تلخی لہجوں میں کچھ اس طرح گھل گئی ہے کہ ہمارے الفاظ اپنی لطافت اور اسلوب اپنی حلاوت کھو بیٹھا ہے۔اور تو اور، شاعروں کا معاملہ یہ ہو چلا کہ لفظوں سے تیر اور قلم سے کما ن کا کام لیتے ہیں۔شاید انجانے میں ایک المیہ ہم سے لپٹ گیا ہے۔انجانے میں اس لیے کہ ہم ابھی تک اس تبدیلی سے بے خبر ہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ عام آ دمی کے لیے دن سے رات اور رات سے دن کرنا آسان نہیں۔وسائل اور مسائل میں ناقابلِ عبور خلیج حائل ہو چکی۔کوئی حساس آ دمی کیسے ان سے صرفِ نظر کر سکتا ہے؟پھر جس کا منصب ہی صاحبانِ امر اور عوام میں ربط کا ہو، اس کے لیے تو لازم ہے کہ وہ گلی محلے میں اٹھنے والی دور کی چیخ کو ان ایوانوں تک پہنچائے جن کی دیواروں میں کان نہیں ہیں۔اس اعتراف کے با وصف،میری گزارش بس اتنی ہے کہ یہ کام اگر دھیمے لہجے میں تکرار کے ساتھ کیا جائے توبھی منصب کے تقاضے نبھائے جا سکتے ہیں۔پھر یہ کہ یہ فریضہ محض اربابِ اقتدار تک مسائل کا ابلاغ نہیں،عوام کو تسلی دینا اوران کے دردکی شدت کو کم کر نا بھی ہے۔اس کے لیے لازم ہے کہ الفاظ کی لطافت اور اسلوب کی حلاوت باقی رہے۔
ہماری روایت میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں جنہوں نے اس کا اہتمام کیا ہے۔مسائل کی نشان دہی ،اس مہارت کے ساتھ کی کہ ابلاغ میں کوئی کمی نہیں رہی مگر لفظ اپنے فطری جمال سے محروم نہیں ہوا۔چراغ حسن حسرت کے نام سے نئی نسل زیادہ واقف نہیں۔بس اتنا جان لیں کہ ایک صحافی تھے جو ایک اخبار میں کالم لکھتے تھے۔چند روز پہلے ایک کتاب تلاش کرتے ہوئے،ان کے مضامین کا ایک مجموعہ''زرنیخ کے خطوط‘‘ سامنے آ گیا۔قندِ مکرر کا مزا لیا۔خیال ہوا کہ اس میں اپنے پڑہنے والوں کو بھی شریک کیا جا ئے۔
زرنیخ مریخ کا ایک شہری ہے جوزمین کی سیاحت کے لیے آیا ہے۔اپنے مشاہدات کو اس نے اپنے ایک دوست''توبیخ‘‘ کے نام خطوط میں بیان کیا۔ان خطوط میں حسرت نے جس شگفتگی اور لطافت کے ساتھ اس معاشرے کے مذہبی،سیاسی اور سماجی مسائل کا ذکر کیا ہے،اس نے ان مضامین کو صحافت کی سطح سے اٹھا کر ادب بنا دیا ہے۔زرنیخ ایک خط میں یہاں کے اخبار نویسوں کا ذکر کر تا ہے۔یہ مجموعہ مئی 1951 ء میں شائع ہوا۔اسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ صحافت ساٹھ سال پہلے بھی آج سے کچھ ایسی مختلف نہ تھی،ہرچند کہ اس دور میں چراغ حسن حسرت جیسے لوگ بھی مو جود تھے۔زمین کے اخبار نویس ایک دوسرے سیارے کے رہنے والے باشندے کے بارے میں متجسس اور اس کے حالات جاننا چاہتے ہیں۔دیکھیے کہ حسرت اسے کیسے بیان کرتے ہیں :
''ان اخبار والوں نے تو ناک میں دم کر رکھا ہے....کل شام میرے کمرے میں اخبار نویسوں کے گنجے سروں اور عینکوں کے سوا اور کسی چیز پر نظر نہیں پڑتی تھی۔پہلے وہ دیر تک آپس میں مشورہ کرتے رہے۔پھر ان میں سے ایک شخص جو ایک آنکھ سے کانا اور اور ایک ٹانگ سے لنگڑا تھا،آگے بڑھا اور کہنے لگا:''آپ کہاں سے تشریف لائے؟‘‘میں نے کہا''میں ایک سیارے سے آیا ہوں جسے آپ لوگ مریخ کہتے ہیں۔‘‘
''آپ یہاں کیوں تشریف لائے ہیں؟‘‘
''یہ تو ایک عجیب مہمل سا سوال ہے۔کیامیں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟‘‘
''ہم لوگ اخبار نویس ہیں اور اور ظاہر ہے کہ آپ کے حالات معلوم کرنے آئے ہیں‘‘۔
میں نے کہا:''میں اگر چہ اخبار نویس نہیں۔لیکن یہ ظاہر ہے میں آپ کے حالات معلوم کر نے آیا ہوں۔‘‘
''بہت خوب ، بہت خوب!کیا آپ کے وطن میں آپ جیسے اور لوگ بھی ہیں‘‘؟
''کیا آپ کے وطن میں آپ جیسے اور لوگ بھی ہیں؟
''جی ہاں، کیوں نہیں‘‘۔
''تو میرا بھی یہی جواب ہے۔‘‘
قہقہے کی صدا بلند ہوئی اور وہ شخص خفیف ہو کر رہ گیا۔پھر کہنے لگا ''گویا مریخ میں آبادی ہے؟میں نے کہا:''آپ کی ذہانت قابلِ داد ہے کہ آپ نے ایسی آسانی کے ساتھ ایک پیچیدہ سوال حل کر لیا‘‘۔
لوگ پھر ہنسنے لگے۔وہ شخص بولا''کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کا جسم اتنا شفاف کیوں ہے؟‘‘
میں نے کہا :''اس لیے کہ میرا جسم شفاف ہے‘‘۔
''میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا‘‘۔
''آپ کا جسم کیوں غیر شفاف ہے؟
''میں اس سوال کا کیا جواب دے سکتا ہوں؟‘‘
''تو آپ اس قسم کا سوال مجھ سے کیوں کر رہے ہیں؟‘‘
...اور اب ہر طرف سے مجھ پر سوالوں کی بوچھاڑ ہونے لگی۔ان کے جواب میں میں نے جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہ ہے:ہم مریخ کے باشندے تعداد میں آپ سے زیادہ اور علم میں آپ سے کہیں بڑھ کے ہیں۔ ہم نے زمان و مکان کی حد بندیوں کو مٹا دیا ہے۔اور عناصر کو پوری طرح اپنا تابع بنا لیا ہے۔ہم نہ تو سست رفتار گاڑیوں اور موٹروں پر سفر کرتے ہیں اور نہ آپ کی طرح تار ٹیلی فون وغیرہ کے محتاج ہیں بلکہ ہم پلک جھپکتے میں سینکڑوں میلوں کی مسافت طے کر لیتے ہیں....ہم میں نہ کوئی ننگا اور بھوکا ہے نہ کوئی مفلس اور محتاج۔نہ ہم ایک دوسرے سے کوئی عداوت رکھتے ہیں....ہمارے ہاں پورا پوراامن ہے،ہاں کبھی کبھی ایسا ضرور ہوتا ہے کہ کوئی عورت ہم میں سے کسی کی روح میں شورش اور اضطراب پیدا کر دیتی ہے لیکن یہ ذاتی اور انفرادی معاملہ ہے۔اس سے ہمارے سیارے کے امن وسکون پر کوئی اثر نہیں پڑتا....
آج صبح کے اخباروں میں میرے حالات تصاویر کے ساتھ چھپ گئے ہیں لیکن یہ دیکھ کر میرے تعجب کی انتہا نہ رہی کہ ایک اخبار نے مجھے مریخ کے بادشاہ کا بیٹا لکھا۔دوسرے نے لکھا کہ زرنیخ کو محبت میں ناکامی ہوئی،اس لیے وہ مریخ کی سکونت ترک کرنے پر آ مادہ ہو گیا.....میں اخبارر پڑھ رہا تھا کہ ایک مشہور شاعر حاکمِ شہر کا اجازت نامہ لے کے مجھ سے ملنے آگیا ۔میں نے اسے اخبار دکھا کے کہا کہ تم اسے کیا کہتے ہو؟وہ کہنے لگا: کیا آپ نے یہ باتیں نہیں کہیں؟ میں نے کہا ہر گز نہیں۔ وہ کہنے لگا :تو اخبار والوں نے جھوٹ لکھا ہے؟ میں نے پو چھا جھوٹ کیا ہو تا ہے؟ وہ کہنے لگا :ایسی بات جو اصلیت نہ رکھتی ہو۔میں نے متعجب ہو کے پوچھا:لیکن اصلیت کے خلاف کوئی بات کیوں کر کہی جا سکتی ہے؟وہ کہنے لگا:کیوں نہیں کہی جا سکتی؟ہم سب کو جھوٹ بولنے پر قدرت حاصل ہے۔دراصل اس نے ہماری زندگی میں بڑی لطافت پیدا کر دی ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر ہمیں جھوٹ بولنے پر قدرت نہ رہے تو ہماری زندگی بالکل بے کیف ہو کر رہ جا ئے۔
میں سمجھتا تھا کہ کرئہ ارض کے باشندے مجھے کوئی نئی بات نہیں سکھا سکتے۔ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جو ہمارے پاس مو جود نہ ہو۔لیکن اے توبیخ میں اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہو گیا ہوں کیونکہ ان کے پاس جھوٹ ہے جو ہمارے پاس نہیں۔دراصل ہم نے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ ہم جھوٹ بولنے پر بھی قدرت رکھتے ہیں ۔میں پچھلے چند دنوں سے جھوٹ بو لنے کی مشق کر رہا ہوں۔اس میں ایک نا قابلِ بیان لذت ہے۔ایک حیرت انگیز آسودگی ۔قسم ہے اس نیلگوں وسعت کی کہ 'ترامید‘ کی وادیوں میں کوئی پھل ایسا نہیں جو شیرینی میں جھوٹ کا مقابلہ کر سکتاہو ‘‘۔
اب سنائیے!آپ کا مشاہدہ کیا کہتا ہے؟کیا زرنیخ نے جھوٹ بولا؟ زرنیخ کے مشاہدات اس وقت کے ہیں جب الیکٹرانک میڈیا نہیں تھا۔اگر آج وہ یہاں آ جائے تو.....