چند دن پہلے یو ٹیوب پر ایک زندہ پیر صاحب کے ملفوظات سنے۔ ان کا مقدمہ یہ ہے کہ وہ رسالت مآب ﷺ کے روحانی بیٹے ہیں۔آپﷺ نے اپنے روضہ مبارک میں کئی بار ان سے ملاقات کی۔آپ کے پاس خزانوں کی چابیاں تھیں اور ان میں پاکستان کی حکومت کی چابی بھی تھی۔پیر صاحب کو پیشکش کی گئی ہے کہ وہ چاہیں تواس چابی کو ادھر گھمادیں،اُسی وقت پاکستان کی حکومت بدل جائے گی۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جبریلؑ و میکالؑ کو ان کا وزیر بنا دیا گیاہے۔دعا تو وہ محض شریعت کا پردہ رکھنے کے لیے مانگتے ہیں ورنہ انہیں ان کی ضرورت نہیں۔ بادشاہ تو حکم دیا کرتے ہیں۔پھر انہوں نے بتایا کہ کیسے بارش بر سانے والے فرشتے کو انہوں نے اپنے علاقے میں بارش برسانے سے روک دیاکہ ان کا موڈنہیں تھا۔ساتھ ڈانٹا بھی کہ اگر اس نے بات نہ مانی تو وہ حضرت جبریلؑ سے اس کی شکایت کر دیں گے۔اس کے بعدبارش نہیں ہوئی۔
تصوف کی روایت میں یہ باتیں اجنبی نہیں ۔رجال الغیب سے تو ہمارے کالم نگاروں نے ہمیں اچھی طرح متعارف کرادیاہے۔ان کی معرفت ہمیں اکثر ان کی تنبیہات پہنچتی رہتی ہیں۔ تفصیل کے متلاشی شیخ احمد سرہندیؒ کے سلسلہ مجددیہ میں پائے جانے والے نظریہء قیومیت کا مطالعہ کریں یا شاہ ولی اللہ کی کتب دیکھ لیں۔ پیر صاحب نے ہماری معلومات میں محض اتنا اضافہ کیا ہے کہ وہ بھی ان رجال الغیب ہی میں سے ایک ہیں۔
چند احباب نے مجھے معاصر علما کی کچھ وڈیوز بھی بھیجی ہیں۔ان میں وہ دوسرے مسلک کے علما کے بارے میں گفتگو کرر ہے ہیں۔ میں آپ سے سچ عرض کر تا ہوں کہ یہ گفتگو اخلاق سے اس قدر عاری ہے کہ بے تکلف دوستوں کی مجلس میں بھی،طبیعت سننے سے ابا کرتی ہے۔ان دونوں طرح کی ویڈیوز میں میرے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ ان حضرات کو مریدوں اور سامعین کا ایک بڑا حلقہ دستیاب ہے۔وہ ان کی باتوں پر حق اور نعرہ تکبیر بلند کرتے ہیں۔میں حیرت سے سوچتا ہوں کہ جس با ت پر آ دمی شرم سے سر جھکا لیتا ہے،اس پر نعرہ تکبیر کیسے بلند کیاجا سکتا ہے؟لیکن اس ملک میں یہ سب ہو رہا ہے۔کیا ہم نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے؟
اسلام کی اساس دو باتوں پر ہے۔ وحی اور عقل۔عقل ہمیں پیدائش کے ساتھ ودیعت کی گئی ہے اوروحی کا ماخذرسالت مآب سیدنا محمدﷺ کی ذات والا صفات ہے۔اس کے دومظاہر ہیں۔ قرآن اور سنت۔ہماری بد قسمتی یہ ہوئی کہ مذہب ،عقل اور وحی دونوں سے الگ ہو گیا۔یہ توہمات کا نام رہ گیا یا پھر ہماری خواہشات کا۔ عقل سے جدا کرنے کا نتیجہ توہمات کا فروغ ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ بتا دیا کہ اس کائنات کا نظام اللہ کی کس سنت کے تابع ہے۔یہاں عروج وزوال کا قانون کیا ہے۔اسی طرح آخر ت کے معاملات کس بنیاد پر طے ہوں گے۔پیغمبر کس مقصد کے لیے مبعوث کیے جا تے ہیں اور انسان کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔
ہم قرآن مجید سے رہنمائی لینے سے گریزاں ہیں۔دنیا میں ترقی کے ان اصولوں کو ماننے پر آمادہ نہیں جو قرآن مجیدبیان کر تا ہے۔پھر ہم رجال الغیب سے رجوع کر تے اور ان سے معلوم کرتے ہیں کہ اللہ کے راز کیا ہیں اور ہمار ے بارے میں اس نے کیا فیصلہ کر رکھا ہے۔رجال الغیب سے ہر آ دمی ''بہ ہمتِ اوست‘‘ رجوع کرتا ہے۔ کوئی اپنی بیماری کا علاج کراتا ہے اور کوئی قومی مسائل کا حل پو چھتا ہے۔کوئی کسی ایک رجل کو مانتا ہے ،کوئی کسی دوسرے کو۔ان سب میں بنیادی تصوراور تعبیر کے باب میں کوئی فرق نہیں۔فرق ہے تو مصداق میں۔
مذہب جب تعصب بنتا ہے تو وہ اخلاقیات سے جدا ہو جا تا ہے۔اخلاق سے الگ مذہب کا کوئی تصور ممکن ہے؟کم از کم میرے لیے تو نہیں۔میں اسے کیسے مبلغ دین مان لوں جو منبر پر بیٹھ کر دوسرے مسلک کے لوگوں کو گالیاں دے؟میں اسے کیسے امام ابو حنیفہ ؒکی فقہ کا نمائندہ قرار دے دوں جودوسروں کے بارے میں برسرمنبر بدکلامی کرتا ہے؟لوگ لیکن مانتے ہیں۔ نہ صرف مانتے ہیں بلکہ ان مغلظات پر نعرہ تکبیر بھی بلند کرتے ہیں۔میں ایسی تقریریں سن کر سوچتا رہا کہ کیا سامنے بیٹھے کسی ایک آ دمی نے بھی سوچا ہو گا کہ استدلا ل اور دلیل تو بہت بعد کی بات ہے،اس اسلوب ِ کلام کے بعد کیا اسے مذہب کا نمائندہ مانا جا سکتا ہے؟مذہب جب عصبیت،میں ڈھلتا ہے تو یہی ہوتا ہے۔پھر دوسروں کی عزت،مال، جان، سب کچھ مباح ہو جا تا ہے۔
اللہ کے رسول تو انسانوں کے تزکیے کے لیے تشریف لاتے ہیں۔وہ یہ کام وحی سے کرتے ہیں۔رسالت مآبﷺ نے قرآن مجید سے انذار کیا۔صحابہ کا طرزِ عمل بھی اسی اسوہ کی پیروی رہا۔خلافتِ راشدہ میں ہمیشہ عقل سے معاملات کا فیصلہ کیا گیا۔ مشورہ کیا گیاا ور جسے صائب سمجھاگیا، اسے مان لیا گیا۔ قرآن مجید سے راہنمائی لی گئی اورعروج وزوال کو اور اصولوں کو اسی کی روشنی میں سمجھا گیا۔رہا اخلاق کا معاملہ تو یہ حکمران ہوں یا عامی، مذہب ایک لمحے کو اخلاقیات سے الگ نہیں ہوا۔سماج میں رویوں کو اسی حوالے سے پرکھا گیا اور اسی سے سماجی مرتبے کا تعین ہوا۔مذہب عقل اور وحی کے تابع رہا۔
کہنے کو ہم ایک مذہبی معاشرہ ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ مذہب کے نام پرتوہمات ہیں اورتعصبات۔اس وقت اگر مذہب جیسی ایک مثبت قدر اعتراضات کی زد میں ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے۔مذہب جب عصبیت بنتا ہے تو وہ دوسرے مسلک اور دوسر ے مذہب کی مخالفت میں ڈھل جا تا ہے۔جب اخلاقیا ت سے جدا ہو تا ہے تو پھر مخالفین کے بارے میں ہر رویے کو روا سمجھتا ہے۔آج لوگ معصوم انسانوں کی جان لیتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ دین کی خدمت کر رہے ہیں۔وہ قرآن مجید کو نظرا نداز کرتے اور غیر مصدقہ روایات پر دین کی عمارت کھڑی کرتے ہیں۔یہاں تک کہ ان بنیادوں پر پوری امت کو عذاب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔پس منظر میں جذبات کارفرما ہوتے ہیں یا تعصبات۔
مذہب خیر کی ایک قوت ہے۔یہ سماج کے حسن میں اضافہ کرتا ہے۔اگر اسے عقل اور وحی کی اساسات پر کھڑاکر دیا جائے توکسی معقول آ دمی کے لیے شاید یہ ممکن نہ ہو کہ وہ اس کی افادیت سے انکار کر سکے۔لازم ہے کہ دین کا ہر مقدمہ قرآن مجید کے معیار پر پرکھا جائے یا عقلِ عام کی بنیاد پر۔لوگ یہ کہتے بھی سنائی دیتے ہیں کہ عقل اور مذہب متصادم ہیں۔یہ بھی ایک مغالطہ ہے جو دانستہ پھیلایا جا تا ہے۔اس مقدمے کو منوائے بغیرتوہمات کو مذہب کے نام پر رائج نہیں کیا جا سکا۔آج مذہب ان لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بنتا جا رہا ہے جو عقل اور وحی کو عملاً ماخذماننے پر آمادہ نہیں۔اگر کوئی اس کی کوشش کرتا ہے کہ وہ مذہب کی بنیادیں عقل اور و حی پر استوار کرے تواس کے خلاف لوگ فتویٰ اور بندوق دونوں سے لیس ہو کر میدان میں نکل آتے ہیں۔مذہب کا یہ المیہ پرانا ہے۔شا یدیہ کشمکش ہمیشہ جاری رہنی ہے،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ سنا دے۔یہ زمین آسمان لپیٹ دیے جائیں اور ہم سب اس کے حضور پیش ہو جائیں۔
اس وقت کا انتظار کیجیے یا پھر پیر صاحب کی وڈیو دیکھیے!!