مذہب سے سیاسی فوائد کشید کرنے کی کوششیں ایک بار پھر عروج پر ہیں۔ پانچ سال جنہوں نے ممتاز قادری کے گھر کا راستہ نہیں دیکھا، آج اس کی میت پر سب سے زیادہ ماتم کرنے والے وہی ہیں۔ اب انہیں بچوں کی کفالت کی فکر بھی لاحق ہو گئی‘ جو پانچ سال سے عملاً یتیمی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ اقبال نے کہا تھا‘ یہ اسلام ہے جس نے ہمیشہ مسلمانوں کی مدد کی، مسلمانوں نے اسلام کی کبھی مدد نہیں کی۔ آخر اہل مذہب کب تک اسلام سے دنیاوی فائدے نچوڑتے رہیں گے؟ کیا وہ وقت بھی کبھی آئے گا جب اسلام کو ان کی ذات سے بھی کوئی فائدہ پہنچے گا؟ اسلام کی اس سے بڑھ کر شاید کوئی خدمت نہ ہو سکے کہ اسے مزید جنسِ بازار نہ بنایا جائے۔
مذہبی سیاست کا دور ختم ہو چکا۔ سیاسی ادارے ارتقا کے مراحل سے گزر کر، اب اس جگہ آ کھڑے ہوئے ہیں جہاں وہ خود کفیل ہیں۔ نظریات ان کی تشکیل میں اب شریک نہیں۔ یہ بیسویں صدی کے گزرے ماہ و سال کا قصہ ہے جب نظریات سیاست کی صورت گری کر رہے تھے۔ قومیت، اشتراکیت، سرمایہ داری، فاشزم، ازموں کا ایک بازار تھا جہاں صبح و شام چہل پہل تھی۔ اہل مذہب نے بھی کوشش کی کہ اس بازار میں ایک دکان کھول لیں۔ حسب توفیق سب کو گاہک مل گئے۔ دنیا نے بہت سے تجربات کیے۔ ایک صدی کے تجربات کا حاصل آج ہمارے سامنے ہے۔ آج وہ سرمایہ داری دم توڑ چکی جو آدم سمتھ کے ٹیکسال میں ڈھلی تھی۔ وہ اشتراکیت قصہ پارینہ ہے جسے مارکس نے ایک رومان بنا دیا تھا۔ وہ قومیت بھی ختم ہو چکی جو جرمن فاشزم میں مجسم ہوئی تھی۔ وہ
'اسلام ازم‘ بھی باقی نہیں رہا جو اسلامی انقلاب کے نعرے میں متشکل ہوا تھا۔ ایران کے انتخابات نے اس حقیقت کو ایک بار پھر طشت از بام کر دیا ہے۔ آج سیاسی اداروں نے ایک نئی صورت اختیار کر لی۔ بیسویں صدی کی نظریاتی بحث اب غیر متعلق ہو چکی۔
ظلم لیکن ختم نہیں ہوا۔ استحصال باقی ہے۔ سامراج صورت بدل کر موجود ہے۔ غلبے کی انسانی خواہش بروئے کار ہے۔ نتیجتاً رد عمل بھی ہے۔ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ سیاسی غلبے کے وہ تقاضے پورے نہیں کر سکتے جو اس عہد میں لازم ہو چکے، انہوں نے بغاوت کا اسلوب اپنایا ہے۔ دور حاضر میں سیاسی غلبہ جس علمی و تہذیبی غلبے کو لازم کرتا ہے، وہ اسے قائم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ انہوں نے بغاوت کو شعار کیا۔ مسلم معاشرے میں مذہب کو سہارا بنایا۔ مذہبی روایت سے جہاد جیسی اصطلاحیں لے کر، انہیں نئے معانی پہنائے۔ یوں سیاسی غلبے کے لیے دور حاضر کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا گیا۔ میرا احساس ہے کہ مذہب کے نام پر غلبے کی خواہش رکھنے والوں کے لیے اب یہی راستہ باقی ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ آج عسکری تنظیموں کو ان ہی سے دست و بازو مل رہے ہیں، جنہوں نے بیسویں صدی کے ماحول میں مذہب کو ازم بنا کر پیش کیا تھا۔
اس کا یہ مفہوم نہیں کہ مذہب اجتماعی زندگی سے لاتعلق ہو گیا ہے۔ خدا پر ایمان، پیغمبرانہ بصیرت پر اعتماد اور آخرت پر یقین کے بغیر زندگی آسودہ نہیں ہو سکتی۔ انسان کی صدیوں پر محیط تاریخ اس کی گواہ ہے۔ مذہب ہمیشہ کی طرح اپنے فطری دائرے میں موجود رہے گا اور رویّوں پر اثر انداز بھی ہو گا۔ یہ افراد اور رویّوں کی تطہیر اور تزکیہ ہے، جو تہذیب کا اصل وظیفہ ہے۔ جب مذہب سماج میں ایک موثر قوت بنے گا‘ تو لازم ہے کہ سیاست پہ بھی اثر انداز ہو۔ یوں مذہب سیاست سے فطری طور پر وابستہ ہو گا۔ سیاسی ادارے، انسان اپنی تہذیبی ضروریات کے تحت بناتا ہے۔ یہ مذہب کا کام نہیں۔ اس کا کام ان کی تطہیر ہے۔ اس کا یہ کام باقی ہے، جب تک انسان کا اخلاقی وجود باقی ہے۔
مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے، اداروں اور مذہب کی بدلتی صورت اور کردار سے لاعلم ہیں۔ وہ بدستور بیسویں صدی کی نفسیات میں زندہ ہیں۔ جنہوں نے اس تبدیلی کو سمجھا، انہوں نے تجزیے میں غلطی کی۔ وہ یہ جان گئے کہ سیاسی عمل جس ڈگر پر چل نکلا ہے، اس میں مذہب کے نام پر سیاست کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ انہوں نے ایسے گروہوں کا رخ کیا جنہوں نے نظام سے بغاوت کا راستہ اپنایا۔ جو اس تبدیلی کا ادراک نہیں کر سکے وہ اب بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ مذہب کے نام پر سیاست ہو سکتی ہے۔ بارہویں کھلاڑی کی طرح آج وہ کسی حادثے کے انتظار میں تھے، جب وہ میدان میں اتریں اور تالیوں کی گونج کا رخ اس کی طرف ہو۔ ممتاز قادری کی پھانسی، ان کے خیال میں وہ حادثہ ہے جو بارہویں کھلاڑی کو معتبر بنا دے گا۔
آج کے دور میں سیاست کا مسئلہ مذہب نہیں ہے۔ مسئلہ اداروں کی تطہیر ہے۔ اسے گڈ گورننس بھی کہتے ہیں۔ یہ کام دو طرح سے ہو سکتا ہے۔ ایک قانون کی حکمرانی ہے۔ جہاں سیاسی استحکام ہے اور عوام مطمئن ہیں وہاں کے سیاسی نظام کا امتیاز قانون کی حکمرانی ہے۔ دوسرا طریقہ سماجی تطہیر ہے۔ معاشرتی رویّوں کی اصلاح۔ احترامِ قانون کے فروغ کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے آگاہی۔ اس کا سب سے آسان اور فطری نسخہ مذہب ہے۔ ایک ایسے فرد کی تعمیر جو خدا کے حضور میں جواب دہی کے احساس میں جیتا ہے۔ اس نفسیات کی تعمیر تعلیم سے ہوتی ہے۔ شعور و آگاہی سے ہوتی ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ میں انسانی شاکلہ کو تبدیل کرنے سے ہوتی ہے۔ یہ کام مصلحین کرتے ہیں۔ مصلحین کی پہچان یہ ہے کہ وہ سیاست کی حریفانہ کشمکش میں فریق نہیں ہوتے۔ اس امت کی تاریخ میں یہ مصلحین فقہا ہیں، علماء ہیں، تصوف کے فلسفیانہ پہلو سے صرف نظر کریں تو صوفیا ہیں۔ یہ ابو حنیفہ ہیں۔ یہ غزالی ہیں۔ یہ ابن رشد ہیں۔ یہ سر سید ہیں۔ سعید نورسی ہیں۔ فتح اﷲ گولن ہیں۔ یہ اقتدار کی جنگ میں فریق نہیں لیکن ان کے متاثرین سیاسی جنگ میں سرخرو ہوئے ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں اگرکسی مذہبی سیاست دان کے لیے کوئی جگہ ہے تو وہ صرف مولانا فضل الرحمٰن ہیں۔ ان کی سیاست مذہب کی سیاسی تعبیر پر نہیں، مذہب کی سماجی قوت پر کھڑی ہے جس کا مظہر دینی مدارس ہیں۔ ان کے پاس سیاسی اداروں کی مذہبی تشکیل کا کوئی تصور ہے نہ فارمولا۔ یہی سبب ہے کہ موجود سیاسی نظام کے ساتھ تطبیق پیدا کرنا، ان کے لیے کبھی مشکل نہیں رہا۔ طاہرالقادری صاحب نے کسی حد تک اس کا ادراک کیا جب انہوں نے تعلیم کو اپنا موضوع بنایا۔ وہ سیاسی قوت کی بنیاد پر اسمبلی کی ایک نشست نہیں جیت سکتے لیکن اپنے سماجی اثرات کی وجہ سے ایک کامیاب دھرنا ضرور دے سکتے ہیں۔ جنہوں نے سیاست کا مذہبی بیانیہ پیش کیا اور اسی پر اکتفا کیا، ان کے لیے سیاست میں اب کوئی جگہ نہیں۔
مذہب کی جگہ سماج میں ہے۔ مذہبی سماجی ادارے ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ معاشرہ جن عوامل سے بنتا ہے، ان میں مذہب بھی شامل ہے۔ مذہب سماج کی فطری ضرورت ہیں۔ سماج چونکہ تہذیبی اور فکری طور پر ایک تغیر پذیر ادارہ ہے، اس لیے مذہب کا فکری اور تہذہبی کردار بھی قائم رہے گا۔ اس وجہ سے ان لوگوں کا کردار بھی باقی ہے جو اسلام کو علمی و فکری اور تہذیبی سطح پر پیش کر رہے ہیں۔ مذہبی سیاست کے لیے شاید اب کوئی جگہ نہ ہو۔
مذہبی سیاست کرنے والوں کی نظریں اب ممتاز قادری کی قبر پر ہیں۔ اس سے سماج کو ایک نیا مجاور تو مل سکتا ہے، نئی سیاسی قیادت نہیں۔ مذہب نے ہمیشہ اہلِ مذہب کو فائدہ پہنچایا ہے۔ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اہل مذہب خود کو اسلام کی خدمت کے لیے پیش کر دیں؟