''یہ سسٹم بر باد ہو چکا۔اس سے اب کوئی خیر وابستہ نہیں کیا جا سکتا۔ملک کی بقا اسی میں ہے کہ اسے اکھاڑ پھینکا جا ئے‘‘۔
عمران خان کی حکمت ِ عملی کی کوئی تو جیہہ ممکن نہیں اگر یہ مقدمہ قائم نہ کیا جائے۔دوسرے لفظوں میں اگر یہ معلوم ہو جا ئے کہ اس نظام میں کوئی خیر پوشیدہ ہے جسے کوشش سے مزیدنمایاں کیا جا سکتا ہے تو یہ حکمتِ عملی خود بخود کالعدم ہو جا نی چاہیے۔تو کیا فی الواقعہ یہ نظام گل سڑ چکا؟ کیا اس سے کوئی خیر وابستہ نہیں ہے؟
یہ ایک بے بنیاد مقدمہ ہے جو کچھ آشفتہ سروں نے کئی سال سے قائم کر رکھا ہے۔یہ کوئی نئی بات نہیں۔خواب فروشی دنیا کا سب سے مقبول اور فائدہ بخش کاروبار ہے۔فلم بھی وہی کامیاب ہوتی ہے جس کاہیروسب سے زیادہ 'سٹیٹس کو‘ کو للکارتا ہے۔اسی فارمولے کو سیاست اور صحافت میں آ زمایا گیا اور یہ کامیاب ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ سیاست دان اور صحافی کے دن پھر گئے مگر عام آ دمی وہیں کھڑا رہا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ نظام سے، سب سے زیادہ نفع اُسی نے کشید کیا جو اس کے خلاف بغاوت کا علم اٹھا ئے ہوئے تھا۔
میرے سر کے بالوں میں اب چاندی غالب آنے لگی ہے۔دو باتیں میں بچپن سے سن رہا ہوں۔ایک یہ کہ اسلام کو جتناخطرہ 'آج‘ لاحق ہے پہلے کبھی نہیں تھا۔دوسرا یہ کہ یہ نظام کسی کو کچھ نہیں دے رہا۔اس کو اب بر باد ہو جا نا چاہیے۔اس کی تواب خاک اڑا دینی چاہیے۔میرے لیے یہ'آج‘ کئی عشروں پر محیط ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ آج اسلام پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔یہ سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ یہاں دہریت کی کوئی تحریک برپا ہوئی نہ اس کا امکان ہے۔تاہم کچھ لوگ اس کو مسلمانوں کے سیاسی غلبے کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں۔ یہ دکھائی نہیں دیتاتو 'آج‘سے بے زار کر تے ہوئے، آنے والے کل کا رومان پیدا کرتے ہیں۔ یہی معاملہ نظام کا بھی ہے۔ اس کی بر بادی کا نقشہ کھینچا جاتا اورپھر کل کے لیے خواب فروشی کی جاتی ہے۔میں سالوں سے یہ سن رہا ہوں۔اس عرصے میں، اسلام کی طرح، نہ صرف یہ نظام باقی ہے بلکہ اس کی بعض کامیابیاں تو حیرت انگیز ہیں۔
تاریخ کا مطالعہ یہ دلچسپ حقیقت منکشف کر تا ہے کہ 'آج‘ کوہمیشہ مطعون کیا جاتا رہا ہے۔ہمارے مذہبی لٹریچر میں ایک باب پیش گوئیوں کا بھی ہے۔ان میں بتا یا گیا ہے کہ جب یہ یہ واقعات ہونے لگیں تو جان لو کہ عذاب آنے والا ہے یاقیامت قریب ہے۔تاریخ کے ہر دور میں لوگوں نے ان واقعات کا انطباق اپنے 'آج‘ پر کیا ہے۔انہوں نے بتا یا کہ تما م علامتیں سامنے آگئیں اور اب قیامت بھی بر پا ہو نے والی ہے۔یہ سب 'آج‘ کل میں ڈھل گئے اور قیامت نہیں آئی۔دورِ حاضر میں بھی کچھ لوگ یہ فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔بلیو ائر کا طیارہ مارگلہ کے پاروں سے ٹکرا جائے تو'اہلِ نظر‘ کی پیش گوئی سنائی جاتی ہے کہ انہوں نے پہاڑوں پہ پہلے ہی آگ دیکھ لی تھی۔اب عذاب ٹل نہیں سکتا۔شام میں خانہ جنگی ہو جائے تواسے بھی پیش گوئیوں سے جوڑ دیا جا تا ہے۔
یہ کچھ لوگوں کا مرغوب مو ضوع ہے ۔ایسے لوگ ہر دور میں رہے ہیں۔اس میں کیا شبہ ہے کہ قیامت بہت قریب ہے۔ختمِ نبوت، ایک مفہوم میں اعلانِ قیامت ہی ہے۔رسالت مآبﷺ نے اپنی دو انگلیوں کو بلند کر کے فرمایا کہ قیامت اور میں ایسے ہی ہیں جیسے یہ انگلیاں۔تاہم یہ ساعت کس دن اور کس لمحے آئے گی، قرآن مجید یہ بتاتا ہے کہ اس کا علم اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو نہیں۔ہم سب کو اس کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔اس باب میں اللہ اور اس کے رسول سے بڑھ کر سچی بات کس کی ہو سکتی ہے۔آپﷺ نے فرمایا‘ ایک آدمی کے لیے تو اسی دن قیامت آ گئی جس دن وہ دنیا سے رخصت ہوا۔یہ بات بھی درست ہے کہ آپﷺ نے اس کی نشانیاں بیان فرمائیں لیکن اس کا مصداق کیا ہے ،اس باب میں سب قیاس آرائیاں ہیں۔ وہ لوگ اپنی حد سے تجاوز کر تے ہیں جو بعض واقعات کو یقین کے ساتھ ان روایات کا مصداق بتاتے ہیں۔
رسالت مآب ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں ایک آدمی کے بارے میں شبہ پیدا ہوا کہ وہ دجال ہے۔حضرت عمر فاروقؓ نے اجازت چاہی کہ وہ اسے قتل کر دیں۔ رسول اللہ نے ﷺ منع کر دیا اور فرمایا کہ اگر یہ دجال ہے تواس کا قتل تمہارے ہاتھوں نہیں ہو نا۔اسی طرح ایک روایت میں یہ کہا گیا ہے کہ قرب قیامت میں خلافت علیٰ منہاج النبوت قائم ہوگی۔بہت سے اہل علم یہ رائے رکھتے ہیں کہ اس کا مصداق حضرت عمرؓ بن عبدالعزیز تھے۔کچھ ایسے بھی ہیں جو اب بھی اس خلافت کا مصداق تلاش کر رہے ہیں۔یہ مذہبی روایت ہے۔ اب ایک نظرعصری سیاسی روایت پر بھی ڈالتے ہیں۔
مختلف مراحل سے گزرنے کے بعداس ملک میں اللہ کا شکر ہے کہ آج ایک مضبوط نظام مو جود ہے۔یہاں ہر روزاربوں روپے کاکاروبار ہوتا ہے اور نظام پر اعتبار کرتے ہوئے لوگ لین دین کرتے ہیں۔عالمی مالیاتی ادارے اس نظام پر بھروسہ کرتے ہیں۔عدالتوں میں روزانہ ہزاروں مقدمات کے فیصلے ہوتے ہیں اور لاکھوں لوگ اس عدالتی نظام کی طرف رجوع کرتے ہیں۔کروڑوں بچے ہر روزسکول جا تے ہیں ۔لاکھوں لوگ ملازمت کرتے ہیں‘ جہاں ترقی کا ایک نظام ہے۔ کوئی سرکاری ادارہ ایسا نہیں جہاں ہر مہینے اہل کاروںکو تنخواہ نہ ملتی ہو۔لاکھوں پینشنرز اس نظام سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ملک میں سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ دفاعی نظام تو ایسا ہے کہ بھارت جیسی بڑی طاقت مر عوبیت کا شکار ہے۔ یہ ہمارا معاشی نظام ہے جو دنیا کی ایک بڑی فوج اور ایٹمی پروگرام کابوجھ اٹھا سکتا ہے۔ ہمیں کوئی خطرہ نہیں کہ اگلے سال ہمارے پاس دفاع کے لیے پیسے نہیں ہو ں گے۔ اب تو ہم جنگی جہاز بنا رہے ہیں
اور انہیں بر آمد بھی کررہے ہیں۔ میڈیا آزاد ہے اور متحرک بھی۔کیایہ سب کچھ کسی متحرک نظام کے بغیر ممکن ہے؟اسے گلاسڑا کہنا بڑی جسارت ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ اس نظام میں ا نگنت خرابیوں ہیں اور وہ اصلاح طلب ہیں۔اس کے لیے اب کیا کیا جائے؟کیا لوگوں کا اعتماد اس نظام سے ختم کر کے انہیں بتا یا جا ئے کہ ا س ملک میں ہر جج‘ ہر صحافی، ہر آ دمی قابلِ فروخت ہے جنہیں نوازشریف نے خرید رکھا ہے؟اس لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ عوام سڑکوں پر نکلیں اور اداروں یا گھروں کا گھیراؤ کریں؟ایک دوسرا راستہ بھی ہے۔وہ یہ کہ اس خیر کو غنیمت سمجھا جائے اور عوام میں خرابیوں کا شعور پیدا کرتے ہوئے،اسی نظام میں مو جود مزیدخیرتلاش کیا جائے؟ یہ دوسرا راستہ ہی بقا اور سلامتی کا ہے۔
انتخابی اصلاحات کا عمل آگے بڑھ رہا ہے۔اس نظام میں یہ خوبی مو جود ہے کہ اس کی مدد سے آنے والے انتخابات کوپہلے سے زیادہ شفاف بنا یا جاسکتاہے۔یہ کام رومان اور ہیجان سے نہیں ہو گا۔یہ الفاظ انقلابی تحریکوں کا حصہ رہے ہیں۔ جمہوری جدو جہد میں ان کا گزر نہیں ہو تا۔شہباز شریف صاحب نے انتخابی مہم میں اس کی کوشش کی۔وہ الفاظ اب ان کے گلے پڑے ہوئے ہیں۔میں ذمہ داری سے یہ عرض کرتا ہے کہ پاکستان کا نظام بھارت سے بہتر ہے۔بھارت کو ہم پر ایک برتری حاصل ہے اور وہ ہے جمہوری تسلسل۔اس کی وجہ سے اس نظام پر عام شہری کاا عتماد ہے اور عالمی برادری کا بھی۔اگر ہم یہ خوبی پیدا کر لیں توپاکستان کی ترقی کا گراف اوپر جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔