ہمارے خاندانی نظام کو خطرہ حقوقِ نسواں کے قانون سے نہیں،بھارتی ڈراموں سے ہے۔بھارتی چینلز پر پابندی لگی توان کے ڈرامے پاکستانی چینلز پر دکھائے جانے لگے۔حبِ مال میں ،وہ یہ بھول گئے کہ ہمارے معاشرے کو اس کی کیا قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
خاندانی نظام کا حسن جن رشتوں کے دم سے ہے،ان ڈراموں نے ہمیں بتایا کہ یہ سب دھوکہ اور فراڈ ہے۔ساس بہو کے خلاف سازش کر رہی ہے۔بہو نندوں سے برسرِ پیکار ہے۔نندیں بھابی کی تاک میں ہیں۔بڑی بھابھی، چھوٹی بھابھی کو نیچا دکھانا چاہتی ہے۔ رہی دادی تو گھر میں سب سے بڑی فتنہ پرور وہی ہے۔اس کا دماغ تو شیطان کا گھر ہے۔اگر پورے گھرانے میں کوئی اچھا کردار ہیں تو وہ لڑکا اور لڑکی ہیں جو ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ان کا معاملہ بھی یہ ہے کہ دو دو لڑکیاں ایک لڑکے کو پھنسانے کے چکر میں ہیں۔ڈرامہ یہ سکھاتا ہے کہ ایک نوجوان لڑکی کا مقصدِ زندگی یہ ہونا چاہیے کہ و ہ کوئی خوبرو اور پیسے والا لڑکا گھیرے۔اس جنگ میں سب کچھ جائز ہے کہ ان کے خیال میں یہ محبت ہے۔ہر اخلاقی ضابطہ، ہرسماجی قدر،اُس کے راستے کی دھول ہے اور یہ اقدارو ضوابط اسی کے مستحق ہیں کہ انہیں پائوں کی ٹھوکر پر رکھا جائے۔
میں ٹی وی بہت کم دیکھتا ہوں۔میں تو سیاسی پروگرام نہیں دیکھتا،ڈرامہ دیکھنے کی فرصت کہاں۔چند روز پہلے،میری بھابھی نے توجہ دلائی کہ یہ ڈرامے ہمارے معاشرے پر کیا اثرات مرتب کر رہے ہیں؟بات چل نکلی تو اور بہت سی خواتین بھی شریکِ گفتگو ہوگئیں جو وہاں موجود تھیں۔معلوم ہوا کہ یہ ڈرامے ہمارے خاندانی نظام پر گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ہماری ساس، بہو،نند،بھابھی ان ڈراموں سے سیکھ رہی ہیں کہ دوسرے رشتوں کے خلاف سازش کیسے کرنی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ سب کچھ ،ان ڈراموں سے پہلے یہاں نہیں تھا۔لیکن جس درجے میں اب اسے فروغ مل رہا ہے،وہ ہر اس آ دمی کو مضطرب کرنے کے لیے کافی ہے جوخاندنی نظام سے کچھ بھی لگائو رکھتا ہے۔
خاندان کیا ہے؟رشتوں کی خوشبو جو گھر کے آنگن میں پھیلتی ہے تو ہر موسم، بہار کا موسم ہو تا ہے۔رشتوں کے بغیر خاندان کاتصور ممکن نہیں۔یہ رشتے انسان کی فطری ضرورت ہیں اور سماجی بھی۔ان کے بغیر زندگی جمالیاتی اورتہذیبی رنگ سے محروم ہو جا تی ہے۔انسان اگر محض شکم ہے توپھر روٹی کپڑے اور مکان کی ضمانت اس کے لیے کافی ہے۔عصرِ حاضر کے غالب فلسفہِ زندگی نے انسان کو شکم اور جنس کا مرکب سمجھا ہے۔اس کے خیال میں کامیاب نظامِ زندگی وہی ہے جو ان دو شہوتوں کی تسکین کا سامان کر دے۔عمر کے مگر بہت سے مراحل ہیں۔پہلے اور آخری مراحل میں زندگی ان شہوتوں سے بڑھ کر کچھ مطالبات رکھتی ہے۔خاندانی نظام ان کی تکمیل کا سامان کر تا ہے۔رشتے عمر کے ہر مر حلے پر سکون کی علامت ہوتے ہیں۔ایسا مگر کب ہو تا ہے؟
ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب یہ رشتے فطری حسن کے ساتھ نمودار ہوں۔جب پیار اور احترام کے وہ جذبات بروئے کار آئیں جوان رشتوں کی اساس ہیں۔یہ جذبات ہماری فطرت میں گندھے ہوئے ہیں۔بچے کو دیکھ کر دل اس کی طرف لپکتا ہے۔بوڑھے کندھوں کا بوجھ اپنے کندھوں ہر محسوس ہوتا ہے۔یہ دراصل ان رشتوں کا پھیلائو ہے جو ایک گھر میں جنم لیتے ہیں۔میں نے اپنے بچوں کو دادی اور نانی کی گود میں کھیلتے دیکھا ہے۔اس گود کی گرمی ان کے رگ و پے میں اتر چکی ہے۔آج وہ ہستیاں دنیا میں نہیں، لیکن انہیںہربڑی عورت میں ان کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ہمارے گھر کبھی کبھی ایک بوڑھی خاتون آتی ہیں۔ضرورت مند ہیں۔وہ جب بھی آتی ہیں، میری بیٹی کا دل چاہتا ہے کہ گھر کی ہر چیز انہیں دے دے۔ فطری ترتیب یہی ہے۔خاندان کی چار دیواری سے اٹھنے والے رشتوں کی مہک، سارے سماج میں اسی طرح پھیلتی ہے۔پھر ہم ہر بڑی عمر کے آ دمی کو چچا جان کہتے ہیں۔ ہر خاتون کو خالہ جان کہہ کر بلاتے ہیں۔یہ باپ اور ماں کے رشتوں کی صدائے بازگشت ہے۔
ہماری روایت یہ ہے کہ ان رشتوں میں خیر ہے۔خون کے رشتے تو سب مانتے ہیں۔دوسرے رشتے مصاہرت (سسرالی) کے ہیں۔سسرالی رشتے ،اس خطے کی بعض روایات کے زیرِ اثرشر کا عنوان بن چکے۔ساس ایک خاتون کے لیے ایک ناقابلِ قبول رشتہ ہے۔پہلے دن سے حریف۔یہ ساس کون ہے؟ خاوند کی ماں اور اس کے اپنے بچوں کی دادی ہے۔آج وہ شر کی علامت ہے۔یہی معاملہ بہو کا ہے۔ساس کو اس سے کسی خیر کی امید نہیں۔شادی کا بندھن معلوم ہوتا ہے کہ صرف مر دعورت کے تعلق کا نام ہے۔اس کے بعد ان رشتوں کو اس تعلق میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔یوں ایک جنگ شروع ہوتی ہے اور پھر گھر جہنم بن جا تا ہے۔
خاندان کی روایت، ایک فطری طلب سے اٹھی ہے۔ مذہب فطرت کے مطالبات کی تہذیب کر تا ہے۔ہر الہامی مذہب میں یہ رشتے محترم ہیں۔اسلام بھی اسی الہامی روایت کا آ خری باب ہے۔ان رشتوں کے حسن کو رسالت مآب ﷺ نے جس طرح نمایاں کیاہے، واقعہ یہ ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔بیٹیوں کے ساتھ رشتہ ایک طرف کہ اس کوسب سمجھ سکتے ہیں،کاش لوگ جانتے کہ سید ہ خدیجہؓ کی سہیلیوں کے ساتھ آپ کا معاملہ کیا تھا۔اپنی رضاعی بہن کے ساتھ آپ کس طرح پیش آتے تھے۔ آپ نے نسبی رشتوں کے حسن کو ،اپنے اسوہ حسنہ سے جس طرح مصاہرت اور رضاعت تک پھیلا دیا‘اگر اس کی ایک جھلک بھی ہمارے معاشرے میں آ جائے تویہ رشتے ہماری ہر مادی اور نفسیاتی ضرورت کا علاج بن جائیں۔
بھارتی ڈرامے ہمیں بتارہے ہیں کہ یہ سب رشتے شر ہیں۔یہ مفادات کے تصادم پر قائم ہیں۔بقا کا اصول یہ ہے کہ ایسے ہر رشتے کو پا مال کر دیاجائے۔سازش‘ خاندانی تعلقات کی روح ہے۔ایثار، قربانی، محبت، احترام، ان جذبات کا ان رشتوں میں کہیں گزر نہیں۔بہو بہو ہوتی ہے جو کبھی بیٹی نہیں بن سکتی۔ساس ساس ہوتی ہے،اس میں ماں کی جھلک نہیں دیکھی جا سکتی۔ یہ تعلیم ہمارے خاندانی نظام کے لیے اصل خطرہ ہے۔افسوس اُن لوگوں پر جو چند دام کے لیے اس خاندان کو پامال کر نے پر تلے ہیں ۔خاندان،جو ریاست کی ناکامی کے بعد میرے مادی اور نفسیاتی بقا کا واحد سہارا ہے۔ ریاست جب روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہے تو پھر یہی رشتے میرا لباس ہوتے ہیں اور سائبان بھی۔
خاندانی نظام کی سلامتی کے لیے ہم سب کو اپنا کام کر نا ہے۔ایک کام ڈرامے کی روایت کا احیا بھی ہے۔عطاالحق قاسمی صاحب پی ٹی وی کے چیئرمین بنے تو انہوں نے اپنے ایک نکاتی ایجنڈے کا اعلان کیا:اپنے ڈرامے کو زندہ کرنا۔میں ان کے لیے دعاگو ہوں۔اس باب میں ایک کام 'پیمرا‘ کوبھی کرنا ہے۔کیا بھارتی چینلز محض اس لیے بند کیے گئے تھے کہ وہ مقامی مارکیٹ سے اپنا حصہ وصول کر رہے تھے؟کیا اڈراموں کاتہذیبی پہلو پیشِ نظر نہیں تھا؟اگرتھا تو یہی کام اب مقامی چینلز کر رہے ہیں۔اگر ان پر کوئی قدغن نہیں لگتی تو پھر یہی سمجھا جائے گا کہ یہ جھگڑا صرف معاشی مفادات کا تھا۔
پاکستانی ڈرامہ بھی اصلاح طلب ہے لیکن بھارتی ڈرامے کا معاملہ کہیںسنگین ہے۔مکر رعرض ہے کہ سماج اقدار سے قائم رہتا ہے، قانون سے نہیں۔یہاں قانون سے معاشرے کو اسلامی بنانے کی کوشش ہو تی ہے۔یہ کوشش ناکام ہو چکی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نظام ِ اقدار پر کسی کی توجہ نہیں۔اس کج فہمی کی ایک جھلک ہم حقوقِ نسواں کے قانون پر اہل مذہب کی تنقید سے دیکھ چکے۔سماجی اقدار کی مضبوطی کے لیے مقامی ثقافت اورفنونِ لطیفہ کا زندہ کرنا ناگزیر ہے جس کی ایک صورت ٹی وی ڈرامہ ہے۔سماج کو متبادل دینا ہوگا۔یہ حکومت سے زیادہ معاشرے کی ذمہ داری ہے۔