سیاست اگر کسی نظامِ ِاخلاق کی پابند ہے تو اسے مذہب سے لاتعلق نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا میں انسانوں کی غیر معمولی اکثریت آج بھی مذہب ہی کو اخلاقیات کا ماخذ سمجھتی ہے۔ اخلاق کو مابعدالطبیعات کے بجائے طبیعات سے متعلق کرنے کی کوشش ایک جدید تجربہ ہے۔ ابھی ہمیں اس معاشرے کا انتظار ہے جو طبیعاتی نظامِ اخلاق (Humanism) کی بنیاد پر تشکیل پائے گا۔جدید مغربی معاشرہ اب بھی مسیحی اخلاقیات پر کھڑا ہے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ مذہب کو سیاست سے الگ کر دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ مذہب سیاست سے متعلق کیسے ہوگا؟ میں ان کالموں میں اس سوال کو زیر بحث لایا ہوں اور اس ضمن میں تیونس کے نئے تجربے میں بڑی روشنی دیکھتا ہوں۔ تیونس ہی نہیں، ملائشیا اور بالخصوص انڈونیشیا بھی، جہاں اس باب میں غورو فکر کی ایک توانا روایت قائم ہو چکی ہے۔
ریاست اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک جدید تصور ہے۔ اس لیے اسلامی ریاست کی بحث بھی ہماری روایت میں اجنبی ہے۔ دورِ حاضر کے بعض اہلِ علم بھی یہی بات کہہ رہے ہیں جو دین کی روایتی تفہیم پر یقین رکھتے ہیں اور فہمِ دین کے باب میں فقہا و محدثین ہی کے منہج کو درست سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلامی قانون اعتباری شخصیت کے تصور کو نہیں مانتا۔ اس لیے قانونی اور فقہی اعتبار سے ریاست اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہوتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نئے بیانئے کی بحث میں جب یہی با ت جاوید احمد غامدی صاحب نے کہی تو اسے سیکولرزم اور جدیدیت قرار دیا گیا اور ہمارے معروف روایتی علما ان کی رد میں متحرک ہوئے اور انہوں نے بتایا کہ ریاست اسلامی ہوتی ہے۔یہ اہلِ علم یہ بھی کہتے ہیں کہ جب ریاست جدید ادارہ ہے تو یہ مقدمہ بھی بے بنیاد ہے کہ جہاد کے لیے ریاست کا ہو نا ضروری ہے۔
یہ بحث، صواب اور نا صواب کے پہلو سے قطع نظر ،یہ بتا رہی ہے کہ مذہب اور سیاست کے باہمی تعلق کی صورت گری، بایں معنی ایک اجتہادی امر ہے کہ اس کا تعین ایک عہد کے معروف سیاسی حقائق سے ہے۔ مثال کے طورپر ریاست موجودہ شکل میں پہلے موجود نہیں تھی، اس لیے ایک رائے یہ ہے کہ اسلامی ریاست کا تصور دراصل تصورِ خلافت کا متبادل ہے۔ روزن تھال سے لے کرحمید عنایت تک ، بہت سے اہلِ علم یہی کہتے ہیں۔ مولانا مودودی کے علمی کام میں جس طرح حکومتِ الہیہ یا اسلامی ریاست کے تصور کو ماضی سے متعلق کیا گیا ہے تو اس میں خلافت ہی کے نظام سے نظائر تلاش کیے گئے ہیں۔ اس باب میں ایک رائے وہ بھی ہے اس کا اظہار ان کالموں میں کیا جاتا رہا ہے۔
میرا کہنا یہ ہے کہ سماج ایک فطری ادارہ ہے جو اصلاً ہماری توجہ کا مستحق ہے۔ یہ ریاست کی طرح جدید نہیں ہے ۔ خاندان کا ادارہ فطری ہے۔ خاندان ہی سماج کی اکائی ہے۔ خاندان کے ادارے پر معاشرتی ارتقا اثر انداز ہوا ہے لیکن اس کا جوہر ہر دور میں باقی رہا ہے۔ یہ بات کہ خاندان ایک مردوزن کے باہمی تعلق سے وجود میں آتا ہے جسے معاشرتی سطح پر قبولیت حاصل ہو، یہ ایک ایسا خیال ہے، جس پر علم البشریات کے محققین کی اکثریت یقین رکھتی ہے۔ صنعتی انقلاب سے پہلے مشترکہ خاندانی نظام تھا، جو آج کے زرعی معاشروں میں بھی موجود ہے۔ صنعتی انقلاب نے نیوکلر فیملی کے تصور کو فروغ دیا۔ یوں معاشرتی ارتقا سماج کی ہیئت پر اثر انداز ضرور ہوا ہے لیکن اس کا جوہری پہلو باقی رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سماج ہمیشہ موجود رہا ہے اور اسے انسانی اجتماعیت کی فطری صورت قرار دینا چاہیے۔
اگر ہم اجتماعی زندگی کو اسلام کی ہدایت کی روشنی میں مرتب کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے جدوجہد کا فطری میدان ریاست نہیں، سماج ہے۔ سماج اقدار سے قائم ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں ان اقدارپر اصرار کرنا چاہیے جو اسلام دیتا ہے۔ دنیا میں دو طرح کے نظام ہائے اقدارہیں۔ایک وہ جو الہامی ہیں اور ایک غیر الہامی۔اسلام الہامی روایت کا آخری ایڈیشن ہے۔ایک اجتماعیت جس نظامِ اخلاق کو اختیار کر ے گی وہ اس کے سیاسی ، معاشی اور دوسرے اداروں کی تشکیل پر اثر انداز ہو گا۔ہم اگر یہ چاہتے ہیں کہ ہماری سیاست الہامی روایت کے مطابق تشکیل پائے تو اس کے لیے سماجی سطح پر اپنے نظامِ اقدار کو پختہ کرنا ہوگا۔اس نظام ِاخلاق کے تربیت یافتہ ،جب سیاست میں آئیں گے تو ان کے کردار کا عکس سیاست پر پڑے گا۔
سیاست کے مسائل جوہری طور پر مذہبی نہیں ہوتے۔گڈ گورننس جیسے کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے۔سیاست سے کرپشن کے خاتمے کے لیے کسی مذہبی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ جب یہ کہا جا تا ہے کہ سیاست کا مذہب سے تعلق نہیں ہو نا چاہیے تو اس کا یہی مطلب ہو تا ہے۔مذہب ایک اخلاقی قوت اور مابعد الطبیعیاتی امر ہے۔اجتماعیت کے باب میں دین نے اگر کوئی واضح ہدایت دی ہے تواسے قبول کیا جا ئے گا۔جیسے قرآن مجید میں بعض سزاؤں کا ذکر ہے۔جزاو سزا کا تعلق نظم ِاجتماعی سے ہے۔اس کی تفہیم اور تعبیر میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اصولی طور پر اس ہدایت کو قبول کیا جا ئے گا۔ان احکام کا مخاطب بھی ریاست نہیں،اہلِ اقتدار ہیں۔یہ ان کی ذمہ داریوں کا حصہ ہے کہ وہ انہیں نافذ کریں۔اس نفاذ کی نوعیت کیا ہوگی،اس کا تعین انہیں کرنا ہے۔مسلمانوں کی تاریخ میں اس معاملے میں بہت تنوع ہے۔
تعبیر ایک فطری امر ہے جو ہر متن سے وابستہ ہے۔پاکستان ایک آئین کی بنیاد پر قائم ہے۔اس آئین کی تعبیر میں اختلاف ہوتاہے۔عدالت کے سامنے جب ایک مقدمہ پیش ہوتا ہے تو دونوں فریق اس آئین یا قانون کو مان کر عدالت سے رجوع کرتے ہیں۔ان میں اختلاف کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔جیسے متعلقہ ملزم پر قانون کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں،یا قانون کا جو مفہوم ایک فریق بتا رہا ہے، دوسرا فریق اس تعبیر کو قبول کرتاہے یا نہیں۔سیاست ایک عمل ہے اور ریاست دورِ حاضر میںایک وجود رکھتی ہے۔یہ ممکن ہے کہ سیاست ہو رہی ہو اور ریاست نہ ہو۔جو چیز ایک نظامِ اخلاق کے تابع ہو گی وہ سیاست ہے۔اگر یہ ریاست کی صورت میں ظہور کر تی ہے تواس کے اداروں پر اس کا اثر ہو گا۔
میرا کہنا یہ ہے کہ اسلام کو انسان کے نظامِ اخلاق سے متعلق کر نا چاہیے نہ کہ ریاست سے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سماج کی اسلامی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ افراد مسلمان ہوں۔جب ہم ریاست کو اسلامی بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو اداروں کو مخاطب بناتے ہیں کیونکہ ریاست کا وجود اداروں کی شکل میں ظہور کر تا ہے۔پھر ہم کہتے ہیں کہ آئین کو اسلامی بناؤ یاعدالتوں کو اسلامی بناؤ۔یوں آئین اسلامی بن جاتا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت بھی قائم ہو جا تی ہے مگراسلام پھر بھی دکھائی نہیں دیتا۔
اسلام جب سماج سے وابستہ ہوتا ہے توپھر افراد اور اقدارمخاطب بنتے ہیں۔اب معاشی اور سیاسی اداروں کی جو شکل بھی ہو،اسلام کی تعلیمات کے نتائج سامنے آتے ہیں۔میں جو عرض کرر ہاہوں، اس میں مذہب سماج سے وابستہ ہوتا ہے،کسی ادارے سے نہیں۔اس لیے میں ریاست کومخاطب بنانے کے حق میں نہیں۔اس پر اعتراض ہو سکتا ہے کہ سماج بھی تو ریاست کی طرح ایک ادارہ ہے۔میرا جواب ہوگا کہ سماج فطری ادارہ جب کہ ریاست تمدنی ارتقا کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے جسے کسی فطری ادارے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
میرا خیال ہے کہ اب سیکولرزم اور میری بات کے مابین مو جود جو ہری فرق کی کسی قدر وضاحت ہو گئی ہوگی۔تاہم اس پر مکالمہ جاری رہنا چاہیے کہ یہ اس باب میںکہی گئی آخری بات نہیں ہے۔