اسلام کی سیاسی تعبیر نے جن فکری مغالطوں کو جنم دیا، اُن میں سب سے تباہ کن یہ ہے کہ اس عہد کے مسلمان حکمران طاغوت ہیں، جن کا انکار فرض ہے۔ حکمرانوں کا انکار، ان کے حقِِ اقتدار کا انکار اور ان کے دائرۂ اطاعت سے نکلنا ہے۔ یہ حکمران ان حضرات کے خیال میں دو اسباب سے طاغوت ہیں۔ ایک یہ کہ وہ خدا کے حکموں کے بجائے جمہور کی رائے اور اپنی خواہشات کو مانتے ہیں۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ وہ ایک عالمی طاغوت امریکہ کے حواری ہیں۔ اوریا صاحب نے 23 مئی کے کالم میں، یہ مقدمہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ''طاغوت صرف طاغوت ہے۔ طاقت سے حکمرانی حاصل کرے یا ووٹ سے۔ اس کا انکار ہر مسلمان پر فرض ہے ورنہ وہ مسلمان نہیں۔ ہمارے حکمران اس کے کاسہ لیس اور حواری ہیں۔ طاغوت سے بھی بدتر‘‘۔
اوریا صاحب داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنی بات کسی ابہام کے بغیر، پوری دیانت کے ساتھ بیان کر دی۔ ان کے بقول جو طاغوت کا انکار نہیںکرتا، وہ مسلمان نہیں۔ ہمارے حکمران چونکہ طاغوت سے بھی بدتر ہیں، اس لیے جو ان کا انکار نہیں کرتا، ظاہر ہے کہ و ہ بدرجہ اولیٰ مسلمان نہیں ہو گا۔ پاکستان میں 97 فیصد مسلمان بستے ہیں۔ اس فتوے کے بعد ان میں سے کتنے مسلمان رہ گئے ہیں، میں اس کا جواب پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں۔ یہ بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اس سے بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر جو بیوروکریسی کا حصہ یا سر کاری ملازم ہو کر، ان حکمرانوں کے دست و بازو ہیں یا رہے ہیں، ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا ہم انہیں مسلمان کہہ سکتے ہیں؟
صرف یہی دو سوال یہ جاننے کے لیے کفایت کر تے ہیں کہ میںطاغوت کے اس مفہوم کو اسلام کی سیاسی تعبیرکا خطرناک ترین مغالطہ کیوں کہتا ہوں۔ اسی نے مصر میں الہجرہ والتکفیر کو جنم دیا۔ اسی نے القاعدہ کو وجود بخشا۔ یہی داعش کی فکری اساس ہے۔ ہماری نسل کے لیے تو اس تعبیر کے یہ ا ثرات تاریخی واقعہ نہیں، شخصی تجربہ ہیں۔ مسلمان حکمران جب طاغوت قرار پائے تو ان کے اقتدار میں شریک افراد بھی ان کے اعوان و انصارٹھہرے۔ اس تعبیر کے نئے علم برداروں نے ان سب کو مرتد اور واجب القتل قرار دیا۔ چنانچہ عام مسلمانوں کا قتل روا رکھا اور لاکھوں مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو پاکستان، افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ میں مار ڈالا۔ اس تعبیر نے مسلمان معاشروں کو فساد سے بھر دیا۔ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ میں حیرت زدہ ہوں کہ کوئی مسلمان بقائمی ہوش و حواس، جو جانتا ہے کہ اللہ کی کتاب ایک جان کی حرمت کے بارے میں کیا کہتی ہے، یہ فتویٰ دے سکتا ہے؟ مسلمان حکمرانوں کے بارے میں واضح ارشادات ِپیغمبر کی موجودگی میں، ان کے بارے میں اور عامۃ المسلمین کے بارے میں جو ان کا انکار نہیں کرتے، یہ رائے رکھ سکتا ہے؟
میں حسنِ ظن رکھتا ہوں کہ اسلام کی سیاسی تعبیر پیش کرنے والوں کو، جو دین کا علم رکھتے تھے، شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ تعبیر مسلمانوں میں اس طرح فتنوں کا دروازہ کھول دے گی۔ انہوں نے ازموں اور نظاموں کی دنیا میں شعورکی آ نکھ کھولی اور پھر روحِ عصر کے تحت، یہ خیال کیا کہ دین کو بھی انہی نظاموں کے پیرائے میں بیان کیا جائے۔ یہ علمی مشق کسی حد تک قابلِ قبول تھی اگر وہ اسے ایک متبادل سیاسی نظام کے طور پر پیش کرنے تک محدود رہتے۔ اسلام کے سیاسی غلبے کو دینی فریضہ قرار نہ دیتے۔ اگر وہ قرآن مجید کی بنیادی اصطلاحوں کی تفہیم نَو سے اسے دین کا مطلوب و مقصود نہ بناتے تو یہ محض حکمتِ عملی کا معاملہ ہوتا، دینی فرائض میں شامل نہ ہوتا۔ انہوں نے اسے فریضۂ اقامتِ دین قرار دیا۔ اس کا ناگزیر نتیجہ وہی تھا جو اوریا صاحب کے ہاں نکل آیا ہے۔ اب یہاں بسنے والے انیس کروڑ مسلمان اپنے ایمان اور جان کی خیر منائیں۔
محترم اوریا صاحب اس مقدمے کو ثابت کر نے کے لیے جس طرح قرآن مجید، احادیث اور سیرت کو بیان کرتے ہیں، وہ خلطِ مبحث اور ژولیدہ فکری کا نادر نمونہ ہے۔ یہی سلوک وہ تاریخ کے ساتھ کرتے ہیں، جب انقلابی جد وجہد اور انذار کی ذمہ داری میں فرق کو نظر اندازکرتے ہیں۔ پھر یہ کہ وہ عبارت فہمی کا کوئی اچھا مظاہرہ بھی نہیں کر سکے۔ میں نے عصبیت کو جمہوریت کے مترادف کہا، انہوں نے اسے آ مریت کے مترادف سمجھا۔ یہی نہیں، وہ اللہ کے رسول اور مسلم سماج میں کھڑے ایک مصلح کے فرق کو بھی پیش ِ نظر نہیں رکھتے۔ نبی ﷺ کسی مسلمان معاشرے میں اصلاح کے لیے نہیں، ایک دین ناآشنا سماج میں کھڑے تھے۔ آپ کے مخاطَب وہ نہیں تھے جو اسلام کو بطور دین قبول کر چکے تھے۔ رسول زمین پر اللہ کی حجت ہوتا ہے۔ اس کی مخالفت خدا کی مخالفت ہے۔ کوئی غیر نبی اور مصلح اس دعوے کے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہے نہ اسے حق و باطل کا پیمانہ مانا جا سکتا ہے۔
اوریا صاحب کی تحریروں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سیرت کو مغازی کی کسی کتاب سے پڑھا ہے۔ اس میں ان کا قصور بھی نہیں کہ ہمارے ہاں بالعموم سیرت کو اسی طرح بیان کیا گیا ہے۔ سیرت کی کوئی کتاب اٹھائیے، ایسا معلوم ہوتاہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ایک دن اچانک ہجرت فرمائی اور مدینہ پہنچ کر حکومت قائم کردی۔ میں پچھلے کالم میں بتا چکا کہ مدینہ آپ کی تشریف آوری سے پہلے ایک مسلم اکثریتی سماج بن چکا تھا، جو آپ کی کم ازکم تین سالہ بطور داعی، محنت کا نتیجہ تھا۔ کچھ یہی معاملہ مکی دور کا بھی ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ مکہ میں کوئی طاغوت بیٹھا ہوا تھا، آپ ﷺ نے جس کے خلاف اعلانِ جہاد فرمایا اور پھر وہ اپنے لائو لشکر کے ساتھ اسلامی جماعت پر چڑھ دوڑا۔ یہ بھی سیرت کی انتہائی ناقص تفہیم ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ نبی ﷺ کو اللہ نے نذیر اور بشیر بنا کر بھیجا۔ آپ نے مکہ میں صرف اور صرف انذار کیا۔ توحیدکی بات کی، اپنی رسالت پر ایمان کی دعوت دی اور آخرت کی منادی کی۔ اس دوران میں اہلِ مکہ سے آپ کے اور دوسرے مسلمانوں کے سماجی تعلقات قائم رہے۔ آپ ان کو دعوت دیتے اور خود ان کی دعوتوں میں جاتے۔ تجارت سمیت دوسرے اقتصادی و معاشی معاملات میں بھی تعاون جاری رہا۔ سیدنا ابو بکرؓ صدیق اور سیدنا عمر فاروق ؓ جیسی شخصیات، جو دورِ جاہلیت میں مختلف مناصب پر فائز تھیں، اسلام قبول کرنے کے بعد بھی ان کے یہ مناصب بر قرار رہے۔ ممتاز محقق ڈاکٹر محمد یٰسین مظہرصدیقی کے مطابق ''ایسی کوئی روایت ابھی تک نہیں مل سکی جس سے یہ معلوم ہو کہ مسلم منصب داروں سے ان کے مناصب محض اسلام لانے کے سبب قریشی انتظامیہ نے چھین لیے ہوں‘‘۔(مکی اسوہ نبوی،صفحہ 165)
یہی نہیں، قبائلی روایات کے تحت مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین باہمی مفادات کے معاہدے بھی ہوئے۔ بخاری کی ایک روایت کے مطابق حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے مکہ مکرمہ کے ایک سردار امیہ بن خلف کے ساتھ یہ تحریری معاہدہ کیا کہ وہ مکہ میں ان کے اہل و عیال اور مال کی حفاظت کرے گا اور وہ مدینہ میں اس کے مال، اہل اور جان کا تحفظ کریںگے۔(کتاب ا لوکالہ) پھر یہ بات تو ہم سب کو معلوم ہے کہ کیسے ہجرت کی رات تک، اہلِ مکہ کی امانتیں آپ کے پاس تھیں۔ اس تفصیل سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اوریا صاحب نے مکہ کی جو تصویر کشی کی، وہ حقیقت سے کتنی قریب تر ہے؟
اس کا یہ مطلب نہیں کہ مکہ میں مسلمانوں پر مظالم نہیں ہوئے۔ آلِ یاسر اور سیدنا بلال ؓ کو کون بھول سکتا ہے۔ خود رسالت مآب ﷺ نے جو مصائب اٹھائے، یہ ایک پیغمبر ہی کا صبر تھا جو برداشت کر گیا۔ قرآن مجید نے مگر یہ بتایا کہ ان تمام مظالم کے جواب میں آپ نے صرف اور صرف صبر کیا۔ ورنہ آپ چاہتے تو ایک جتھا بناکر 'طاغوت‘ کو للکارتے اورپھرکون جرأت کرتا کہ آپ کے مقابلے میں کھڑا ہوتا۔ مکہ میں آپ نے انذار کی ذمہ داری جس شان، وقار، شائستگی ، استقامت اور صبر کے ساتھ ادا کی، سچ یہ ہے کہ انسانی تاریخ اس کی مثال پیش نہیں کر سکی۔ قرآن نے بتایا ہے کہ اس میں کسی انقلابی کی للکار نہیں، ایک داعی کا سوزتھا۔ وہ سوز جو اللہ کے پیغمبر کو بے قرار رکھتا کہ آدم کی اولاد کہیں جہنم کا ایندھن نہ بنے۔
کالم تما م ہوا لیکن غلطی ہائے مضامین کا سلسلہ دراز ہو رہا ہے۔ میں اس میں خیر دیکھ رہا ہوں۔ پڑھنے والوں کی دلچسپی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مکالمہ افادیت سے خالی نہیں۔ میں انشا اللہ اگلے کالم میں بتاؤں گا کہ مکی اسوہ کیا ہے، مسلمان حکمرانوں کے بارے میں اللہ اور رسول کے احکام کیا ہیں اورہمارے آئمہ اربعہ انقلابی لیڈر نہیں، داعی تھے جو سماجی تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں۔