ماضی آہستہ آہستہ اپنا دامن چھڑا رہا ہے۔ اس کا پلو دھیرے دھیرے ہاتھ سے سرکنے لگا ہے؟ سوچتا ہوں ماضی سے کٹ کر زندگی کیسے بسر ہو گی؟
ماضی کیا ہے؟ وہ چہرے جو برسوں نظروں کے سامنے رہے، اس طرح کہ ان کے خدوخال آنکھوں میں کھب گئے۔ کوئی نام لے تو پلک جھپکنے سے پہلے تصویر نظر آ جائے۔ والدین، استاد، عزیز و اقارب، دوست احباب۔ یہ سب یادوں میں تو ہیں، زندگی میں نہیں۔
یا پھر وہ ماحول: کیسا تھا وہ گاؤں جہاں بچپن گزرا! گھر کے بالکل سامنے وہ کنواں جہاں محلے بھر کی لڑکیاں سورج ڈھلنے کے ساتھ جمع ہوتیں، پانی بھرنے کے لیے۔ اس طرح سہیلیاں مل بیٹھتیں، راز و نیاز کرتیں۔ کچھ منچلے حیلوں بہانوں سے گلیوں کا چکر کاٹنے لگتے۔ سب کو معلوم ہوتا کہ کون کس کو ایک نظر دیکھنا چاہتا ہے مگر بتاتا کوئی نہیں تھا۔ کنویں کے پس منظر میں مسجد۔ مغرب کی اذان بلند ہوتی توکنویں کا شور دبنے لگتا۔ لڑکیاں گھڑے اٹھاتیں اور گھروں کی راہ لیتیں۔ تین تین گھڑے سر پر اس طرح سے رکھتیں کہ مجال ہے جو توازن بگڑتا۔ آج بھی سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے۔ مغرب کی نماز پڑھ کے لوٹتے تو خاموشی چھا چکی ہوتی۔
اور ہاں! کنویں کے ساتھ بے بے شفیداں کی بھٹی۔ ظہر کے ساتھ ہی بچے اپنے اپنے چھابے اٹھائے اس بھٹی کا رخ کرتے۔ کسی کے پاس مکئی کے دانے ہوتے اور کسی کے پاس چنے۔ تھوڑی دیر میں ایک میلہ سا لگ جاتا۔ یہ میلہ بھی مغرب تک آباد رہتا۔ بجلی ہوتی نہیں تھی۔ سورج ڈوبنے کا مطلب رات کی آمد ہی تھا۔ تاریکی گہری ہونے لگتی اور گلیاں ویران۔ میرے والد دیر سے مسجد سے لوٹتے، سب سے آخر میں۔ گھر میں کھانے پہ ان کا انتظار ہوتا۔ وہ آتے تو کھانے کا آغاز ہوتا۔ عشا تک چند نمازیوں کے قوموں کی چاپ سنائی دیتی، ورنہ یہ خاموشی کے راج کا وقت ہوتا، حتیٰ مطلع الفجر۔
ہمارے گھر کی روشنی محلے یا شاید گاؤں میں سب سے آخر میں گل ہوتی۔ والد عشا کی نماز پڑھ کر لوٹتے تو دیر تک پڑھتے رہتے۔ لالٹین کی رشنی میں، جس کا شیشہ میری والدہ مغرب سے پہلے صاف کرتیں، اس میں تیل ڈالتیں اور مغرب کی اذان کے ساتھ اسے روشن کر دیتیں۔ کتابیں، جرائد، اخبار۔ اخبار روز کہاں ملتا۔ کوئی شہر سے آتا تو لے آتا۔ میں پاس بیٹھ جاتا تو مجھے پڑھنے کے لیے کہتے۔ غلط پڑھتا تو تصحیح کرتے۔ نہیں معلوم وہ کب سوتے تھے، میری آنکھ جلدی لگ جاتی۔ بچہ ہی تو تھا!
ٹی وی تو دور کی بات، ریڈیو کا بھی تصور نہ تھا۔ غالباً پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا جب گھر میں پہلی بار ریڈیو آیا۔ اس سے پہلے دھندلی سی یاد ہے کہ پورے محلے میں صرف ایک ریڈیو تھا، لالہ عزیز کے پاس۔ وہ اسے بہت سنبھال کر رکھتا تھا۔ اس نے اس کے لیے ریشمی کپڑے کا ایک غلاف بنا رکھا تھا۔ مجال ہے جو کسی کو ہاتھ لگانے دیتا۔ گرمی کی دوپہر ریڈیو پر فرمائشی گانوں کا پروگرام ہوتا تو محلے بھر کے لڑکے جمع ہو جاتے۔
لالہ عزیز کا گھر ہمارے پڑوس میں تھا۔ گلی کے اس طرف ہمارا گھر تھا اور دوسری طرف اس کا۔ ہمیں مگر یہ عیاشی میسر نہ تھی کہ وہاں جا کر ریڈیو سنتے۔ گانا اور ہم، استغفراللہ۔گھر میں ریڈیو آیا تو بھی ہمارے کسی کام کا نہ تھا۔ والد صاحب صبح کی تلاوت، قرآن حکیم اور ہماری زندگی اور پھر 'روشنی‘ سنتے۔ اس کے بعد صرف خبریں سنی جاتیں۔ کبھی دوپہر کو وہ سو جاتے تو چپکے سے لالہ عزیز کی طرف جا نکلتے۔ وہیں پہلی بار نور جہاں کا نام سنا۔ ایک ادھ بار پکڑے گئے تو اس لہو و لعب میں مبتلا ہونے کی سزا بھی ملی۔
اور ہاں ہمارے پڑوس میں 'سانگ‘ بھی لگتا تھا۔ شادی بیاہ کے موقع پر لوگ اس کا اہتمام کرتے۔ اس میں فنکاروں کا ایک گروہ‘ جو سب مرد ہوتے تھے، مختلف زنانہ اور مردانہ بھیس بھرتے اور کسی قدیم رومانی داستان کو ڈرامے کی صورت بیان کرتے۔ اس میں گانے ہوتے، رقص ہوتا اور ساتھ کہانی بھی۔ اگر کسی ایک گاؤں میں سانگ رچایا جاتا تو ساتھ کے کئی دیہات سے لوگ دیکھنے آتے۔ گاؤں میں یہ سانگ ہمارے گھر کے بالکل ساتھ ایک پڑاؤ میں لگتا۔ جس دن یہ سانگ لگتا، ہمارے گھر پر پہرہ لگ جاتا۔ ہم گھر کے چھت سے دیکھ سکتے تھے مگر اجازت نہیں تھی۔ والد گرامی رات بھر جاگتے رہتے کہ کہیں ہم بھائیوں میں سے کوئی نظر بچا کر اس طرف نکل نہ جائے۔ رات بھر آوازیں آتی رہتیں مگر بے بس ہوتے۔ اس طرح ہمارا اخلاق تو بچ گیا لیکن تہذیبی رنگوں سے محرومی آج بھی یاد آتی ہے۔
آج یہ ماضی کہیں نہیں ہے۔ وہ سب تہہ خاک سو چکے، جن کو میں نے اپنے چاروں طرف چلتے پھرتے دیکھا۔ وہ منظر بدل گئے جنہوں نے اپنے دامن میں یہ سارے رنگ سمیٹ رکھے تھے۔ مسجد سے اب موذن کی نہیں، لاؤڈ سپیکر کی آواز آتی ہے۔ کنواں بھی اب وہ نہیں رہا، پانی کی موٹر لگ چکی۔ بجلی آئی اور لوگوں نے گھروں میں موٹریں لگوا لیں۔ اب کوئی پانی بھرنے یہاں نہیں آتا۔ اور اگر آتا بھی‘ ہمارے کس کام کا؟ ہم کب کے شہروں کا رخ کر چکے۔ گھر اب کہاں ہے، ٹوٹی دیواریں اور اکھڑے پلستر۔۔۔ ایک ویرانی ہے جو کھانے کو آوے ہے۔ بے بے شفیداں دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ بھٹی کی آگ بھی ٹھنڈی ہو گئی۔ لالہ عزیز کو مرے بھی کئی سال گزر گئے۔ اس کے ریڈیو کی تصویر میری آنکھوں میں محفوظ ہے مگر میں کسی کو دکھا سکتا نہ اس کی آواز سنوا سکتا ہوں۔
مسجد کی عمارت، گھروں کے نقشے، سب بدل چکے۔ اب سانگ بھی نہیں لگتے۔ گاؤں کے اکثر لوگ شہر منتقل ہو چکے۔ گاؤں جائیں تو خالص دودھ نہیں ملتا۔ دیسی مرغی ملتی ہے نہ دیسی انڈہ۔ میرا ماضی باہر کہیں نہیں ہے۔ میرے اندر ہے مگر کسی کو دکھا نہیں سکتا۔ دکھانا تو دور کی بات سمجھا بھی نہیں سکتا۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں بچوں کو پاس بٹھاؤں اور انہیں اپنے ماضی سے جوڑوں۔ میں مگر یہ کر نہیں سکتا۔ میں انہیں سمجھا نہیں سکتا کہ وہ کنواں کیسا ہوتا تھا۔ 'اولو‘ اور 'نِسار‘ کیا ہوتی تھی۔ شام کو آوازوں کے اس شور میں کیسا ترنم تھا۔ کیسے زندگی ان آوازوں کی صورت سانس لیتی تھی۔ کیسے جذبات اس فضا میں رقصاں رہتے تھے۔ لالٹیں کی روشنی میں پڑھنا کیسا تجربہ تھا۔
میرے ساتھ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہوا۔ آپ میں سے کتنے ہوں گے جنہوں نے اس کالم کو اپنی کہانی سمجھا ہو گا۔ یہ ہر نسل کا المیہ ہے کہ ماضی اس کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ وقت پرانے نقوش مٹاتا اور ان کی جگہ نئے نقش قائم کر دیتا ہے۔ میں مگر اپنے ماضی میں جینا چاہتا ہوں۔ میں اس منظر کو محفوظ کرنا چاہتا ہوں۔ میں مگر یہ جانتا ہوں کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ میں آئیںِ نو سے ڈرتا ہوں لیکن میرا مقدر یہی ہے۔۔۔ کیا مجھے یہ تبدیلی خوش دلی سے قبول کر لینی چاہیے؟ کیا میں ایسا کر سکتا ہوں؟
کاش ایسا ہوتا۔ ایک جبر ہے کہ مسلسل اس کی گرفت میں ہوں۔
(پس تحریر: گزشتہ کالم میں مو لانا فضل الرحمٰن سے منسوب یہ جملہ نقل ہوا کہ ''اہلِ دیوبند کا اجتماع دین بیزاروں کے منہ پر طمانچہ ہو گا‘‘۔ یہ جملہ ایک قومی اخبار میں شائع ہوا تھا۔ خبر کے مطابق، یہ بات انہوں نے مولانا فدا الرحمٰن درخواستی سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ مولانا کے معاون مفتی ابرار صاحب نے تصحیح کی کہ انہوں نے یہ نہیں کہا۔ مولانا نے اس اجتماع کو دنیا کے لیے امن کا پیغام قرار دیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ بہتر ہوتا وہ اس کی تردید مذکورہ اخبار کو بھی جاری کر دیتے)