'ساری پارٹی ایک طرف...جہانگیرترین ایک طرف‘
عمران خان زبانِ حال سے بار ہا سمجھا چکے۔ معلوم ہوتاہے یوتھ ونگ کے نوجوانوں کی سمجھ میں ابھی تک یہ بات نہیں آئی۔عام آ دمی بھی سوچتا ہے یہ جہانگیر ترین کون ہیں؟پارٹی میں ان کی غیر معمولی اہمیت کیوں ہے؟
جہانگیر ترین کسی فرد کا نام نہیں۔یہ سرمایے کا استعارہ ہے۔سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت نے جس سیاسی بندوبست کو جنم دیا ،اس کا ایک مظہر سیاسی جماعتیںہیں۔یہ جماعتیں سرمائے کی اساس پر کھڑی ہیں۔سرمایہ ان جماعتوں کے لیے خون کی طرح ہے جوان کی رگوں میں بہتا رہے تو یہ قائم رہتی ہیں۔یہ سیاسی جماعتیں حکومت سازی کرتی اور پھر پالیسی بناتی ہیں۔سرمایہ دار یہ خواہش رکھتا ہے کہ ریاست ایسے قوانین بنائے جواس کے سرمایے اور کاروبار کی بڑھوتی میں مدد گار ہوں۔یوں وہ سیاسی جماعتوں پر سرمایہ خرچ کرتا ہے کہ کل وہ بر سرِ اقتدار آئیں تو اس کے حقوق کا دفاع کریں۔
سرمایہ داربعض اوقات کوئی نظریاتی یا سیاسی ایجنڈا بھی رکھتا ہے جیسے امریکہ کے یہودی۔ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ امریکہ میں جو جماعت برسرِ اقتدار آئے،اسرائیل کی حامی ہو۔یوں وہ صدارتی امیدواروں پر سرمایہ کاری کرتے ہیں۔یا پھر پاکستان کا تاجر اور سرمایہ دار جو بھٹو صاحب کی پالیسیوں سے نالاں تھا جنہوں نے صنعت کو قومیانے کی حکمتِ عملی اختیار کی۔1977ء کی نظامِ مصطفیٰ تحریک کے لیے زیادہ تر سرمایہ اسی طبقے نے فراہم کیا۔یہی ضیاالحق صاحب کے اقتدار کو مستحکم کر نے میں بھی ان کا مدد گار بنا۔باقی ملکوں میں بھی سرمایہ اسی طرح سیاست پر اثرا نداز ہوتا ہے۔
ماضی میں سرمایہ دار عام طورپر پس منظر میں رہتا تھا۔ترقی یافتہ دنیا میں بڑی حد تک اب بھی یہی ہو تا ہے۔ترقی پزیر ممالک میں جب اس نظام کو اختیار کیا گیا تو یہاں کے سرمایہ دار نے سوچا کہ وہ سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوںپر پیسہ خرچ کرنے کے بجائے،خود کیوں نہ سیاست دان بن جائے؟وہ خودکیوں نہ ان جماعتوں اور پھر حکومتوں کی فیصلہ سازی کا حصہ بنے؟شریف خاندان اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔بطور سرمایہ کار وہ بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن پالیسی کے زخم خوردہ تھے۔اس لیے ضیاالحق مر حوم کے وہ فطری اتحادی تھے۔ضیاا لحق کو بھی مددگاروں کی ضرورت تھی۔نوازشریف صاحب میں سیاست کی صلاحیت بھی تھی۔یوں وہ براہ راست سیاست میں آگئے۔ایک وقت آیا کہ وہ بھٹو مخالف عصبیت کی علامت بن گئے۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سرمایہ اور سیاسی عصبیت جمع ہو جائیں۔نوازشریف صاحب کے معاملے میں ایسا ہی ہوا۔ تاہم آج اگر ن لیگ پر ان کی گرفت ہے تو اس کا بڑا سبب ان کا سرمایہ ہے۔
پیپلزپارٹی کی بنیادایک جاگیر دار ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی۔انہوں نے اسے ایک نظریاتی پہچان دی اور اس عہد کے مقبول سیاسی نظریے سوشلزم کو نظریاتی اساس کے طور پر اپنایا۔اس نے انہیں عوام کی نظر میں ہیرو بنا دیا۔عوام ان کی طرف دوڑے چلے آئے مگر جلد ہی پارٹی پر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ ہوگیا۔ وجہ واضح تھی کہ انہوں نے اسی سرمایہ دارانہ نظام میں متحرک ہو نا تھا جس میں سرمایہ ہی سیاسی عمل کا رخ متعین کرتا ہے۔1970ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں کسی حد تک نظریاتی سیاست کے لیے جگہ مو جود تھی۔آہستہ آہستہ وہ سکڑتی چلی گئی۔یوں پیپلزپارٹی اپنے دورِ ثانی میں میںاوپن مارکٹ اکانومی کی اعلانیہ علم بردار بن گئی اور سرمایہ فیصلہ کن ہو گیا۔دورِ ثالث کی تو پہچان ہی سرمایہ ہے۔
اس میں ایک استثنا جماعت اسلامی کاہے۔یہ عرفِ عام میں کوئی سیاسی جماعت نہیں،ایک ہمہ گیر فکری، سماجی اور سیاسی تبدیلی کی ایک تحریک تھی۔اس کی بنیاد جن لوگوں نے رکھی ان کی اصل قوت ان کا علم، کردار اورمقصد سے وابستگی تھی۔یہ واقعہ ہے کہ اپنے ابتدائی دنوں میں، جب جماعت کا مرکزپٹھان کوٹ میں تھا، مو لانامودودی نے اپنے اہلِ خانہ اور رفقا کے ساتھ فاقے بھی کاٹے۔ابتدا میںسرمایہ ان پر مہربان نہیں ہوا کیوں کہ وہ اقتدار میں آنے کی اہلیت کا مظاہرہ نہیں کر سکے۔اس جماعت کا نظم چندے پر قائم تھا اور آج بھی اس کی اصل معاشی قوت عام کارکن کا ایثار اور چندہ ہے۔تاہم جب جماعت اقتدارکی سیاست کا حصہ بنی تو سرمایے نے یہاں کا رخ بھی کیا۔جماعت کا کلچربھی اس کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکا۔
آج ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی سیاست سرمایے کی سیاست ہے۔اگر ن لیگ کی قیادت کے لیے شریف خاندان کا استحقاق ثابت ہے تو اس کی بڑی وجہ اس کا سرمایہ ہے۔لیگ کی قیادت تک رسائی کے لیے سرمایہ درکار ہے۔یہی معاملہ پیپلزپارٹی کا ہے۔اس سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ کوئی آدمی بغیر سرمائے کے،ان جماعتوں میں جگہ بناسکے۔
تحریک انصاف کی پذیرائی کا آغاز پیپلزپارٹی کی طرح ہوا۔عمران خان کا تعلق کسی سرمایہ دار خاندان سے نہیں ہے۔انہوں نے ایک نیک احساس کے ساتھ سیاست میں قدم رکھا۔عوام نے انہیں مقبولیت بخشی جیسے بھٹوصاحب کو ملی تھی۔ یہاں تک کہ 2011ء میں انہوں نے اپنی اس صلاحیت کا عملی مظاہرہ کیا کہ وہ اقتدار تک پہنچ سکتے ہیں۔اس مرحلے پر سرمائے نے ان کی طرف رخ کر نا شروع کیا۔بہت جلد انہیں اندازہ ہو گیا کہ انہیں جس نظامِ سیاست میں آگے بڑھنا ہے،اس میں سرمائے کا کردار فیصلہ کن ہے۔انہوں نے پارٹی کے لیے ایک مضبوط معاشی اساس تلاش کر نے کے بجائے، سرمایہ داروں پر تکیہ کرنے کا فیصلہ کیا۔سو سو روپے چندہ جمع کر نے کے بجائے،انہیں یہ آسان دکھائی دیا کہ چنداین ٹی ایم مشینیں ان کی دسترسں میں ہوں۔اس نے جہانگیر ترین اورعلیم خان جیسوں کاکردار فیصلہ کن بنادیا۔
جہانگیر ترین کا تعلق اس سرمایہ دار گروہ سے ہے جوخود سیاست میں ہے اور سیاسی جماعتوں پر سرمایہ کاری بھی کرتا ہے۔گزشتہ چند برسوں میں انہوں نے عمران خان پر سرمایہ کاری کی ہے۔کیا یہ سب فی سبیل اللہ اور قوم کے غم میں کیا گیاہے؟اگر ہم ان کے سیاسی پس منظر پر نظر ڈالیں تواس سوال کا جواب تلاش کرنامشکل نہیں۔ گزشتہ ماہ و سال میں جس تیزی سے ان کی دولت میں اضافہ ہوا ہے، شریف خاندان کی دولت میں اضافہ اس شرح سے نہیں ہوا۔شریف خاندان تین نسلوں سے کاروبار میں ہے۔جہانگیر ترین کا آغاز 1970ء کی دہا ئی میں ہوا ہے۔شریف خاندان، زرداری صاحب اور جہانگیرترین، تینوں شوگر کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔تینوں کی دولت دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی رہی ہے۔مشرف کے آٹھ سال شریف خاندان کو دھچکا لگا مگر جہانگیر ترین کو کوئی فرق نہیں پڑاکیونکہ وہ ان کے ساتھ تھے۔
آج عمران خان کی سیاست دیگر جماعتوں کی طرح اقتدار کی سیاست ہے۔وہ اقتدار کی حریفانہ کشمکش میں ایک فریق ہیں۔انہیں یہ معرکہ جیتنا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اس میں فیصلہ کن کردار سرمائے کا ہے۔جب تک سرمائے کا کردار فیصلہ کن ہے،جہانگیر ترین کا کردار کم نہیں ہو سکتا۔یوتھ لیگ کے نوجوانوں کو اگر یہ بات سمجھ میں آ جائے تووہ کبھی احتجاج نہ کریں۔یوتھ لیگ کیا، افسوس تو یہ ہے کہ ایسی بات کم ہی لوگوں کی سمجھ میں آتی ہے۔
یہ ن لیگ ہو ،پیپلزپارٹی ہو یا تحریکِ انصاف،دراصل ایک پارٹی ہے جو تین حصوں میں منقسم ہے۔ہم اس میں ترجیح دینے کاحق رکھتے ہیں لیکن اگر کسی کا خیال ہے کہ ایک سادھو ہے اور باقی چور تویہ وہ سادگی ہے جس کی سرحدیں حماقت سے جدا کرنا مشکل ہے۔
جمہوریت کی کامیابی سیاسی جماعتوں کی اصلاح سے مشروط ہے۔اس کے لیے سیاسی جماعتوںکے معاشی معاملات کی اصلاح ناگزیر ہے۔سیاست میں مثالیت پسندی کے علم برداروںکو یہ بات سمجھناہوگی۔