کیا قومی سیاسی جماعتوں کو ادراک ہے کہ آج ملک کو ایک نئے بیانیے کی ضرورت ہے؟ کیا انہیں خبر ہے کہ جمہوریت اور سیاست کا مستقبل سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں ہے؟
ایک ٹی وی مذاکرے میں بات چل نکلی تو سوال اٹھا: سیاسی جماعتوں میں اہل فکر و نظر کے لیے بھی کیا کوئی جگہ ہے؟ن لیگ سے تحریکِ انصاف تک، سب کی صفوں کو کھنگالا گیا۔ شرکائے گفتگو خالی ہاتھ لوٹ آئے۔ نہ صرف خالی ہاتھ بلکہ اس تاسف کے ساتھ کہ ترقیء معکوس ہے جو تھمنے کو نہیں آرہی۔ میں نے سوال اٹھایا: نیشنل ایکشن پلان میں ایک قومی بیانیے کی بات کی گئی ہے۔ کیا کسی سیاسی جماعت کی طرف سے کوئی بیانیہ سامنے آیا ہے؟ کیا پارلیمنٹ کا کوئی ایک اجلاس بھی اس کے لیے خاص کیا گیا ہے؟ سب سوالوں کے جواب نفی میں تھے۔ یہ صدمہ کم نہیں ہوا کہ ایک سروے سامنے آیا۔ معلوم ہوا کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والی سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام میں جمہوریت اجنبی ہے۔ ن لیگ نے اس معرکے میں بھی میدان مار لیا۔ سب سے کم جمہوریت اگر کہیں ہے تو اسی جماعت میں ہے۔
کبھی علامہ اقبال مسلم لیگ میں تھے۔ کبھی مولانا ابوالکلام آزاد کانگرس کے صدر تھے۔ علم کی دنیا میں ہم اُن سے بڑا آدمی شاید ہی پیدا کر سکے ہوں۔ پھر بھٹو صاحب تھے اور شیخ محمد رشید۔ شیخ رشید مرحوم کی کتاب برادرم فرخ گوئندی صاحب نے شائع کر دی ہے۔ کتاب کا عنوان ممکن ہے آپ کو اجنبی لگے: 'اسلام کا معاشی نظام اور تحریکِ پاکستان‘۔ پھر محمد حنیف رامے۔ دھیرے دھیرے یہ چہرے غائب ہوتے گئے۔ شیخ محمد رشید کی جگہ شیخ رشید احمد نے لے لی۔ حنیف رامے کے منصب پر جہانگیر بدر فائز ہو گئے۔ مسلم لیگ کو تو لگتا ہے علم سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ علامہ اقبال کا منصب تاحیات خالی ہے۔ اب سیاسی جماعتوں کی ضرورت میڈیا منیجر ہیں، اہلِ علم نہیں۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کا میں ذکر نہیں کر رہا کہ ان میں سے اکثر کسی صاحبِ فکر کا حاصلِ فکر ہیں۔ ان کا فکری المیہ ایک الگ داستان ہے۔ میں تو ان جماعتوں کی بات کر رہا ہوں جو سر تا پا سیاسی ہیں۔
قومی بیانیہ دینا اصلاً سیاسی جماعت کا کام ہے۔ وہ اس معاملے میں ظاہر ہے کہ اہلِ دانش سے مشاورت کرے گی۔ موجود علمی کام سے استفادہ کرے گی۔ میرے لیے حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے اس کی ضرورت تک محسوس نہیں کی۔ میرے علم میں نہیں کہ کسی نے اس موضوع پر اہلِ علم سے مشاورت کی ہو۔ کسی جماعتی سربراہ کے بیانات میں اس کی طرف کوئی اشارہ ہو۔ جو موضوعات ان کی دلچسپی کے ہیں، ان پر سوچ بچار کا اندازہ ہوتا ہے۔ میں ان کی افادیت کا منکر نہیں، جیسے انفراسٹرکچر کی تعمیر، جیسے غیر ملکی سرمایہ کاری کو متوجہ کرنا۔ روزمرہ امور چلانے کے لیے ان باتوں کی اہمیت مسلمہ ہے لیکن محض ان سے کارِ جہاں بانی نہیں چل سکتا۔ امریکی حکومت اور سیاسی جماعتوں کی حکمتِ عملی کے پس منظر میں سینکڑوں تھنک ٹینکس کی تحقیق ہے۔ یہی نہیں، یونیورسٹیوںکے پروفیسروں کو حکومت اور سیاسی جماعتوں میں اہم مناصب دیے جاتے ہیں۔ کونڈولیزا رائس وزیر خارجہ بننے سے پہلے ایک یونیورسٹی میں پڑھاتی تھیں۔
مشر قِ و سطیٰ میں امریکی اثر و رسوخ برسوں کی فکری ریاضت کا حاصل ہے۔ جب اس عمل کا آغاز ہوا تو کم و بیش ہر امریکی یونیورسٹی میں 'مطالعہ مشرقِ وسطیٰ‘ کا شعبہ قائم ہو گیا۔ دنیا بھر کے عالی دماغوں کو پُرکشش مراعات دے کر جمع کیا گیا۔ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست، معاشرت، مذہبی رجحانات، ہر پہلو پر تحقیقی کتابوں اور مقالات کے ڈھیر لگ گئے۔ اس تحقیق کی بنیاد پر وہ حکمت عملی وجود میں آئی‘ جس نے پورے خطے کو امریکی نوآبادی بنا دیا۔ امریکی غلبہ کھیل تماشا نہیں۔ یہ دو کلاشنکوفوں اور تین مجاہدوں کا کارنامہ نہیں۔ ایک ہمہ جہت حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے۔ امریکہ نے پہلے اپنے 'پیکرِ خاکی‘ میں جان پیدا کی۔ اپنا استحقاق ثابت کیا۔ اس کے بعد قانونِ فطرت کے عین مطابق دنیا کی قیادت اس کی دہلیز پر آ کھڑی ہوئی۔ کائنات کے سربستہ رازوں کو جاننے کا عمل آج بھی جاری ہے۔ آج تو اس شور کو بھی سن لیا گیا ہے‘ جو تخلیقِ کائنات کے وقت اٹھا تھا‘ اور نوری سالوں کی مسافت طے کرتا، اب ہم تک پہنچا ہے۔
جب کسی قوم میں غور و فکر کا عمل ختم ہو جاتا ہے‘ تو فکری زوال کسی ایک شعبے تک محدود نہیں رہتا۔ وہ سارے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ پھر سیاسی جماعتیں بھی اس کی زد میں ہوتی ہیں۔ اس لیے آج ہم اپنی سیاسی جماعتوں کو اس عمومی زوال سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے؛ تاہم اس زوال کا علاج بھی ان کے پاس ہوتا ہے جو سیاسی قیادت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ قیادت اگر غور و فکر سے عاری ہو گی تو پھر اس کا وہی نتیجہ نکلے گا جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی جماعت ایک لمیٹڈ کمپنی بن جائے گی جسے چلانے کے لیے سیاسی راہنما نہیں، ایک منیجر کی ضرورت ہو گی۔ ہمارے ملک میں یہی ہو رہا ہے۔ جو اچھا منیجر ہے، لوگ اسے سیاسی راہنما سمجھنے لگتے ہیں۔ کسی وژن کے بغیر راہنمائی کا یہی رویہ دراصل پاکستان کے سیاسی زوال کا باعث ہے۔
سیاسی راہنما کے لیے کچھ لازم نہیں کہ وہ خود مفکر ہو۔ اگر ہو تو کیا بات ہے۔ لیکن کم ازکم یہ تو ہو کہ اسے اس کی اہمیت کا اندازہ ہو۔ اکبر جیسا ان پڑھ اکبرِ اعظم کیسے بنا؟ اسے اپنی کمزوری کا ادراک تھا اور اس کے ساتھ وہ فکر و نظر کی ضرورت کو بھی سمجھتا تھا۔ اس نے دربار میں ایک فرد کو یہ ذمہ داری سونپ رکھی تھی کہ وہ سامنے آنے والی کتاب کی خبر رکھے گا اور پھر اسے پڑھ کر سنائے۔ اس وقت چھاپہ خانہ موجود نہیں تھا۔ اس کے باوجود وہ اس کا اہتمام کرتا تھا۔ اس کا ٰایک وزیر وہ تھا جس نے پہلی بار اوزان کے معیار مقرر کیے۔ اسے دنیا میں اعداد و شمار کے اولیں ماہرین میں شامل کیا جاتا تھا۔ اسی نے پٹواری کے ادارے کو منظم کیا اور لٹھے کو رائج کیا جو آج تک زمین کی ملکیت کا سب سے مستند ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ زمین کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے سے امید کی جا رہی ہے کہ یہ کلچر تبدیل ہو جائے گا؛ تاہم بھارت اور پاکستان میں صدیوں سے یہ نظام چلا آ رہا جو اکبر کا دیا ہوا ہے۔
سیاسی جماعتوں میں اہلِ فکر کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ انہیں میڈیا منیجرز کی ضرورت ہے۔ اسی طرح وہ اپنی صفوں میں جمہوریت کو بھی جگہ نہیں دینا چاہتیں لیکن یہ خواہش کرتی ہیں کہ ملک میں جمہوریت رہے۔ میں ہمیشہ یہ عرض کرتا رہا ہوں کہ فکر ہو یا اجتماع، غلط خیال کے ساتھ تو زندہ رہ سکتا ہے، تضاد کے ساتھ نہیں۔ حکومت قومی بیانیہ دینے سے معذور ہے۔ سیاسی جماعتیں اس جانب متوجہ نہیں۔ اس کا یہ بدیہی نتیجہ ہے کہ وہ خلا میں ہاتھ پاؤں مارتے رہیں اور ابہام میں اضافہ کرتے رہیں۔ وزیر اعظم ہائوس میں محض شرمین عبید چنائے کی فلم چلانے سے ملک روشن خیال ہو سکتا تو جنرل ضیاالحق مرحوم کے دور میں ہو گیا ہوتا جب بھارتی اداکار شترو ایونِ صدر میں جلوہ افروز ہوئے تھے۔
حکومت اور حکومت کو تبدیل کرنے کے متمنی سیاست دانوں کو سمجھنا ہو گا کہ اس ملک کو ایک حقیقی سماجی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اسے ایک قومی بیانیہ ترتیب دینا ہے۔ اس کی اوّلین ذمہ داری سیاسی جماعتوں کی ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں اہلِ فکر سے گریزاں رہیں گی تو ان کا فکری خسارہ انہیں قصۂ پارینہ بنا دے گا۔ اگر وہ اپنی صفوں میں جمہوریت نہیں لاتیں تو ملک میں بھی جمہوریت نہیں رہے گی۔ جس طرح فرد خاندان کی اکائی ہے، اسی طرح سیاسی جماعتیں، سیاسی کلچر کی اکائی ہیں۔ اکائی میں فساد ہو گا تو لازم ہے کہ کُل میں بھی فساد ہو۔