بحث اورمکالمے کا ایک ضمنی فائدہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی قوتِ برداشت کا اندازہ ہو جا تا ہے۔ہم جو دوسروں کو تحمل اور مکالمے کی دعوت دیتے ہیں،خود کتنے پانی میں ہوتے ہیں ،جب ہمیں کسی اختلاف کاسامنا ہو تا ہے؟اس سوال کا جواب اُسی وقت مل سکتا ہے جب کوئی ہمارے تصورِ حیات (worldview)یا کسی رائے سے اختلاف کرتا ہے۔
محترم اوریا مقبول جان نے بحث اٹھائی ہے کہ اسلامی تہذیب جس نظام ِ اقدار پر کھڑی ہے، اس میں حیاایک بنیادی قدر کے طور پر شامل ہے۔وہ اس کے حق میں انسانی فطرت سے بھی گواہی لائے ہیں۔اس کی شرح و وضاحت میں انہوں نے بتایا ہے کہ کس طرح کاروباری ذہنیت نے حیا کی اس قدر کو پامال کیااور اس کے لیے عورت کے وجود کو تختہ مشق بنایا۔کاروباری ذہن نے عورت کو جنسِ بازار بنایا اوراس کے جسم کو لباس سے محروم کردیا۔یہ ایک سنجیدہ مقدمہ ہے اور لازم تھا کہ بحث و مکالمے میں اس کی سنجیدگی کو محسوس کیا جاتا۔افسوس کہ مکالمے کے علم برداروں نے اصل موضوع کو نظر انداز کرتے ہوئے،اوریا صاحب کو ہدف بنالیا اور اس میں بھی جو کچھ کہا گیا، وہ کسی خوش ذوقی کا مظہر نہیں ہے۔اس سے ضمناً یہ واضح ہو گیا کہ مکالمے کے لیے صرف اس کا عَلم اٹھانا کافی نہیں،اس کے آداب سے واقفیت بھی لازم ہے۔
کم علمی یا جوشِ خود نمائی میں دوباتیں نظر اندازہوئیں۔ایک یہ کہ لبرل تہذیب کی طرح دنیا میں ایک الہامی تہذیب بھی پائی جاتی ہے۔دوسری یہ کہ اگر لبرل تہذیب کے حاملین یہ حق رکھتے ہیں کہ وہ اپنی تہذیبی اقدار کو فروغ دیں تو یہ حق ان کے لیے بھی ثابت ہے جو الہامی تہذیب کو ماننے والے ہیں۔دونوں اپنی تہذیب کو زبان حال سے یا زبانِ قال سے لوگوں کے سامنے رکھیں گے اور یہ حق لوگوں کا ہے کہ وہ جس کو چاہیں اختیار کریں۔اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ حیا کو تہذیبی قدر نہیں بنایا جا سکتا تواس کے دلائل بیان کردے۔اس کا یہ حق تو بہر حال نہیں ہے کہ وہ ان کو استہزا کا ہدف بنائے جوحیا کو قدر مانتے ہیں۔
حیا ایسی قدر نہیں ہے جو اسلام نے دنیا کے سامنے پہلی بار پیش کی۔یہ الہامی روایت کا مشترکہ اثاثہ ہے۔مذہب کا مقدمہ تو یہ ہے کہ اس کا شعور انسان کی فطرت میں رکھ دیا گیا ۔یوں حیا ایک فطری مطالبہ بھی ہے۔مذہب اور اس میں اسلام بھی شامل ہے، جس تہذیب کو جنم دیتا ہے ،اس میں حفظِ فروج کو ایک قدر کی حیثیت حاصل ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جنسی تعلقات کی تہذیب کرتا ہے۔وہ مردو زن کے لیے چند حدود کا تعین کرتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب کے نزدیک معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان ہے۔جنسی تعلقات کی تہذیب کے بغیر خاندان وجود میں نہیں آ سکتا۔مرد وزن کے آزادانہ اور بے مہار اختلاط سے یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ جنسی تعلقات اس دائرے تک محدود نہ رہیں جنہیں اسلام نے نکاح کے ادارے سے متعین کر دیا ہے۔
اسلام نے مرد وزن کو اختلاط سے منع نہیں کیا لیکن اس کے لیے کچھ آداب مقرر کر دیے ہیں۔یہ آداب صرف خواتین کے لیے نہیں، دونوں اصناف کے لیے ہیں۔قرآن مجید نے سورہ نور(آیات27 تا31) میں یہ آداب بیان کیے ہیں۔ان آیات میں گھروں اور پبلک مقامات(بیوتاً غیر مسکونہ) دونوں کے آداب بتائے گئے ہیں۔پبلک مقامات پر اختلاط کے وقت مردوں کو دو اور خواتین کو تین ہدایات دی گئی ہیں۔مردوں سے کہا گیا کہ وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔خواتین کو ان دو ہدایات کے ساتھ تیسری ہداہت یہ دی گئی ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اپنی زینت کی چیزیں نہ کھولیں،سوائے ان کے جو عادتاً کھلی رہتی ہیں، جیسے چہرہ، ہاتھ، پاؤں۔مزید یہ کہ اپنی اوڑھنیاں اپنے سینے پر لیے رکھیں۔سورہ نور سورہ احزاب کے بعد نازل ہوئی۔سورہ احزاب میں مدینہ کے خاص حالات کے پیش نظر،جب منافقین کی شرارتوں اوردست درازیوں سے رسالت مآب ﷺکے اہلِ بیت اور مسلما ن خواتین بھی محفوظ نہ رہے تو چند خصوصی ہدایات دی گئیں۔پبلک مقامات کے بارے میںعمومی حکم وہی ہے جو سورہ نور میں بیان ہو گیا۔
قرآن مجید سے یہ بھی واضح ہے کہ حیا کا تعلق صرف خواتین سے نہیں، دونوں اصناف سے ہے۔خواتین کو صرف ایک اضافی حکم دیا گیا اور اس کی حکمت ہر اُس آدمی پر واضح ہے جو شعور رکھتا ہے۔عریانی اورحیا کو خواتین کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی دلیل
نہیں۔ہماری تہذیبی روایت میں مرد اور خاتون دونوں کے لیے لازم تھا کہ وہ شائستہ لباس پہنیں۔گھٹنے ننگے رکھنا شریف مردوں کا شیوہ نہیں تھا۔میرے والد کبڈی کے کھلاڑی تھے۔ایک مقابلے میں انہوں نے ایک ہندو حریف کو پچھاڑ دیا۔حسبِ روایت وہ میدان میں فاتحانہ لڈی ڈال رہے تھے تو گاؤں کے ایک معزز آ دمی نے ان سے کہا:تمہارا تعلق جس خاندان سے ہے،اس کے جوانوں کو یہ زیبا نہیں کہ یوں گھٹنے ننگے کیے ناچتے پھریں۔اس واقعہ نے ان کی زندگی کا رخ ہی بدل ڈالا۔پھر دین کا علم ان کا اوڑھنا بچھونا تھا،لیکن یہ الگ کہانی ہے۔ کہنا یہ ہے کہ شائستہ لباس ہماری روایت میں محض خواتین کے لیے لازم نہیں تھا،مرد وں کے لیے بھی اس کاا ہتما م ضروری تھا۔تاہم مردو زن کی جسمانی ساخت میں جوخلقی فرق ہے، وہ دونوں کے لیے شائستگی کے الگ الگ معیارات مقرر کرتا ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ بات بھی کسی دلیل کی محتاج نہیں ہے۔
مجھے اس سے پورا اتفاق ہے کہ ہم حیا اور شائستگی کو خواتین تک محدود کر دیتے ہیں۔یہاں عزت صرف عورت کی پامال ہوتی ہے، مرد کی نہیں۔مرد جو کچھ کرتا رہے،اس کی 'عزت‘ پر کوئی حرف نہیں آتا۔ خاتون کسی سے مسکرا کر بات بھی کرلے توہم اسے فاحشہ سے کم نہیں سمجھتے۔مرد کے لیے سب راستے کھلے ہیں۔مردو زن میں یہ تفاوت قرآن مجید کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔قرآن مرد اور عورت کے لیے ،اخلاقی جرائم کی ایک جیسی سزا تجویز کر تا ہے۔اسی طرح نیکیوں کا بھی ایک جیسا اجر بیان کرتا ہے۔
عریانیت، مرد کی ہو یا عورت کی، حیا کی قدر کے لیے نقصان دہ ہے۔یہی سبب ہے کہ ایک شائستہ فرد، مرد ہو یا عورت، غریب ہو یا امیر،شہری ہو یا دیہاتی،مسلم ہو یا غیر مسلم،اس سے گریزکرتا ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ پاکستان میں پچانوے فی صد مردو زن شائستہ لباس پہنتے ہیں۔پانچ فی صد میں سے ایک دو فی صد وہ ہیں جن کا تعلق شو بز سے ہے۔باقی نقال ہیں،کوے جو مغرب کو ہنس سمجھتے ہیں۔چونکہ اس وقت ساری دنیا میں مرد کا غلبہ ہے،اس لیے اس نے اپنے بے مہارجذبات کی تسکین کے لیے عورت کو بطورِخاص عریاں کیا اور اسے آرٹ اور کلچر کا نام دیا۔لبرل ازم نے اُس کے ہاتھ میں 'انسانی آزادی‘کی قدر کو بطور دلیل تھما دیا۔عورتوں کے ایک گروہ نے بھی اس کا خیرمقدم کیا، یہ جانے بغیر کہ آزادی کی نیلم پری،ان کی سادگی کا استحصال ہے۔اوریا صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے اس جانب ہماری توجہ دلائی۔اس سے پہلے انہوں نے اسلامی تہذیب کی ایک دوسری قدر حفظِ مراتب پر بھی لکھا ۔یہ قدر بھی ایسی ہے جس کے بغیر ہمارا تہذیبی وجود باقی نہیں رہ سکتا۔
لوگ اس رائے سے اختلاف کر سکتے ہیں۔انہیں حق ہے کہ وہ اپنا مقدمہ دلائل کے ساتھ پیش کریں۔تہذیب کے مسئلے پر صحت مندمکالمہ ہماری ضرورت ہے۔سوال لیکن یہ ہے کہ کیا ہم مکالمے کے آداب سے واقف ہیں؟کیا ہم مناظرے اور مکالمے کا فرق جانتے ہیں۔یہ واضح رہے کہ مناظرہ باز کے لیے مذہبی ہونا لازم نہیں ہے۔