جنگ کبھی باشعور لوگوں کا انتخاب نہیں ہوتی۔ ہاں، اگر ان کے سر تھوپ دی جائے تو وہ اس طرح بہادری سے لڑتے ہیں کہ چوراہوں اور چوپالوں میں ان کے قصے بیان ہوتے ہیں۔ آنے والی نسل ان سے غذا لیتی اور جذبات کو زندہ رکھتی ہے۔
اسلام جنگ کا مذہب نہیں ہے۔ جنہوں نے اسے رزمیہ پیرائے میں بیان کیا، انہوں نے ٹھوکر کھائی۔ قرآن مجید نے سورہ توبہ میں الٰہی منصوبہ بیان کیا اور قانونِ اتمام حجت کے نتائج کا ذکر کیا تو لوگوں نے اسے عمومی شریعت کا بیان سمجھا۔ یہی نہیں سیرت پاک کو بھی اسی طرح لکھا گیا کہ مغازی کی بحثیں وجود میں آ گئیں۔ اﷲ کی کتاب بتاتی ہے کہ صلح اسلام کی ترجیح ہے۔ رسالت مآبﷺ نے ہمیشہ جنگ سے عافیت کی دعا مانگی۔ جنگ لیکن مسلط ہوئی تو اﷲ کے رسول اور صحابہ نے اس شان سے لڑی کہ اﷲ کی کتاب نے اس کا ذکر کیا۔ جب تک دنیا باقی ہے، کتاب اﷲ باقی ہے۔ جب تک کتاب اللہ باقی ہے، صحابہ کی داستانِ شجاعت باقی ہے۔
عصری معاملات پہ دینی نصوص کا اطلاق ایک نازک کام ہے۔ پاک بھارت تعلقات دین کا موضوع نہیں۔ آج کچھ لوگ اس کو دین کا مسئلہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ ''اﷲ کے رسول نے فرمایا‘‘... لوگ اس تساہل اور بے تکلفی سے بیان کرتے ہیں کہ آدمی اس جسارت پر حیران رہ جاتا ہے۔ اﷲ کے رسولﷺ نے اگر دین کے باب میں کچھ فرمایا ہے تو وہ حجت ہے۔ اس سے صرف نظر صرف ایک خیر سے محرومی نہیں، ایمان سے محرومی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ کے رسول دین کی کوئی بات بتائیں اور ایک مسلمان رد و قبول کے انتخاب میں الجھ جائے۔ معاذاللہ۔ تاہم ''اللہ کے رسول نے فرمایا‘‘... یہ جملہ کہتے وقت، ذمہ داری کا ایک بوجھ آپ کے سر ہوتا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو محدثین شب و روز اس کی نذر نہ کرتے۔ لاکھوں روایات سے چند ہزار کا انتخاب نہ کرتے۔ سنگ ریزوں کے انبار سے ہیرے نہ چنتے۔ حدیث کے باب میں اس امت کی روایت یہی رہی ہے۔ یہ انتخاب ایک مسئلہ تھا جس نے اس امت کو بخاری و مسلم جیسی شخصیات عطا کیں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ لوگ کتنی آسانی سے کوئی جملہ رسول اللہﷺ سے منسوب کر دیتے ہیں اور وہ بھی کسی سند کے بغیر۔
رسالت مآبﷺ کے بعد اور قیامت سے پہلے کیا ہونا ہے؟ بہت سی روایات میں ایسے واقعات کا بیان ہے۔ محدثین کے نزدیک روایت کے اعتبار سے سب کا درجہ ایک نہیں۔ گویا سب کے بارے میں یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ آپ ہی کا فرمان ہے۔ اس لیے محدثین کی احتیاط کا معاملہ یہ ہے کہ روایت بیان کرتے ہیں تو آخر میں کہتے ہیں ''او کما قال‘‘... یا جیساکہ آپ نے فرمایا۔ یہی معاملہ درایت کا بھی ہے۔ روایت کے ساتھ یہ بھی بات کو پرکھنے کا مسلمہ معیار ہے‘ جس پر یہ امت صدیوں سے عمل کرتی ہے۔ اس کا تعلق راوی سے نہیں متن سے ہے۔ راوی ثقہ ہو تو بھی روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا، اگر متن قرآن مجید یا کسی سنتِ ثابتہ کے خلاف ہے جو زیادہ یقینی ذرائع سے ہم تک پہنچی ہے۔ امام احمد بن حنبل نے فرمایا: تین طرح کی روایات کی کوئی حقیقت نہیں: ملاحم، باب الفتن اور تفسیر۔ کیسا المیہ ہے کہ آج جو دین بیان ہو رہا ہے، اس کی بنیاد یہی تین باتیں ہیں۔
نازک تر معاملہ، روایت کے مصداق کے تعین کا ہے۔ کسی دور کے بارے میں اور کسی فرد یا گروہ کے بارے میں، آپ نے کوئی بات کہی، اس کا تعین مشکل تر ہے۔ مثالوں سے بات واضح کرتا ہوں۔ ایک روایت کے مطابق ایک ایسے دور کا ذکر ہے جب دجال کا ظہور ہو گا۔ یہ بیان نہیں ہوا کہ کب ہو گا۔ لوگوں نے اپنے طور پر اس کے تعین کی کوشش کی۔ خود عہدِ رسالت میں ایک فرد کے بارے میں گمان ہوا کہ دجال ہے۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا: یا رسول اﷲﷺ کیا میں اسے قتل کر دوں۔ ارشاد ہوا: ''اگر وہ دجال ہے تو اس کا قتل تمہارے ہاتھوں نہیں لکھا‘‘۔ مسند احمد ابن حنبل کی ایک روایت ہے جس میں آپ نے اپنے دور سے لے کر قیامت تک پانچ ادوار کی پیش گوئی کی ہے۔ اس میں ملوکیت کے بعد ایک دور کا ذکر ہے جب 'خلافت علیٰ منہاج النبوت‘ قائم ہو گی‘۔ یعنی رسالت مآبﷺ کے طریقے پر خلافت کا قیام۔ حزب التحریر اور ڈاکٹر اسرار احمد نے ہمارے عہد پر اس کا اطلاق کیا اور تحریکِ خلافت برپا کی‘ حالانکہ حسن بصری اور بہت سے لوگ بتا چکے ہیں کہ یہ پیش گوئی عمر بن عبدالعزیز کی صورت میں پوری ہو چکی۔ داعش کا مقدمہ بھی اسی روایت پر کھڑا ہے۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو شام، افغانستان اور پاک بھارت تعلقات کے موجودہ حالات کو روایات اور دین کی روشنی میں بیان کر رہے ہیں۔ اکثر روایات بھی ایسی کہ خود محدثین انہیں مستند نہیں مانتے۔ ایسی روایات کے بارے میں لوگ بے خوفی سے کہتے ہیں ''رسول اﷲﷺ نے فرمایا‘‘۔ سچی بات ہے کہ پڑھتا ہوں تو خوف سے بدن میں کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اﷲ کے رسولﷺ کچھ فرمائیں اور حالات اس کی تصدیق نہ کریں۔ اب تو بات خوابوں تک پہنچ گئی، جیسے پاکستان کا قیام کوئی الٰہی منصوبہ تھا۔ دنیا میں واقعات، اﷲ تعالیٰ کی سنت کے تحت ہوتے ہیں۔ یہ سننِ الٰہی قرآن مجید مین بیان ہوئی ہیں اور رسالت مآبﷺ نے بھی ان کا ذکر فرمایا ہے۔ نبیﷺ اﷲ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ کے بعد اب آسمان سے کوئی الہام اور وحی نہیں نازل نہیں ہو گی جس کا اتباع انسانوں پر واجب ہو۔ آپﷺ کے بعد قیامت ہے۔ قیامت میں سرخروئی کے لیے کیا ماننا لازم اور کس پر عمل کرنا ضروری ہے، اللہ اور اس کے رسولﷺ نے بتا دیا‘ جو یقینی ذرائع سے امت کو منتقل ہو گیا۔ یہی قیامت کی صبح تک ہدایت کے ماخذ ہیں۔ اس کے علاوہ کہیں دین تلاش کرنا ایک خطرے کو دعوت دینا ہے۔ وہ خطرہ جس کا ہدف ایمان ہے۔
پاکستان ایک تاریخی واقعہ ہے۔ اسباب و علل کی دنیا میں، اس کے ظہور کے دلائل موجود ہیں۔ علامہ اقبال کی بصیرت نے اس خطے میں آباد مسلمانوں کے لیے ایک حل تجویز کیا۔ قائد اعظم جیسی نادرِ روزگار شخصیت نے ان سے اتفاق کیا۔ وہ حسنِ عمل اور بصیرت کے زادِ راہ لے کر نکلے اور مسلمانوں نے اجتماعی حیثیت میں ان کی بات کو درست مانا۔ یوں پاکستان واقعہ بن گیا۔ آج یہ ہمارا وطن ہے۔ وطن سے محبت ایک نجیب آدمی کی پہچان ہے۔ وہ وطن کے لیے جان تک قربان کر سکتا ہے۔ نجیب آدمی ہر مذہب میں ہوتے ہیں۔ بہت سے غیر مسلم پاک فوج کا حصہ رہے ہیں۔ ان کا لہو اس ملک کی سلامتی کا ضامن بنا۔ انہوں نے پاکستان کو اپنا وطن مانا اور ایک نجیب آدمی کی طرح اس کے لیے جان نچھاور کر دی۔
ان دنوں جنگ کا ہنگامہ برپا ہے۔ بھارت جارحیت پر اترا ہوا ہے۔ دفاع ہمارا حق ہے۔ پوری قوم فوج کے شانہ بشانہ ہے۔ اس بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں۔ مذہب بھی بزدلی کو اخلاقی رذائل میں شمار کرتا ہے۔ شجاعت نجابت کے اجزائے ترکیبی میں سے ہے۔ پاکستان کے دفاع کی جنگ لڑنے کے لیے یہی دلیل کفایت کرتی ہے۔ اس کے لیے پاکستان کو الٰہی منصوبہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں۔ دینی جواز کی تلاش دور کی کوڑی لانا ہے۔ اسلام پوری بنی نوع انسان کے لیے پیغام ہدایت ہے۔ اس کا مخاطب ساری دنیا ہے۔ اسے 'قومی مفادات‘ کے لیے استعمال کرنا خطرات سے خالی نہیں۔ سب سے بڑا خطرہ ایمان ہی کا ہوتا ہے۔