"KNC" (space) message & send to 7575

’’تلخ نوائی‘‘

ہفتے عشرے سے جناب اظہارالحق کے کالموں کا مجموعہ سرہانے رکھا ہے۔ ہر شب اٹھاتا ہوں،دل ودماغ کی آسودگی کا سامان کرتا اور سعودعثمانی کو یاد کرتا ہوں ؎
ایک کتاب سرہانے رکھ دی، ایک چراغ ستارا کیا
مالک اس تنہائی میں تو نے کتنا خیال ہمارا کیا
ہر روزدو تین کالم پڑھتا ہوں۔کتاب ختم ہونے کو ہے۔ قندِ مکررکا لفظ پوری معنویت کے ساتھ میرے سامنے ہے۔ میں اردو کو اپنی تہذیبی روایت کے جلو میں انگڑائیاں لیتے دیکھتا اور خوش ہوتا ہوں۔
ہر تحریر بشمول کالم،دوچیزوں کا مجموعہ ہے: اسلوب اور نفسِ مضمون۔ اسلوب کا تعلق قدرتِ کلام اور نفسِ مضمون کا علم و فضل سے ہے۔ علم آفاقی ہے، زبان مگر مقامی ہو تی ہے۔ وہ جہاں جنم لیتی ہے، وہاں کا مزاج اور مذاق اس کے لہجے سے جھلکتاہے۔ اردو بر صغیر کی مسلم تہذیب کا مظہر ہے۔ اسلام یہاں کا مقامی مذہب نہیں۔ یہ عرب فاتحین اور تاجروںکے ساتھ آیا۔ عربی ان کی زبان تھی۔ ایک دور آیا جب یہاں کے مقتدر طبقے نے فارسی کو اپنا لیا جو مسلمان تھا۔ اس اختلاط نے ریختہ کو جنم دیا۔ عربی و فارسی کے ساتھ مقامی زبانوں کے رنگ شامل ہوتے گئے اور ریختہ اردو میں ڈھلتی گئی۔ مقامی رنگوں کی آمیزش کے باوجود، اس میں شبہ نہیں کہ اردو کا فطری رجحان عربی اور فارسی ہی کی طرف رہا۔ یہی سبب ہے کہ اس زبان کا حسن اس وقت نمایاں تر ہو جاتا ہے جب عربی اور فارسی سے رغبت رکھنے والا، اسے وسیلہ اظہار بناتا ہے۔ عہدِ حاضر میں اگر کوئی اس دعوے کو پرکھنا چاہے تو اظہارالحق صاحب کے کالم اس کی دلیل ہیں۔
اردو پر یہ رنگ مزید غالب ہوا جب مذہبی علمانے اسے دعوت وابلاغ کا ذریعہ بنایا۔ آج بر صغیر میں مدارس کی زبان اردوہے۔ اس میں مبالغہ نہیں کہ اس کی ترویج و اشاعت میں مدارس کا غیر معمولی حصہ ہے۔ جہاں اردو کا چلن نہیں ہے جیسے بنگلہ دیش اور نیپال، وہاں بھی مدارس کے طفیل اردو ایک زندہ زبان کے طورپرموجود ہے۔ مذہبی ذوق کے ساتھ جب لوگ ادب میں آئے توانہوں نے اصناف ِسخن کو متاثر کیا۔ ابوالکلام و شبلی اور حالی و اقبال تک، ایک دبستان ہے جس نے اردو کو مزاج پر اتنا اثر ڈالا کہ اسے اسلام سے الگ کرنا مشکل ہو گیا۔ یہ اثر اتنا گہرا تھا کہ مذہب سے متوحش طبقے نے یہ مہم چلائی کہ اردو کا رشتہ عربی اور فارسی سے توڑ کر مقامی زبانوں سے جوڑ دیا جائے۔ فہمیدہ ریاض کا مجموعہ کلام 'دھوپ‘ اس کی ایک شعوری کوشش تھی۔ انہوں نے اس کے دیباچے میںکتاب کا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے لکھا کہ اس میں شامل نظموں اور گیتوں میں عربی اور فارسی کے بجائے' نج‘ ہندوستانی الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ نج سندھی زبان میں خالص کوکہتے ہیں۔ اس مہم کا نتیجہ کیا نکلا؟ اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ یہی فہمیدہ ریاض چند برس پہلے اردو میں رومی کا منظوم ترجمہ کر رہی تھیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ انہوں نے شاعرانہ جمال کو ترجمے پر قربان نہیں ہونے دیا۔ 
زبان ، تبدیلی سے گزرتی ہے مگر فطری طریقے سے۔ مصنوعی طور پر اس کی مزاج سازی نہیں کی جا سکتی۔ اردو نے مقامی زبانوں کو قبول کیا۔ انگریزی زبان کے الفاظ کو اپنی لغت میں جگہ دی۔ لیکن یہ کام اس نے اپنی مرضی سے کیا۔ بایں ہمہ اس نے کسی مرحلے پر عربی اور فارسی سے اپنا تعلق کمزور نہیں ہونے دیا۔ اظہار الحق صاحب کے کالم ان تحریروں میں سے ہیں جو اس کی شہادت ہیں کہ جب لکھنے والا عربی اور فارسی کا ذوق رکھتا ہو تو اردو کیسے نکھرتی اور ان تحریوں کو بھی عمر ِجاوداں عطا کرتی ہے جو نفسِ مضمون کے اعتبار سے،اس کا استحقاق نہیں رکھتیں۔ یہ جملہ قدرے وضاحت کا متقاضی ہے۔
اخباری کالم کی یہ مجبوری ہے کہ وہ حالاتِ حاضرہ سے وابستہ رہے۔ دلاور فگار کا فرمانا اپنی جگہ کہ یہاں حالاتِ حاضرہ بھی کئی سالوں پر محیط ہوتا ہے۔ اس کے باوصف یہ روز مرہ کی خبریں ہیں جو ایک کالم کے لیے تحریک بنتی ہیں۔ وقت کا بہاؤ اتنا تیز ہے کہ ہر لمحے نئی خبریں، پرانی خبروں کی جگہ لینے کو بے تاب ہو تی ہیں۔ یوں ایک کالم ،اگرنفسِ مضمون کو بنیاد مانا جائے تو شام تک پرانا ہو جاتا ہے۔ میرا احساس ہے کہ یہ اسلوب ہے جو اس کے لیے آبِ حیات بن جاتا ہے۔ اظہار صاحب کے کالم اگر قندِ مکرر کا مزا دے رہے ہیں تو اس کا سبب ان کا اسلوب ہے۔ وہ اسلوب جو عربی اور فارسی سے تعلق کی وجہ سے اتنا جاندار ہو گیا ہے کہ ایک اخباری کالم کو بھی طوالت ِعمرعطا کرتا ہے۔
اس کا یہ مفہوم نہ لیا جائے کہ 'تلخ کلامی‘ میں شامل کالم نفسِ مضمون کے اعتبار سے متروک ہو چکے۔ یہ اخباری کالم پر عمومی تبصرہ ہے۔ جہاں تک اس مجموعے میں شامل کالموں کا تعلق ہے توان کے موضوعات سماج سے اٹھے ہیں۔ سماج ایک مستقل اکائی ہے۔ یہ ایک نظامِ اقدار کی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے اور اقدار صدیوں کے تعامل سے وجود میں آتی ہیں۔ یہ کالم اسی نظام ِاقدار کے گرد گھوم رہے ہیں۔ یہ مجموعہ ان روایات کا قصیدہ ہے جنہوں نے برے حالات میں بھی اس سماج کومرنے نہیں دیا۔ یہ ان اقدار کا نوحہ ہے جنہیں جدیدیت کے پر فریب نعرے نے ہم سے چھین لیا۔ یہ ان رشتوں کا ماتم ہے جنہوںنے خاندان کے ادارے کومدتوں گرم سرد موسوں سے محفوظ رکھا اور اب دم توڑ رہے ہیں۔ یہ ان پگڈنڈیوں کا قصہ ہے جو بستیوں کے بیچ دوڑتی اور دلوں کو ملائے رکھتی تھیں۔ اس میں ان ماہیوں کا ترنم ہے جن کی لے میں ہجر و وصال کی انگنت کہانیاں بیان ہوتی تھیں۔ یہ تلہ گنگ سے ملبورن تک پھیلے، تہذیبوں کے اس تصادم کی کہانی ہے جس نے ہمیں شناخت کے ایک بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔
یہ سب زندہ موضوعات ہیں۔ یوں یہ مجموعہ، حال ہی کا قصہ نہیں، ماضی کی داستان بھی ہے ۔یہ حالاتِ حاضرہ ہی کا بیان نہیں، مستقبل کے اندیشوں کا تذکرہ بھی ہے۔ سماج اور روایت سے یہ تعلق ان کالموں کوپرانا نہیں ہونے دے گا۔ اس پہ مستزاد ان کا اسلوب۔ یہ دوباتیں اس مجموعے کی اشاعت کے لیے بطورجواز کفایت کرتی ہیں۔
دور جدید کا اخباری کالم شایدکالم کی اس تعریف پر پوار نہیں اترتا جو انشا اور زبان کی کتابوں میں لکھی ہے۔ اس کے عناصرِ ترکیبی میں تاثر کے ساتھ تجزیہ اور خبر بھی شامل ہو گئے ہیں۔ ایک زندہ صنفِ سخن کا معاملہ یہی ہوتا ہے کہ ارتقا کے مراحل سے گزرتا ہے۔ تاہم میرا احساس ہے کہ مقبولیت نام کا ایک عارضہ جنسِ صحافت کو لاحق ہوگیا ہے،کالم بھی جس کی لپٹ میں ہے۔ اس مقبولیت نے کالم کی جس روپ کو جنم دیا ہے، بدقسمتی سے، اس میں سب کچھ ہے مگر وہ جوہرِ حقیقی نہیں جس سے کالم اصلاً وجود میں آتا ہے۔ میری مراد اسلوبِ کلام اور نفسِ مضمون سے ہے۔ اسلوب اس لیے باقی نہیں کہ عربی و فارسی کا ذوق دم توڑ چکا۔ نفسِ مضمون کا تعلق علم و فضل سے ہے۔ آج کے کالم نگار نے خبریت اورسستی جذباتیت کو اس کے متبادل کے طور پر قبول کر لیا ہے۔ 'تلخ نوائی‘ میں شامل کالم ہمیں یاد دلاتے رہیں گے کہ کالم کے اصل اجزائے ترکیبی کیا ہیں۔ نئی نسل میں وفورِ احساس کو امید کی کرن سمجھتے ہوئے، میں انہیںاس مجموعے کے مطالعے کا مشورہ دوں گا تاکہ کالم کی روایت اپنے اصل سے جڑی رہے اورنئے افق دریافت کر تی رہے۔ 
کالم تما م ہوا۔ میں اب بستر کارخ کرتا اور سرہانے دھرے چراغ کو روشن کر تاہوں۔ 'تلخ نوائی‘ کے چند اوراق ابھی باقی ہیں۔ میں اظہارِ تشکر کے ساتھ کتاب اٹھا لیتا ہوں ع
مالک اس تنہائی میں تو نے کتنا خیال ہمارا کیا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں