اس باراسلام آباد میں ویلنٹائن ڈے نہیں منایا جا ئے گا۔ اربابِ اقتدارکی دینی حمیت کو یہ گوارا نہیں۔ وزیر داخلہ تو اس معاملے میں بہت حساس ہیں۔ اب اسلامی ریاست کے دارالخلافہ میں اس دن کی مناسبت سے کوئی تقریب نہیں ہوگی۔ محفلِ موسیقی کی تو قطعاً اجازت نہیں ہوگی۔ میرا خیال ہے، ان کے تصورِ مذہب میں موسیقی حرام ہے۔
اسی طرح کی دینی غیرت کا ایک مظاہرہ ایک آدھ ماہ پہلے قومی اسمبلی میں بھی دیکھنے کو ملا۔ ن لیگ کے رکن اسمبلی کیپٹن صفدر کی تحریک پر یہ فیصلہ ہوا کہ اب تلاوت کے بعد اسمبلی میں نعت بھی پڑھی جا ئے گی۔ اس کامیابی پر کیپٹن صاحب کا کہنا تھا کہ ان کے اسمبلی میں آنے کا مقصد پوراہو گیا۔ جب اچکزئی صاحب نے اس پر کچھ کہنے کی کوشش کی تو انہوں نے موصوف کی ایسی خبر لی کہ وہ آئندہ ایسی بات کہنے کی جرأت نہیں کریں گے۔ میں یہ خبریں پڑھتا اور پھر یہ سمجھنے کی کوشش کر تا ہوں کہ ہمارے حکمرانوں کا تصورِ مذہب کیا ہے؟ وہ جن معاملات میں دینی حمیت کا بڑھ چڑھ کر مظاہرہ کرتے ہیں، انہیں حکومت کی ترجیحات میں کہاں ہونا چاہیے؟
میں اپنے دین کو جس حد تک سمجھ سکا ہوں، اس کی تعلیمات کا ایک دائرہ تو وہ ہے جوعمومی ہے۔ اس میں بیان کردہ احکام سب کے لیے یکساں ہیں؛ تاہم اس میں بھی وہ فردکی شخصی کیفیت کا لحاظ کرتا ہے۔۔۔۔جیسے نماز۔ یہ حکم ایسا ہے جو ہر مسلمان کے لیے ہے۔۔۔۔ بادشاہ ہو یا رعایا، عالم ہو یا عامی۔ تاہم اگر وہ بیمار ہے یا سفر میں ہے تو اس کے لیے اس حکم پر عمل کی نو عیت بدل جائے گی۔ دین کے احکام کا دوسرا دائرہ وہ ہے جو سماجی حیثیت سے متعلق ہے۔۔۔۔جیسے زکوٰۃ، یہ صاحبِ نصاب ہی پر فرض ہے۔ یا حج، یہ فرض ہونے کے باوجود استطاعت سے مشروط ہے۔ اسی طرح بعض احکام وہ ہیں جو حکمرانوں سے متعلق ہیں۔ حکمران ان کے لیے اپنے رب کو جواب دہ ہیں۔ ان کا عام آ دمی سے کوئی تعلق نہیں۔
ان احکام میں بھی ظاہر ہے کہ ترتیب ہے۔ یہ ترتیب حکمت اور سماجی حالات سے طے ہوتی ہے۔ ریاست اسلام کی ایجاد نہیں ہے۔ نظمِ اجتماعی انسان کی فطری ضرورت ہے۔ اسلام ان مقاصد کی توثیق کرتا ہے، ریاست جن کے لیے قائم ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ وہ یہ سکھاتا ہے کہ ریاست کو کیسا ہونا چاہیے۔ اس میں حکمرانوں کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ ان کا اخلاقی اور کردار کس طرح کا ہونا چاہیے۔ اس کے مطابق حکمرانوں کی دینی ذمہ داریاں دو طرح کی ہیں۔ ایک تو وہی جن کے لیے ایک ریاست ہمیشہ قائم ہوتی آئی ہے۔ دوسری وہ جو اسلامی ریاست کے ساتھ خاص ہیں۔
پہلی ذمہ داری کو سورہ نساء میں بیان کیا گیا ہے: ''اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرواور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ‘‘۔(58:4) مولانا امین احسن اصلاحی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ''جن کو اللہ تعالیٰ اپنی زمین میں اقتدار بخشتا ہے، ان پر اوّلین ذمہ داری جو عائد ہوتی ہے، وہ یہی ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والے جھگڑوں کو عدل وانصاف کے ساتھ چکائیں۔ عدل کا مطلب یہ ہے کہ قانون کی نگاہ میں امیر وغریب، شریف و وضیع، کالے اور گورے کا کوئی فرق نہ ہو۔ انصاف خریدنی و فروختنی چیز نہ بن جائے۔ اس میں کسی جانب کسی عصبیت،کسی سہل انگاری کو راہ نہ مل سکے‘‘۔(تدبر قرآن،/2 323) سورہ حدید میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
خلافتِ راشدہ ، جو دراصل انقلابِ نبوی کا تسلسل تھی، اس میں یہ بات پوری طرح مشہود ہو گئی کہ ایک ریاست کی بنیادی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ مسلمان حکمران کیسے ہونے چاہئیں۔ ان میں عامۃ الناس کی کفالت، ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ سب سے اہم ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی واضح ہے کہ حکمرانوں کا طرزِ زندگی اوسط درجے کا ہونا چاہیے۔ یہ اسلام کے کم از کم احکامات ہیں جو حکمرانوں سے متعلق ہیں۔ رسالت مآب ﷺ نے مدینہ میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے تین کام کیے۔ مسجد نبوی کی تعمیر۔ ذاتی گھروں کی تعمیر،کفالتِ عامہ کے لیے مواخات اور جو بچ گئے ان کے لیے کھانے اور قیام کا اہتمام جنہیں اصحابِ صفہ کہتے ہیں۔ کیا ہمارے حکمران اس ترتیب سے واقف ہیں؟
ریاست کے بعض فرائض دینی بھی ہیں۔ ان میں نماز کا اہتمام، زکوٰۃ کی ادئیگی، نیکی کی تلقین اور برائی سے روکنا۔(الحج 22:41) اس میں زکوٰۃ تو کفالتِ عامہ سے متعلق ہے۔ برائی سے روکنے کے لیے ریاست سزا سے تلقین تک، کوئی کام کر سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی سخت ناپسندکیا ہے کہ کوئی مسلمان سماج میں بے حیائی کو فروغ دے۔ ایک حکومت کو یقیناً اس بارے میں بھی حساس ہونا چاہیے۔ اسلام نے بے حیائی کے بعض کاموں پر سزا سنائی ہے، بعض پرزبانی تنبیہ کی ہے۔ اس کا لحاظ آج کی ریاست کو بھی رکھنا ہے۔ اب بے حیائی یا فحاشی کیا ہے، اس کا بھی تعین ہونا چاہیے۔ میں نہیں جان سکا کہ موسیقی فی نفسہ بے حیائی کیسے ہوگئی؟ اگر ریاست کے نزدیک یہ بے حیائی ہے توصرف 14فروری کو کیوں؟ باقی دنوں میں کیوں نہیں؟ پھر اس سے بھی اہم تر مسئلہ ترجیح کا ہے۔کیا آج ملک کے اسلامی تشخص کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے؟
جس سماج میں اقتصادی ناہمواری ہو، جہاں آدھی سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر تی ہو، جہاں مذہب کے نام پر قتل جیسا سنگین جرم عام ہو، وہاں ایک حکومت کی پہلی ترجیح کیا ہونا چاہیے؟ ویلنٹائن ڈے سے عام آ دمی کوکوئی دلچسپی نہیں۔ یہ چند آسودہ حال گھرانوں میں پلنے والی نئی نسل کے اللے تللے ہیں۔ سوال لیکن یہ ہے کہ جس شہر میں پولیوکے قطرے جعلی ملیں اور وہ مرض پھوٹ پڑے جو ساری دنیا میں ختم ہو چکا، کیا اس شہر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں کسی خاص دن کوئی محفلِ موسیقی نہیں ہو نی چاہیے؟ کیا ایسے ملکوں میں بر سرِ اقتدارگروہ کی دینی ذمہ داری بس اتنی ہے کہ اسمبلی میں نعت پڑھوا دے؟ یہ بھی نیکی ہے لیکن جو حکمران بنیادی ذمہ داریوں سے غافل ہوں،کیا انہیں حق ہے کہ وہ اس پر اتراتے پھریں؟ جس اسلام کو حوالہ بنایا جاتا ہے، اس میں تو حکمران اس پر خوف زدہ رہتے ہیں کہ فرات کے کنارے بھوک سے مر جانے والے کتے کا وبال کہیں ان کے سر نہ ہو۔
بدقسمتی سے ہمارے حکمران کبھی یہ نہیں جان پائے کہ بطور حکمران، اسلام ان سے کیا تقاضا کرتا ہے؟ ان کی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں۔ انہیں اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ وہی ریاست چور کے ہاتھ کاٹنے کا استحقاق رکھتی ہے جس نے پہلے بھوک کا خاتمہ کیا ہو۔ وہی بے حیائی کے خلاف تادیبی کارروائی کر سکتی ہے جس نے پہلے اس کے اسباب کا تدارک کیا ہو۔ جہاں چاروں طرف سے نو جوانوں کے اخلاق پر یلغار ہو، وہاں تادیب کام نہیں آتی، نصیحت کے ساتھ وہ ماحول فراہم کیا جاتا ہے جو اخلاق کو بطور قدر مستحکم کرتا ہو۔ مو لانا مودودی کے الفاظ میں، ایسے ماحول میں بے حیائی پر سزا دینے کے بجائے، ان لوگوں کو خان بہادر اور سر کا خطاب دینا چاہیے جو اس ترغیب کے با وجود ،اس سے دور رہتے ہیں۔
افسوس کہ اس ملک میں اسلام کی بات سطحی مباحث اورنمائشی مظاہر تک محدود ہو گئی ہے۔ ہرکوئی اس سے بے نیاز ہے کہ اس کی سماجی حیثیت کے مطابق، اسلام اس سے کیا مطالبہ کر رہا ہے۔ سب کی نظر دوسروں کے اعمال پر ہے۔ حکومت بھی یہی کر رہی ہے۔ ویلنٹائن ڈے نہیں منانا۔ پولیو پھیلتا ہے تو پھیلتا رہے۔ لوگ بھوک سے مرتے ہیں تو مرتے رہیں۔ انصاف نہیں ملتا تو نہ ملے۔ہماری دینی ذمہ داری پوری ہوگئی کہ ہم نے بے حیائی کا دروازہ بند کر دیا۔