کالم کا آغاز کیا اورساتھ ہی نظر ٹی وی سکرین کی طرف اٹھ گئی۔عمران خان کا خطاب جاری ہے کہ حکمران سرکاری وسائل کو اپنے لیے خرچ کرتے ہیں۔ان کا احتساب ہو نا چاہیے۔چند منٹ پہلے‘ایک چینل دکھا رہا تھا کہ کے پی حکومت کی گاڑیوں میں تحریک انصاف کے کارکن وکٹری کا نشان بناتے حکمرانوں کے احتساب کے لیے ریلی میں شریک ہیں۔ سرکاری نمبر پلیٹ کی گاڑیوں میںسوارنوجوان نعرے لگا رہے ہیں۔ساتھ عمران خان کی آواز گونج رہی ہے ''یہی جنون نیا پاکستان بنائے گا۔‘‘
سیاست اِسی طرح تضادات سے بھرپور ہو تی ہے۔پنجاب میں ن لیگ کی ریلی ہویا سندھ میں پیپلزپارٹی کی،عوام ایک ہی منظر دیکھتے ہیں۔ سرکاری گاڑیاں اور حکمران جماعت کے کارکن۔یہی حقیقت ہے باقی سب افسانے۔سیاست اور اخلاقیات کا اجتماع دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔تاریخ میں شاید ہی یہ ملن ہوا ہو۔اُن پیغمبروں کادورمستثنیٰ ہے جن کاحکم ہوائیں بھی مانتی تھیں یا پھروہ چند سال ،جب اللہ کے آخری رسولﷺ کے تربیت یافتہ لوگ حکمران ہوئے۔یہ دراصل پیغمبرانہ مشن ہی کی تکمیل تھی کہ اللہ نے اس کا وعدہ کر رکھا تھا(سورہ نور24:55)۔اس کے علاوہ اقتدار اور اخلاق کے درمیان تصادم ہی برپا رہا۔کبھی اخلاق غالب اور کبھی اقتدار۔اخلاق غالب ہوا تو چند واقعات کا ظہور ہوا۔اقتدار کے مطالبات نے سر اٹھایا تو کچھ اور طرح کی داستانیں وجود میں آئیں۔تاریخ جب معروضی مطالعہ کے بجائے ،پروپیگنڈے کا ذریعہ بنی تو کسی نے اخلاق کے واقعات جمع کر دیے اور کسی نے ظلم کے۔ان کی بنیاد پرایک گروہ نے ایک فرد کو دیوتا بنا دیا اور دوسرے نے شیطان۔معلوم یہ ہوتا ہے کہ ہم سے پہلے زمین پر کبھی کوئی انسان حکمران نہیں رہے۔
تاریخ پر کیا موقوف کہ لمحہ مو جودمیں بھی یہی ہوتا ہے۔لوگ یہ مان کر نہیں دیتے کہ ایک معاشرے میں جزیرے نہیں بنتے۔یہ کم ہوتاہے کہ سیاست دان جھوٹ بو لتے ہوں اور صحافی حق گوئی کا پرچم تھامے ہوں یا عالم تقویٰ کا پیکر ہو اور استاد بد دیانت۔جب ایسا نہیں ہو تا تو یہ کیسے ممکن ہیں کہ سیاست دانوں میں سے ایک دیوتاہو اور دوسرا شیطان۔سب حسنِ ظن اور سوئے ظن کے کمالات ہیں۔احباب توقعات کے ٹوٹے پیمانوں کا نوحہ لکھتے ہیں تو مجھے ان کی سادگی پر ترس آتا ہے۔یہ دنیا ازل سے ایسے ہی تھی۔الا یہ کہ اجتماعی شعور حقیقی تبدیلی کو جان لے اور اس کے لیے یک سو ہو جا ئے۔
سیاسی تبدیلی کا عمل سماجی تبدیلی کے بغیر آگے بڑھتا ہے تو صرف چہرے بدلتے ہیں۔ایک گروہ کو انتقام کی پیاس بجھانے کا موقع ملتا ہے۔اہلِ سیاست کے مفاد میں یہی ہوتا ہے کہ نفرت کو ہوا دیں۔ جنون پیدا کریں اورجنت کے خواب دکھائیں۔شہباز شریف جب چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی بات کرتے تھے یا چوروں کو سر ِ عام لٹکانے کا دعویٰ کرتے تھے تو کیاان جیسا جہاں دیدہ یہ نہیں جا نتا تھا کہ وہ سراب کو پانی بتا رہے ہیں؟ پرویز خٹک جیسا تجربہ کار سیاست دان کیا2013 ء میں وہ کچھ نہیں جانتا تھا جو انہوں نے 2016 ء میں جانا کہ عمران خان کے اہداف غیر حقیقی اورنوے دن میں حاصل ہونے والے نہیں؟ پیپلزپارٹی اور اے این پی کی حکومتوں کا حصہ رہنے والے ایک سیاست دان کی نظروں سے یقیناً اس وقت بھی اوجھل نہیں تھا کہ یہ خواب فروشی کا کاروبار ہے جو ایک نئے عنوان سے ہونے جارہا ہے۔پرانی شراب نئی پیکنگ میں۔
ایک پرانا واقعہ مجھے کبھی نہیں بھولتا۔غالباًیہ1993-94ء کی بات ہے۔'پاسبان‘ کے راستے جماعت اسلامی سے جدا ہوئے تویہ لوگ جمع ہوئے کہ انہیں اب کیا کر نا ہے۔ایک رائے یہ سامنے آئی کہ اسے ایک نئی سیاسی جماعت بنانی چاہیے۔محمد علی درانی صاحب کی فکری باگ اس وقت ایک نامور قلم کار کے ہاتھ میں تھی۔وہ ایک مشاورتی مجلس میں تشریف لائے،جس میں ،میں بھی سیاسی حرکیات کے ایک طالب علم کے طورپرشریک تھا۔انہوں نے نئی سیاسی جماعت کے حق میں دلائل دیے اورپھر مخاطبین سے کہا کہ تم پر واضح ہونا چاہیے کہ تم کیا کرنے جار ہے ہو۔تمہیںخود پر مصلح ہونے کاخبط سوار نہیں کرنا۔نئی سیاسی جماعت بنانے کا مطلب نئے ظالم پیدا کرنا ہے۔مجھے ان کی بات نے بہت حیران کیا۔آج میں ان کی دیانت کی داد دیتا ہوں۔جب تک کوئی سماجی تبدیلی نہیں آتی،نئی سیاسی جماعت بنانے کایہی مطلب ہے۔بصورتِ دیگر لوگ تاریخ کا رزق بن جا تے ہیں۔
سماجی تبدیلی کے بنیادی لوازمات میں سے ایک جمہوری عمل کا تسلسل ہے۔اسی سے یہ ممکن ہو تا ہے کہ عوام کی شعوری تربیت ہو۔انہیں یہ معلوم ہو کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا؟وہ پورے شعور کے ساتھ کوئی فیصلہ کریں۔کوئی ان کا جذباتی استحصال نہ کرسکے۔اس ملک میں ہم جانتے ہیں کہ اسلام، اشتراکیت،مساوات، بہت سے عنوانات سے انسانوں کو جذباتی طور پر لُوٹا گیا۔یہ تمام عمل سیاست کے میدان میں ہوا۔وجہ یہی تھی کہ سماجی تبدیلی کے بغیر سیاسی تبدیلی سے امیدیں وابستہ کر لی گئیں۔اس سیاست کا انجام جس مایوسی کو جنم دیتا ہے وہ غیر سیاسی تبدیلیوں کا دروازہ کھولتا ہے۔پھر سیاسی عمل تعطل کا شکار ہوتا ہے اور وقت اپنی جگہ پہ تھم جا تا ہے۔
آج اگر شریف خاندان کا اقتدار بر قرار ہے اور اس کے اقتدار میں تسلسل ہے تو اس کی بنیادی وجہ 12 اگست 1999ء کا دن ہے۔پرویز مشرف کے اقدام سے وقت رک گیا۔ان کے آٹھ سالہ دور میںسیاسی عمل آگے نہیں بڑھ سکا۔وہ اقتدار سے الگ ہوئے توسیاسی عمل وہیں سے شروع ہوا جہاں مشرف صاحب نے روکا تھا۔اس سے پہلے جنرل ضیاالحق مرحوم نے یہی کام کیا۔وہ اقتدار میں آئے تو اس سے پہلے پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔وہ رخصت ہوئے تو اِس کے بعدبھی پیپلزپارٹی ہی کی حکومت بنی۔سیاسی عمل رکنے کا مطلب سماجی تبدیلی کوروکنا ہے۔
عمران خان اور طاہر القادری صاحب کو اس بات کا ادراک کر نا ہے۔وہ سماجی عمل کو روکنا چاہتے ہیںیااسے آگے بڑھانا چاہتے ہیں؟اگر اسے آگے بڑھانا ہے تولازم ہے کہ جمہوری عمل کا تسلسل رہے۔میرے نزدیک پچھلے تین سال میں سیاسی عمل جمود کا شکار رہا۔اس میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئی۔یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اکثر لوگوں کے خیال میں2018ء کے انتخابی نتائج 2013 ء سے مختلف نہیں ہو ں گے۔جیسے جیسے وقت گزرے گا، حکومتوں کی کارکردگی زیرِ بحث آئے گی۔سیاسی استحکام کی ضرورت کی بات ہو گی۔بحث جیسے ہی یہ رخ اختیار کرے گی،عمرِ رائگاں کا پچھتاوا شروع ہو جائے گا۔ سیاسی جماعتوں میں گروہ بنیں گے۔لوگ ایک دوسرے کو الزام دیں گے۔اس کا سب سے زیادہ نقصان تحریکِ انصاف کو ہوگا ۔یہ احساس لوگوں کو گھیر لے گا کہ کاش دھرنوں میں ضائع کیا گیا وقت کسی تعمیری سرگرمی میں صرف کیا جا تا۔لوگ سود وزیاں کا حساب کریں گے اور انسانی فطرت کے عین مطابق تاریخ اپنے آپ کو دھرائے گی۔
تحریکِ انصاف اس المیے سے اب بھی بچ سکتی ہے۔عمران خان کنٹینر سے اتریں اور اس سے زیادہ ضروری ہے کہ کے پی کی سرکاری گاڑیاں،ریلیوں کے لیے لوگ جمع کرنے کے بجائے، سڑکوں پر عوامی خدمت کے لیے دوڑتی نظر آئیں۔بصورت دیگرلوگ سوچیں گے کہ اگر پنجاب ،سندھ اور کے پی میں سرکاری گاڑیوں نے ایک ہی کام کر نا ہے تو شریف برادران کیا برے ہیں۔کم از کم موٹرویز اور میٹرو تو بنارہے ہیں۔
اس سے اہم تر سیاسی عمل کا جاری رہنا ہے۔عمران خان کو سمجھنا ہو گا کہ سماجی تبدیلی جمہوریت کے تسلسل اور سیاسی حکومتوں کی کارکردگی سے جڑی ہوئی ہے۔