یہ اصطلاحیں ہیں جو گمراہ کرتی ہیں۔میرا احساس ہے کہ اصطلاح ایک حجاب ہے جوفرد شناسی اور سماج شناسی کے راستے میں حائل ہوجاتاہے۔
میں سوشل میڈیا پہ نہیں ہوں۔اِس کی بازگشت لیکن اِدھر اُدھر سے سنتا ہوں۔برادران وجاہت مسعود اور سبوخ سید کی ویب سائٹس دیکھ لیتاہوں جن سے اندازہ ہو تا ہے کہ نظریاتی محاذ پر کیا معرکہ آرائی ہے۔ کبھی کبھی گما ن ہو تا ہے کہ اس ملک میں 'سیکولر‘ اور 'مذہبی‘ نام کی دو مخلوقات پائی جاتی ہیں جو ذہنی اور حیاتیاتی ترکیب ہی میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔جب ان تحریروں کے بین السطور جھانکتا ہوں تو گاہے یہ گمان ہو تا ہے کہ دونوں ایک ہی بات کہہ رہے ہیں۔یہ اصطلاحیں ہیں جو دونوں کو ملنے نہیں دیتیں۔مجھے اس موقع پر انسان اور جن کا وہ دلچسپ فرق یاد آتا ہے جو سر سید اورپرویز صاحب نے بیان کیاہے۔انہیں یہ ماننے میں تامّل ہے کہ جن انسانوں سے الگ کوئی مخلوق ہیں۔ان کا خیال ہے کہ انسان اور جن دراصل ایک ہی مخلوق ہے۔اِنس اسمِ صفت ہے جس سے مرادمہذب لوگ ہیں اور جن سے مراد وحشی، جنگلی اور غیر مہذب انسان ہیں۔جنوں اور انسانوں کے اس فرق سے تواتفاق مشکل ہے لیکن پاکستان کے سیکولر اور مذہبی گروہوں کا فرق مجھے اسی نوعیت کا دکھائی دیتا ہے۔ایک ہی جنس کے دو طبقات جو اصطلاحوں میں الجھ گئے۔
میرا خیال ہے یہ ابلاغ کی ایک مجبوری ہے۔انسان اپنے خیالات موجود لغت اور اصطلاحوں ہی میں بیان کر تا ہے۔الفاظ خیال کا پوری طرح احاطہ نہیں کر سکتے۔اصطلاحیں شاید وضع بھی اسی لیے ہو تی ہیں۔سیکولرزم ایک اصطلاح ہے۔یہ ایک نظریہ بھی ہے۔بعض اوقات، لوگ جب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ زندگی کے فلاں فلاں معاملات، فی نفسہ مذہب کا موضوع نہیں ہیں،اس لیے انہیں مذہبی نہ بنایا جا ئے تو اس کے لیے سیکولر کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ناقد اس کا مفہوم 'سیکولرزم‘ کے تناظر میں طے کرتے ہیں جو دراصل ایک نظریہ ہے۔
یہ مشکل نئی نہیں ہے۔مسلم دنیا میںجہاں جہاںسماج،ریاست اور مذہب کا تعلق زیرِ بحث ہے،وہاں وہاں یہ قضیہ درپیش آیا۔انڈونیشیامیں ،مثال کے طور پر، اسی طرح ہوا جب ڈاکٹر نور خالص مجیدنے یہی بات کہنے کی کوشش کی۔ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ دنیاوی معاملات بنیادی طور پر مذہبی نہیں ہوتے۔یہ انسان کوازل سے درپیش رہے ہیں ۔ان کے بارے میں انسانی تجربے اور عقل نے اس کی راہنمائی کی اور یہ ایک جاری عمل ہے۔انہیں اسی حوالے سے سمجھنا چاہیے۔انہوں نے اپنے ان خیالات کو دو مذہبی تصورات پر استوار کیا۔ایک 'تو حید‘ اور دوسرا 'خلافت اللہ فی الارض‘ ۔ان کا خیال تھا کہ الہامی حیثیت صرف توحید کی ہے۔غیر اللہ کو، جن میں انسان کے قائم کردہ ادارے شامل ہیں جیسے،ریاست،انہیں بھی الہامی حیثیت دینا،شرک ہے۔انسان دنیا میں اللہ کا خلیفہ ہے۔ان کے خیال میں اس منصب کا تقاضا ہے کہ اس کا تخلیقی جوہر ہمیشہ سامنے آتا رہے۔اسے وہ 'سیکولرائزیشن‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔انہوں نے ایک نعرے کی طرح اسے بیان کیا :'اسلام:جی ۔اسلامی جماعت:نہیں‘۔
1970ء کی دہائی میں جب انہوں نے یہ بات کہی تو ہنگامہ برپا ہو گیا۔کہا گیا کہ وہ سیکولرزم کے حامی ہیں۔اس پر انہیں وضاحت کر نا پڑی کہ سیکولرائزیشن سے مراد انسان کی آزادی فکر کو یقینی بناناہے، سیکولرزم کی بطور نظریہ توثیق نہیں۔انہوں نے اپنی تائیدمیں،مسیحی الہیات کے بڑے فاضل ہاروے کوکس(Harvey Cox)کی
بیسٹ سیلر کتاب' سیکولر سٹی‘(The Secular City)کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے سیکولرزم اورسیکولرائزیشن کے فرق کو واضح کیا ہے۔زیرِبحث مسئلے میںاس کتاب اور مصنف کی اہمیت اس سے واضح ہے کہ سیکولرزم کی اصطلاح نے مسیحیت کے پس منظر میں جنم لیا تھا۔کوکس کے خیال میں سیکولرائزیشن ایک سماجی عمل ہے جس کے بہت سے پیرہن ہیں۔ہرلبادے یا پیرہن کا تعلق ایک خطے کی سیاسی اور مذہبی تایخ سے ہے۔یہ دراصل آزادیٔ فکر کی ترقی(liberating development) ہے۔ان کے خیال میںیہ سیکولرزم سے بالکل مختلف عمل ہے جو ایک نیا مذہب ہے جس کے اپنے لگے بندھے اصول ہیں۔نو رخالص مجید کا کہنا ہے کہ جب وہ انڈونیشیا کے مسلم سماج کی سیکولرائزیشن کی بات کرتے ہیں تو ان کی مراد دنیاوی معاملات کو مذہبی تقدس سے آزاد کرنا (desacralization) ہے،معاشرے کوسیکولرسٹ بنانا نہیں۔(علم کی دنیا میں مسلمان اور اسلامسٹ دو مختلف اصطلاحیں ہیں۔اسی طرح سیکولر اور سیکولرسٹ بھی الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں۔)
سیکولرزم کو نیامذہب کیوں کہا جاتا ہے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مذہب کی طرح کچھ نتائجِ فکر کو قبول کرنے پر اصرارکرتا ہے جن میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔جیسے وہ جمہوریت کی ایک خاص تعبیر'لبرل ڈیموکریسی‘ کو ماننے پرمصر ہے۔اگر کسی خطے کے لوگوں کی اکثریت اس پر متفق ہو جائے کہ وہ ریاست کے قوانین کو مذہب کی روشنی میں ترتیب دیں گے تو وہ اس جمہوریت کو قبول کرنے پر آ مادہ نہیں۔اگر پارلیمنٹ یہ فیصلہ کر دے کہ عوامی مقامات پر شراب نوشی منع ہے تو وہ مذہبی گروہوں کی طرح پارلیمنٹ کے اس حق کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔اس کے خیال میں یہ انسانی حقوق کے اس تصور سے متصادم ہے جسے وہ درست سمجھتے ہیں۔یہی رویہ مذہبی طبقات کا بھی ہو تا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے منظور کردہ حقوقِ نسواں قانون کومسترد کر دیتے ہیں جوان کے مذہبی تصورات کے خلاف ہے۔مذہبی رویہ کیا ہے؟چند نتائج فکر پر اصرار اور ان سے مختلف کسی تعبیر کو ماننے سے انکار۔جب سیکولرسٹ یہی رویہ اپنا تے ہیں تو سیکولرزم بھی ایک مذہب بن جا تا ہے۔
پاکستان میں مذہبی طبقات کی انتہا پسندی سے تنگ آئے ہوئے بعض پُرجوش نو جوان، مجھے خدشہ ہے کہ سیکولرزم اور سیکولرائزیشن کے فرق سے واقف نہیں۔میرا تاثر ہے کہ وہ جو بیانیہ سیکولرزم کے نام سے پیش کر رہے ہیں،در اصل سیکولرائزیشن کا بیانیہ ہے۔وہ یہ چاہتے ہیں کہ سماج کو کسی ایک طبقے کا فکری یرغمال نہ بنایاجائے۔معاشرے میں فکری آزادی ہو۔لوگوں کو یہ حق ملنا چاہیے کہ وہ اپنے لیے من پسند طرزِ زندگی کا انتخاب کریں۔وہ جس طرح یہ نہیں چاہتے کہ کوئی مذہبی تعبیر ان پر بالجبر نافذ کی جائے،اسی طرح وہ اس کے بھی خلاف ہیں کہ کوئی غیر مذہبی یا سیکولر تعبیر بھی ان پر زبردستی نافذ ہو۔مجھے خدشہ ہے کہ اگر اس بات کو سیکولرزم سے الگ کر تے ہوئے نہ سمجھا گیا تو نوجوان نسل ایک نئے فکری بحران میں مبتلا ہو سکتی ہے۔ پہلے خدا کے نام پر ان کا استحصال ہوا، اب آزادی کے نام پر انہیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس خدشے کا سبب وہی خلطِ مبحث ہے جو اصطلاحوں کے باعث وجود میں آیا ہے۔اصطلاحیں فلسفیانیہ تعبیر رکھتی ہیں اور سماجی بھی۔سماجی مفاہیم لغت کی کتابوں سے نہیں ،انسانی رویوں سے طے ہو تے ہیں۔پاکستانی سماج اگر آزادی فکر کے کسی عمل سے گزرتاہے جسے کوکوکس یا نورخالص مجید (liberating development) یا سیکولرائزیشن سے تعبیر کرتے ہیں تویہ عمل ہمارے مذہبی اورتاریخی پس منظر کا پابند ہوگا۔یہ پس منظر اس عمل کو جو مفہوم دے گا ،وہ مقامی ہوگا۔مصر اور انڈونیشیا جیسے ممالک میں یہ عمل کئی عشروں سے جاری ہے۔ہمارے ہاں اب شروع ہوا ہے۔اس کا سبب شاید یہ ہے کہ و ہ معاشرے ان تجربات سے برسوں پہلے گزر چکے جن سے ہم آج دو چار ہیں۔یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارا دانش ور قدرے تاخیر سے بیدار ہوا ہے۔
خوش آئند یہ ہے کہ اس بحث کا آغاز ہو چکا۔اس کا خیر مقد م کر نا چاہیے۔میں آزادیٔ فکر و عمل کا حامی ہوں۔ میرے نزدیک یہ اُس الہامی منصوبے کا ناگزیر تقاضا ہے جو قانونِ آزمائش کی بنیاد پر ترتیب دیا گیا ہے۔اس پر قید لگانا،دراصل وہ کام اپنے ہاتھ میں لینا ہے، جوخدا نے قدرت رکھتے ہوئے بھی ،اپنے لیے پسند نہیںکیا۔