"KNC" (space) message & send to 7575

دہشت گردی: ایک فکری مطالعہ

عدالتی کمیشن کی رپورٹ منظرِ عام پر آنے سے نیشنل ایکشن پلان کی افادیت ایک بار پھر زیرِ بحث ہے۔ اس بار ہدف چوہدری نثار علی خان ہیں۔ یہ معاملہ ایک فرد کا نہیں، اس سے زیادہ ریاست اور اس سے بھی آگے بڑھ کر سماج کا ہے۔ برادرم سلمان عابدکی کتاب ''دہشت گردی۔۔۔۔ایک فکری مطالعہ‘‘ اسی کی شرح اور بیان میں لکھی گئی ہے۔
جولائی 2016 ء میں نیکٹا کی ایک ورکشاپ میں، دن بھر کے غور و خوض کے بعد، دہشت گردی کی روک تھام کے لیے حتمی تجاویز مرتب کی گئیں۔ آخری اجلاس سے وزیر داخلہ نے بھی خطاب کیا۔ ان کے ایک جملے نے مجھے چونکا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مدارس معاشرے کا وہ طبقہ ہے جسے سمجھنے میں لوگوں کو سب سے زیادہ غلط فہمی ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے مدارس کے محاسن کا ذکر کیا۔ مدارس کے معاشرتی کردار کے بعض مثبت پہلوئوں کا مجھے بھی اعتراف ہے مگر اس تقریر سے میرے اس تاثر کو مزید تقویت ملی کہ ریاست کی اعلیٰ ترین سطح پر بھی، ابھی اصل مقدمہ پوری طرح واضح نہیں۔ یہ ابہام سماج کے دیگر طبقات کو بھی اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ پھر یہ ابہام صرف دینی مدارس کے سماجی کردار تک محدود نہیں، اس کی نوعیت ہمہ جہتی ہے۔ سلمان عابد کی کتاب اس کو بہت تفصیل کے ساتھ بیان کر تی ہے۔ 
ہم 2014ء تک، طویل عرصہ اس غلط فہمی میں مبتلا رہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری جنگ نہیں ہے۔ عقل دہائی دیتی رہی کہ جو جنگ ہمارے گھر کے آنگن میں لڑی جا رہی ہے، جس میں اس قوم کے لوگ مر رہے ہیں، جس نے ہمارے ملک کو فساد سے بھر دیا ہے، وہ ہماری کیسے نہیں ہے؟ تعصبات نے اس طرح ہماری آنکھیں بند کر دیں کہ ہم نے محض اس بات پر دہشت گردوں کو مجاہد مان لیا کہ وہ امریکہ کے خلاف ہیں۔ چونکہ وہ امریکہ کے خلاف لڑ رہے ہیں،اس لیے ان پر یہ مباح ہے کہ اہلِ اسلام کو قتل کریں اور مسلمان ممالک کو فساد سے بھر دیں۔ پاکستان کی فوج سے لڑتے لڑتے وہ اگر مر جائیں تو شہید ہیں۔ تیرہ سال ہمارے اہلِ مذہب نے یہ مقدمہ پیش کیا اوراس قوم میں ابہام پیدا کیا۔ پھر 2014 ء میں، ایک اور 16 دسمبر آیا جس نے ہماری آنکھیں کھولیں اور ہم نے اس جنگ کو ریاست اور سماجی سطح پر، بادلِ نخواستہ اپنی جنگ مان لیا۔
اس جنگ کو اپنانے کے بعد، اگلا مرحلہ یہ تھا کہ اسے کس حکمتِ عملی کے ساتھ لڑا جا ئے؟ نیشنل ایکشن پلان اسی سوال کے جواب میں مرتب ہوا۔ اس میں جرم و سزا کے نظام کی اصلاح سے لے کرمدارس کی رجسٹریشن، فوجی عدالتوں کے قیام سے لے کر مذہبی نفرت پر مبنی لٹریچر کے خاتمے، اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ سے لے کر مذہبی جبر کے استیصال تک،بہت سے اہم نکات شامل تھے۔ حکومت نے اس پلان پر قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کیا اور تمام اہم سیاسی ومذہبی جماعتوں نے اس کی توثیق کی۔
اس پلان کے بیس نکات بتا رہے ہیں کہ یہ ایک ریاستی یا حکومتی نہیں، سماجی مسئلہ ہے۔ اس پر عمل در آمد اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک ریاستی ادارے، سول سوسائٹی، مدارس کے ذمہ داران، میڈیا اور تمام طبقاتِ زندگی کے لوگ اس پر عمل درآمد میں شریک نہیں ہو تے۔ اس سارے عمل کو ایک بیانیے میں ترتیب دینا،ان طبقات کو جمع کرنا اور ان کے سماجی کردارکی تفہیم ِنو کرنا، حکومت ہی کی ذمہ داری تھی۔ اب واضح ہے کہ یہ کام ان خطوط پر نہیں ہو سکا، جن پر ہونا چاہیے تھا۔ اس کی وجہ وہ ابہام ہے جو حکومتی سطح پر ابھی تک موجود ہے اور ہم سماج کو اس سے نکال نہیں سکے۔
سلمان عابد نے اپنی اس کتاب میں ان سب پہلوئوں کو الگ الگ مو ضوع بنایا ہے۔ انہوں نے میڈیا کے کردار پر ایک باب باندھا ہے۔ اسی طرح علاقائی سیاست اور مذہبی تعبیرات سمیت، ایک ایک نکتے کو لے کر اس پر اپنے خیالات کو بیان کیا ہے۔ انہوں نے مزید یہ کام بھی کیا کہ ان مو ضوعات پر، چند برسوں کے دوران میں معاصر اہلِ دانش نے جو کچھ لکھا، بڑی حد تک، اس کا ایک خلاصہ بھی دے دیا ہے۔ انہوں نے لکھنے والوں کے خیالات میں موجود اختلافات کو بھی ان کے دلائل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ یوں یہ کتاب جہاں مصنف کے خیالات کا بیان ہے، وہاں ایک عہد کے فکری کام کا محاکمہ بھی ہے۔
اس کتاب کی ایک اور خوبی بعض اہم معلومات کو جمع کرنا ہے۔ اس سے ہم جان سکتے ہیں کہ مختلف سالوں میں پاکستان میں دہشت گردی کے کتنے واقعات ہوئے۔کتنے افراد لقمہ اجل بنے اور کتنے زخمی ہوئے۔ فرقہ وارانہ جھگڑے کتنے ہوئے۔ مذہبی اداروں اور عبادت گاہوں پر کتنے حملے ہوئے۔ اسی طرح، اس کتاب سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں کتنی مذہبی جماعتیں پائی جاتی ہیں۔ ایک ایک مسلک کے کتنے گروہ ہیں۔ یہ جماعتیں کب قائم ہوئیں، ان کے سربراہ کون ہیں۔ ان معلومات کا ماخذ 'پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز‘ کی مختلف رپورٹس ہیں۔ اسی طرح نیشنل ایکشن پلان سمیت بعض اہم دستاویزات کو بھی کتاب میں شامل کر دیا گیا ہے۔
یہ بات دلچسپ ہے کہ حکومتی سطح پر اس طرح کے مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ عدالتی کمیشن نے بھی اس کی نشان دہی کی ہے۔کمیشن نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس نے تمام وفاق ہائے مدارس سے، ان سے وابستہ مدارس کی تعداد کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ تعداد 26,465 ہے۔ یہی سوال جب وزارتِ مذہبی امور سے پوچھا گیا تو پتا چلا کہ یہ تعداد 11,852 ہے۔ وزارت نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہمیں وفاق المدارس کی طرف سے ابھی کوئی جواب نہیں ملا۔ گویا کمیشن کو جواب مل گیا لیکن وزارت کو نہیں مل سکا۔ اس سے بھی حکومتی حسنِ کارکردگی کاا ندازہ ہوتا ہے۔
وزیر داخلہ اگر یہ کہتے ہیں کہ مدارس کے بارے میں سب سے زیادہ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ ریاستی سطح پر دینی تعلیم کے اس عمل کو سمجھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔ مدارس کا نصاب کیا ہے، تعلیمی ماحول کیسا ہے، مذہبی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ان کا تعلق کیا ہے، فرقہ واریت کے حوالے سے ان کا کردار کیا ہے، القاعدہ اور داعش کی تعبیر سے کتنے لوگ اتفاق رکھتے ہیں، ان کے اہتمام میں کتنے جرائد نکلتے ہیں اور ان میں کس طرح کے مضامین شائع ہو تے ہیں، ان سوالات کے حوالے سے کوئی مطالعہ نہیں ہوا۔ یہی سبب ہے کہ کوئی وزیر داخلہ کی طرح خوش گمان ہو یا کسی ناقد کی طرح بدگمان، سب کی رائے خام ہے کیونکہ اس کی بنیاد غیر مصدقہ اور ادھوری معلومات پر ہے۔ سلمان عابد ہمیں بڑی حد تک مصدقہ معلومات فراہم کرتے ہیں۔
سلمان عابدنے جس یک سوئی سے ملک کے حقیقی مسائل کو سنجیدگی اور تواترکے ساتھ اپنے کالموں اور سوچ بچارکا موضوع بنایا ہے، وہ قابلِ رشک ہے۔ قبولیتِ عامہ کے مطالبے سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، جس ریاضت کے ساتھ، انہوں نے اپنی قومی ذمہ داری پر نظر رکھی ہے، وہ داد کی مستحق ہے۔ اس ریاضت اور یکسوئی کا ایک مظہر ان کی یہ کتاب بھی ہے۔ برادرم فرخ گوئندی کے ادارے 'جمہوری پبلیکیشنز‘ نے اس کتاب کو جس خوش ذوقی کے ساتھ شائع کیا ہے، اس پر وہ بھی تحسین کے لائق ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے افادیت کے ضمن میں اٹھنے والی نئی بحث نے اس کتاب کی اہمیت کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں