑ کر گمان کے پیچھے بھاگتا ہے۔ کل کے مستقل فائدے پر آج کے عارضی منافع کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کے باوصف، اپنی بصیرت اور عقل پر ناز بھی کرتا ہے۔ یہ خیال کرتا ہے کہ اس سے زیادہ تجارت کا سلیقہ کس کو ہے؟ مارکیٹنگ اس سے بہتر کون جا نتا ہے؟
بابر اعوان میری توقع سے زیادہ سیانے نکلے۔ انہوں نے اپنے رب سے تجارت کا فیصلہ کر رکھا ہے۔کل ہی مجھے معلوم ہوا کہ اس لنگرکی ایک اور شاخ بھی کھل گئی ہے۔ میں دعا گو ہوں کہ یہ سلسلہ دراز ہو اور ان کے اس 'کاروبار‘ میں مزید وسعت پیدا ہو۔ تاہم مجھے ایک خد شہ ہے، جس سے میرا خیال ہے کہ وہ متنبہ ہوںگے۔ خدشہ یہ ہے کہ سوموارکا لنگر، کہیں'پیر‘ کا لنگر نہ بن جائے۔