کیسی عید جب مدینہ النبی ﷺ کا امن پامال ہوجائے؟کیا اس کے بعد بھی کسی دلیل کی ضرورت ہے کہ آج مسلمان ایک فتنے سے دوچار ہیں ،جس کا استیصال اس امت کی پہلی ضروت ہے۔
اس شہر کو اللہ کے آ خری رسولﷺ سے نسبت ہے۔یہ نسبت ہی طے کر دیتی ہے کہ یہاں صرف رحمت کا گزر ہوتا ہے۔جس شہر میںرحمۃللعالمین نے قیام فرمایاہواورجسے تا حشر آپ کی آخری آرام گاہ ہو نے کا شرف بخشا گیا ہو،وہاں وحشت کے لیے جگہ کہاں ہو سکتی ہے۔یہ و ہ شہر ہے جس کا قدیم آسمانی صحائف میں ذکر ہوا ۔یوحنا عارف کے مکاشفے میں اسے'مقدسوںکی لشکر گاہ‘کہا گیا ۔یہ مقدس وہی تھے جنہوں نے رسالت مآب ﷺکی رفاقت کاانتخاب کیا اور اللہ کی رضا کے مستحق ٹھہرے۔یہ ابوبکرؓ و عمرؓ کا شہر ہے۔صحابہؓ کا شہر۔اسے امام مالکؒ جیسے جلیل القدرفقیہ سے بھی نسبت ہے جنہیں امام دارالہجرت کہا گیا۔وہ امام جواس شہرِمیں برہنہ پا چلا کرتے کہ اس خاک نے کبھی رسول اللہ کے قدموں کو چھواتھا۔
ایسا عظیم الشان شہر ،لیکن یہ انسان کتنا شقی القب ہے کہ اس نے اس کی حرمت کا بھی لحاظ نہیں رکھا۔ستم در ستم یہ ہے کہ ایسا انسان ایمان کا دعویٰ بھی رکھتا ہے۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔یہی وہ شہر ہے جہاں خلیفہ راشد،ذوالنورین سیدنا عثمانؓ کا لہوقرآن مجید کے صفحات پر بہا یا گیا۔اسی شہر میں آپ پر اکیس دن پانی بند رکھا گیا۔اُسی عثمانؓ پر،جس نے اس شہر کو اس وقت پانی پلایا جب اس کے مکینوں کے ہونٹ شدتِ پیاس سے سوکھ رہے تھے اور پانی کی ایک بوند میسر نہیں تھی۔آج ایک بار پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔یہاں پھر بے گناہوں کا خون بہایا گیا ہے۔امکان ِ غالب یہی ہے کہ یہ ''غلبۂ اسلام‘‘ کے علم برداروں کا کام ہے۔ دور ِ حاضرمیںخود کش حملوں کے جملہ حقوق ان ہی کے نام محفوظ ہیں۔
اسی رمضان میں چند دن پہلے، استنبول، ڈھاکہ اور بغداد میں کیا ہوا؟بغداد میں 2003ء کے بعد یہ دہشت گردی کا سب سے بڑ اواقعہ ہے۔تادمِ تحریر165اموات کی تصدیق ہو چکی۔ یہ کس کے شہر ہیں؟یہ بلادِ اسلامیہ ہیں۔ساری دنیا انہیں مسلمانوں کے شہر کہتی ہے۔آج سے نہیں، یہ صدیوں سے اسلام کے مراکزہیں۔آج کے جدیدشہر مگر اہلِ اسلام کی عظمت ِ رفتہ کی یادگار۔یہ یاد گاریں کون مٹا نا چاہتا ہے؟اہلِ اسلام کا کوئی گروہ؟یہ کیسا جہاد ہے جس میں قاتل اور مقتول دونوں مسلمان ہیں اور جس میں میدان ِجنگ مسلمانوں کے اپنے شہر ہیں؟
کوئی ابہام باقی ہے نہ جواز۔اِس وقت اسلام اور اہلِ اسلام کو اگر سب سے بڑا خطرہ ہے تو یہ وہ سوچ ہے جو القاعدہ یا داعش کی صورت میں عالمی سطح پر اور دیگر ناموں سے مقامی سطح پر منظم ہے۔اس سوچ نے مسلمانوں کو جس بربادی سے دوچار کیا،امریکہ اور سوویت یونین جیسی قوتوں نے مل کر وہ بربادی نہیں پھیلائی۔ اب اگر مدینہ بھی ان کی زد میں آ چکا تو اس کے بعد ان کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والا سوچ لے کہ ایسے لوگوں کی محبت اورایمان، کیا بیک وقت ایک دل میںبسیرا کر سکتے ہیں؟بہت سے شہروں سے ہمیں لگاؤ ہوسکتا ہے۔ہمارے جذبات وابستہ ہو سکتے ہیں لیکن دین کی نظر میں اس زمین پر صرف تین مقامات تقدس رکھتے ہیں۔بیت اللہ، مسجدِ نبوی اور بیت المقدس۔یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی ایمان رکھتے ہوئے،ان مقامات کی طرف نظرِ بد اٹھائے؟
بات جب یہاں تک آ پہنچی تو اہلِ اسلام پر لازم ہوگیا ہے کہ وہ اس فتنے کے خلاف یک سو ہو جائیں۔اہلِ عرب سے درخواست ہے کہ وہ ان مقدس مقامات کو اپنے اقتدار کی ڈھال نہ سمجھیں۔ اہلِ عجم سے گزارش ہے کہ وہ مکہ اور مدینہ کو بلادِ عرب نہیں، بلادِ اسلام جانیں۔کوئی سیاسی مفاد،کوئی مسلکی تعصب اور کوئی دنیاوی مقصد اب ا یسے مقامات کی حفاظت میں حائل نہیں ہو نا چاہیے۔مدینہ کے دروازے پر دہشت گردی کی دستک کے بعد بھی،اگر مسلمان بیدار نہیں ہوتے تو پھر انہیں اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا انتظار کر نا چاہیے۔
جو اس موقع پر مسلمانوں کو الجھائے گا، انہیں اگر مگر کے گھن چکر میں ڈالے گا، امریکہ اور اسرائیل کے کردار کو اس سوچ کے لیے جواز بنائے گا،معاملے کا رخ استعماری قوتوں کی طرف پھیرنے کی کوشش کرے گا،وہ مسلمانوں کا ہمدرد نہیں ہو سکتا۔اگر
کوئی اپنی جہالت کی بنا پر ایسا کرے گا تو اُس کی جہالت کو بے نقاب کر نا اُن پر لازم ہو گا جنہیں اس فتنے کا ادراک ہے۔امریکہ کے استعماری عزائم کوئی واہمہ نہیں لیکن وہ ایک الگ موضوع ہے۔مذہب کے نام پر دہشت گردی کے لیے وہ کسی صورت جواز نہیں بن سکتا۔سادہ سا سوال ہے کہ بغداد، استنبول ، ڈھاکہ اور اب مدینہ کو ہدف بنانا اسلام اور مسلمانوں کی مددکرناہے یا انہیں کمزور بنانا۔تاریخ کی ناقابلِ تردید شہادت یہ ہے کہ القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں نے مسلمانوں کو بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ان کا ہدف مسلمانوں کا حکمران طبقہ نہیں، عامتہ الناس ہیں۔اسلام تویہ کہتا ہے کہ عین حالتِ جنگ میںبھی،دشمن کے غیر محارب عوام کا قتل جائز نہیں،کجا یہ کہ غیر محارب اور پرامن مسلمانوں کو قتل کیا جائے۔اس اندازِ نظر کو جہاد کہنا یا اسلام سے منسوب کرنا ظلم اور اللہ کے دین کی توہین ہے۔
ہمارے لیے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ جدہ میں دھماکہ کرنے والا پاکستانی تھا۔پاکستان میں نہ صرف اس سوچ کے اعلانیہ مبلغ پائے جاتے ہیں بلکہ رضا کار بھی بآسانی دستیاب ہیں۔غالباً یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاںخود کش حملہ آور اور گا ڑیاں تجارتی بنیادوں پر تیار کیے جاتے ہیں۔کہتے ہیں اب یہ مراکز بند ہوگئے۔اللہ کرے یہ سچ ہو۔تاہم یہ ہمیں معلوم ہے کہ سوچ کے مراکز ابھی تک کھلے ہیں۔اس سوچ کے مبلغین کوٹی وی سکرین سے لے کر مسجد کے منبرتک، ابلاغ کے تمام ذرائع میسر ہیں۔یہی نہیں، انہیں یہ سوچ پھیلانے کے صلے میں ذرائع ابلاغ سے معاوضہ بھی ملتا ہے۔ان کے چاہنے والے بھی بہت ہیں، سب سے زیادہ جدید تعلیم کے اداروں میں۔یوں پاکستان کی ذمہ داری اب کہیں زیادہ ہوگئی ہے۔پہلے امریکہ اور یورپ کو شکایت تھی۔اب مسلمان دوستوں کو بھی ہوگی۔ترقی یافتہ دنیا، ہمسایہ ممالک اور اب سعودی عرب جیسا دوست۔۔۔اس سوچ نے ہمیں کس کس سے دور کیا؟
پاکستان کو امن کا مرکز بنائے بغیر بقاکاکوئی راستہ باقی نہیں ہے۔یہ امن ہماری داخلی ضرورت ہے اور خارجہ دنیا کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے بھی۔پوری امتِ مسلمہ کو بھی اسی امن کی ضرورت ہے۔یہ کام فکری یک سوئی کے بغیر نہیں ہو گا۔اس فکری یک سوئی سے مراد دین کی ہر ایسی تعبیر سے اعلانِ برات ہے جو نفرت سکھاتی اور تشدد پر ابھارتی ہے۔جو اس مقصد کے لیے جہاد جیسی دینی اصطلاحیں استعمال کر تی ہے۔جو پُرتشدد گروہوں کو جنم دیتی ہے۔جو قتل جیسے جرم کو کارِ ثواب بنا کر پیش کرتی ہے،جس کے مرتکب کو قرآن مجید دائمی جہنم کا مستحق ٹھہرا تا ہے۔قرآن مجید اوررسالت مآب ﷺ کی سنت سے اس صریح انحراف کے خلاف فکری یک سوئی ناگزیر اوربقاکاواحد راستہ ہے۔
دل نے تو یہ چاہا تھا کہ آپ کو عید مبارک کہوں گا۔اُس کلچر کو یاد کروں گا جس میں عید، ملن کا استعارہ اور محبت کا مظہر ہے۔ان ماؤں کا ذکر کروں گا جن کی نظریں بیٹوں کے انتظار میں دروازے پر جمی رہتی ہیں۔ان سہاگنوں کی بات کروں گاجن کے من میں پردیسیوں سے ملاقات کی ناآسودہ خواہش ،عید کے دن چہرے کی سرخی میں ڈھل جاتی ہے۔مگر...'یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا کہ یوں ہو جائے‘۔جب مدینہ النبیؐ کا امن بھی پامال ہو جائے تو پھر کیسی عید!