کئی بار قلم اٹھایا اور رکھ دیا۔آنکھیں دھندلا جائیں تو لکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔کوئی زندگی کی رعنائیوںکا مرثیہ بے نم آنکھوں سے لکھ کر دکھائے تو مانوں!
آخری قدم قبرستان سے باہررکھنے لگا تو ایک بار پھر مڑ کے دیکھا۔ چند منٹ پہلے ممتاز ماموںکو لحد میں اتارا تھا۔ اب دیکھا تو مٹی کا ایک ڈھیر سامنے تھا۔ تو کیا وہ رعنائی خیال، وہ تبسم، وہ تکلم، وہ علم، وہ بصیرت، وہ حسنِ خُلق، سب پیوند خاک ہو گئے؟ کیا ان سے ایک دائمی محرومی اب مقدر ہے؟ لگا دل اچھل کے حلق میں آ گیا ہے۔ دل نے چاہا کہ میں اس خاک سے مخاطب ہوں اورغالب کے الفاظ میں شکوہ کروں کہ ایک اور خزانہ تیرے حوالے ہے۔ تو نے 'یہ‘ گنج ہائیِ گراں مایہ کیا کیے؟ اداسی نے پائوں جکڑ لیے۔ اللہ کا شکر کہ اقبال آگئے اورمیرا ہاتھ پکڑلیا۔ میں سنبھل گیا۔ جکڑے ہوئے قدم اٹھنے لگے۔ انہوں نے سرگوشی کی ؎
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
ترے وجودکے مرکز سے دور رہتا ہے
ممتاز ماموں، جنہیں دنیا ڈاکٹر ممتاز احمد کے نام سے جانتی رہے گی، میرے ماموں تو تھے ہی، بہترین دوست اور استاد بھی تھے۔ مربی اورمحسن بھی تھے۔ آج میری زندگی میں خوب صورت لوگوں اور افکار کی جو رعنائی ہے، وہ بڑی حد تک ان کی عطا تھی۔ ان کے علاوہ جن شخصیات نے میری زندگی میں رنگ بکھیرے، وہ اصلاً ان کا حلقہ احباب تھا۔ ان کا ایک بڑا احسان یہ تھا انہوں نے مجھے ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری اور پروفیسر فتح محمد ملک سے ملوایا۔ سالوں سے یہ لوگ میرے علمی ماخذات میں شامل ہیں۔ یہی نہیں، ان سے بے تکلفی اتنی بڑھی کہ میں کہنا چاہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ یہ اب میرا حلقہ احباب ہے۔ سجاد میر اور سلیم منصور خالد کی محبت مجھے انہی کی وجہ سے نصیب ہوئی۔ مجیب الرحمن شامی صاحب سے تعارف میں وہ حوالہ نہیں تھے، لیکن ان کی شفقت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا جب انہیں معلوم ہوا کہ ڈاکٹرممتاز میرے ماموں ہیں۔ ڈاکٹر انوار حسین صدیقی اورنصیر احمد سلیمی سمیت ان سب نے مجھے اپنا لیا۔ وہ چلے مگر میں اس کہکشاں میں ان کا نور دیکھتا رہوں گا۔ نظر بھی، محبت بھی۔ اقبال مجھے ہی بتانے آئے تھے۔
ممتاز ماموں جیسا وسیع المطالعہ اور متنوع ذوق رکھنے والا میں نے زندگی بھر نہیں دیکھا۔ مذہب، سیاست، سماج، ادب، فلسفہ، فنون لطیفہ۔۔۔۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں ان کی معلومات بے پناہ اور تجزیہ انتہائی گہرا نہ ہو۔ بلامبالغہ ان کے پاس ان تمام شعبہ ہائے حیات سے متعلق معلومات کا خزانہ تھا۔ یونیورسٹی آف شگاگو سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی تھے لیکن علم کا کوئی شعبہ ان کی دسترس سے باہر نہیںتھا۔ اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ مینجمنٹ سائنسز کے اساتذہ کا انتخاب ہو رہا تھا۔ وہ سلیکشن بورڈ میں تھے۔ انٹرویو کے لیے آنے والے پی ایچ ڈی کی سند لیے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے سوالات کیے تو سلیکشن بورڈ حیرت سے تکنے لگا اور ساتھ امیدوار بھی۔ یہ بات مجھے اس بورڈ کے ایک رکن نے بتائی۔ میں نے خود زندگی میں بارہا اس کے مظاہر دیکھے اور سلیکشن بورڈ کی طرح حیرت میں ڈوبا رہا۔
پاکستان منتقل ہونے سے پہلے، تین دہائیوں سے زیادہ امریکہ میں مقیم رہے۔ جب یہاں آتے تو طویل ملاقاتیں ہوتیں۔مجھے خیال ہوتا کہ میں شاید انہیں یہاں کی کوئی نئی بات بتا سکتا ہوں۔کوئی نئی کتاب،کوئی منفرد واقعہ۔ ہر ملاقات کے بعد میرا تاثر یہی ہوتا تھا کہ وہ مجھ سے زیادہ پاکستان کے حالات سے باخبر ہیں۔ ایک ماہ پہلے امریکی ادارے'نیشنل بیورو آف ریسرچ ‘ نے پاکستان پر ایک خصوصی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس میں ان کامضمون پڑھنے کے لائق ہے۔ نیویارک ریویو آف بکس، لندن بک ریویو جیسے نئی کتابوں کے تبصروں پر مشتمل دنیا کے سب سے معروف جرائد مستقل ان کے مطالعے میں رہتے اورشاید ہی کوئی اہم کتاب ان کی نظرسے پوشیدہ رہتی۔اردو، انگریزی دونوں کا معاملہ یہی تھا۔ اسلامی تحریکیں، مشرقِِ وسطیٰ کی سیاست،اسلامی تعلیم، ان کی دلچسپی اور تحقیق کے خصوصی موضوعات تھے۔ بنگلہ دیش کے دینی اداروں اور نصاب پر اتھارٹی تھے۔ مشرق وسطیٰ پر عشروں سے بی بی سی ریڈیو کے مستقل مبصرین میں سے تھے۔ تعلقات کا دائرہ بہت وسیع تھا اور اس میں بھی بے پناہ تنوع تھا۔ جب ایک بار تعلق قائم ہوگیا تو پھرختم نہیں ہوا۔
ان کی خداداد صلاحیتیوں کو پروفیسر خورشید احمد صاحب کی صحبت، راہنمائی اورشفقت سے مہمیز ملی۔ خورشید صاحب کے لیے ان کی محبت اور احترام تادمِ آخر قائم رہا۔ وہ ایف اے کے بعد کراچی چلے گئے اور پھر وہیں کے ہوگئے۔ کراچی یونیورسٹی سے بی اے کے امتحان میںبطور پرائیویٹ طالب علم شریک ہوئے اور یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن لی۔ یہ ریکارڈ غالباً آج تک برقرار ہے۔ ایم اے میں بھی امتیاز باقی رکھا۔ اوائل عمر میں'مسئلہ کشمیر‘ کے عنوان سے کتاب لکھی۔ اس کا دیباچہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا۔ یہ ایک طالب علم کے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی۔پروفیسر خورشید احمد صاحب کی وجہ سے اسلامی جمعیت طلبہ میں متحرک رہے لیکن وہ اصلاً علم کی دنیا کے آ دمی تھے اوردورِ طالب علمی ہی میں اس کے کے لیے خاص ہو گئے۔ جوانی میں شاعری بھی کی۔ حسرت تخلص کیا۔ طرحی مشاعروں میں انعام لیے لیکن بعد میں اس صلاحیت کا ظہور شعروں کے حسنِ انتخاب ہی میں ہو سکا۔
ڈاکٹر ممتازاحمد کی فکری تشکیل میں مو لانا مودودی کے علمی کام کا گہرا اثر ہے۔ تاہم ایک سچے محقق کی طرح ان کا فکری ارتقا بھی جاری رہا۔ یونیورسٹی آف شگاگو میں ڈاکٹر فضل الرحمٰن ان کے استاد تھے۔ ممتاز صاحب ان کے علم و فضل کے بہت معترف تھے۔ ان کے دل میں ان کے لیے بے حد احترام تھا۔ ان سے اثر بھی قبول کیا۔ تاہم اس فکری ارتقا کے باوجود مولانا مودودی سے ان کی محبت اور فکر کا رشتہ آخر تک ایک درجے میں قائم رہا۔ ایک فکری طور پر آزاد آ دمی اور ایک سچے طالب علم کے لیے یہ مشکل ہوتا ہے کہ وہ کسی غیر معصوم فکری کھونٹے سے سدا بندھا رہے، الا یہ کہ وہ سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائے۔ ان کا کمال یہ تھا کہ وہ نظری اختلاف کو سماجی رشتوں میں حائل نہیں ہونے دیتے تھے۔ سید منور حسن صاحب سے گہری دوستی تھی جو عشروں پر محیط ہے۔ ان کی سیاست سے شدید اختلاف رکھتے تھے لیکن یہ اختلاف ان کے باہمی تعلقات میں رکاوٹ نہیں بنا۔ میں نے ایک بار پوچھا تو کہنے لگے: ''میں منور بھائی سے اب سیاست پر بات نہیں کرتا‘‘۔ ممتاز صاحب کی ادبی تربیت میں سلیم احمد مرحوم کا بہت حصہ ہے۔ سلیم احمد کی مجلس سے جن کے ساتھ دوستی ہوئی، وہ عمر بھر کی رفاقت میں بدل گئی۔ سجاد میر بھی انہی میں سے ہیں۔
یہ ایک جھلک ہے اس آ دمی کی، جسے ہم نے 31 مارچ کو وقتِ عصر لحد میں اتار دیا۔ سوال تو اٹھتا ہے کہ اس پیکر ِخاکی کے ساتھ کیا یہ علم وفضل اور حسن و رعنائی بھی پیوندِ خاک ہوگئے؟ یقیناً نہیں۔ دنیا میں بھر میں ان کے لاکھوں شاگردوں اور مجھ جیسے خوشہ چینوں کے ہاں ان کا ظہار ہوتا رہے گا۔ اقبال نے اسی بات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ڈھارس دی۔ اس دلیل نے دماغ پہ ضرور دستک دی،کچھ دیر متاثر بھی کیا لیکن دل کا کیا کریں کہ کم ازکم اس وقت توغالب کی باتوں کی طرف لپکتا ہے۔ اداسی دامن سے لپٹ گئی ہے۔ ایسا دوست کہاں ملے گا جس سے اتنے موضوعات پر بے تکلف بات ہو سکے۔ جس کی مجلس بیک وقت دل اور دماغ کو مسحور کیے رکھے۔ وہ تکلم، وہ تبسم، وہ محبت، وہ اب کہاں سے لائیں گے۔ میرے کالموں پر گہرا تنقیدی تبصرہ کون کرے گا؟ میرے فکراور اسلوب کی صحت پر کون اس طرح متفکر رہے گا؟ آج سالوں پر پھیلی طویل رفاقت کی یادیں چین نہیں لینی دیتیں۔ آنکھیں پھر دھند لانے لگی ہیں۔ بس قلم رکھتا ہوں۔ اب ہاتھ غالب کے ہاتھ میں ہے ؎
تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائی خیال کہاں