جمعیت علمائے اسلام کی تنگ دامنی، کیا مولانا فضل الرحمٰن کی بے کنار سیاسی تمنائوں کے سامنے، بالآخر اعترافِ عجز پر مجبور ہو جائے گی؟
قمری تقویم کے مطابق جمعیت علمائے ہند کے قیام کو سو برس ہو گئے ہیں۔ یہ متحدہ ہندوستان میں ابھرنے والی ایک عظیم الشان تحریک تھی جس نے ملتِ اسلامیہ ہند کی نظریاتی و سیاسی ساخت پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے ہیں۔ 1919ء میں جب یہ جماعت قائم ہوئی تو اس پر صرف اہلِ دیوبند کا اجارہ نہ تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ دیوبندیوں کی جماعت بنتی چلی گئی۔ تاریخ میں اب یہ اسی شنا خت کے ساتھ محفوظ ہے۔
دورِ غلامی میں اپنے تہذیبی و مذہبی وجود کی بقا کے لیے، یہ اہلِ دیوبند کی جدوجہد کے تیسرے مرحلے کا آغاز تھا۔ پہلا مرحلہ تعلیمی و سماجی ہے جب دارالعلوم دیوبند قائم ہوا۔ دوسرا عسکری ہے جس کا اختتام تحریکِ ریشمی رومال کی ناکامی پر ہوا۔ اب مذہبی لوگوں نے کم و بیش اجماع کر لیا کہ آزادی کی جنگ آئینی اور سیاسی دائرے میں لڑی جائے گی۔ جمعیت کا دوسرا اجتماع نومبر 1920ء میں ہوا۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن نے صدار تی خطاب میں کہا: ''علمائے ہند کی ایک کثیر جماعت فیصلہ کر چکی ہے کہ چونکہ ہندوستان کے مسلمانوں کے پاس مدافعتِ اعدا کے مادی اسباب نہیں ہیں، توپیں، ہوائی جہاز، بندوقیں، ان کے ہاتھ میں نہیں ہیں اس لیے مادی جنگ نہیں کر سکتے۔۔۔‘‘ اسی لیے جمعیت کے پہلے اجلاس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ اب جدوجہد آئینی حدود میں رہ کر کی جائے گی۔
ہم تاریخ پڑھاتے وقت اس تحریک کا ذکر نہیں کرتے۔ اگر کرتے ہیں تو منفی اسلوب میں۔ یہ اس جرم کی پاداش میں ہے کہ جمعیت نے قیامِ پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ یہ تاریخ کو دیکھنے کا ایک متعصبانہ اورغیر علمی رویہ ہے۔ ہمیں طالب علموں کو بتانا چاہیے کہ غلامی سے نجات کی حکمتِ عملی کے باب میں، مسلمان راہنماؤں میں اختلاف ہوا۔ ایک رائے وہ تھی جو مسلم لیگ اور قائد اعظم نے اختیار کی۔ ایک نقطہ نظر وہ تھا جو مولانا ابوالکلام اور جمعیت علمائے ہند کا تھا۔ ایک رائے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کی تھی۔ ایک موقف خاکسار تحریک کا بھی تھا۔ مسلمان اکثریت نے قائد اعظم اور مسلم لیگ کے نقطہ نظر سے اتفاق کیا۔
ہم نے مسلم لیگ کے علاوہ کوئی موقف طالب علموں کو نہیں بتایا۔ اہل دانش کے ایک طبقے نے بھی اسی کی تشہیر کی۔ یوں جمعیت علمائے ہند کی بہت سی قابلِ قدر خدمات صرف اس جرم کے باعث کبھی سامنے نہیں آ سکیں کہ اس نے مسلم لیگ کی مخالفت کی تھی۔ اختلاف تو جمعیت علمائے ہند میں بھی ہوا۔ اسی کی کوکھ سے مولانا شبیر احمد عثمانی کی جمعیت علمائے اسلام نے جنم لیا۔ یہ سب ہماری تاریخ ہے اور اسے اسی اعتراف کے ساتھ قبول کرنا چاہیے؛ تاہم تنقید کا حق سب کو ہے اور اس کے شائستہ اظہار پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔
جمعیت علمائے ہند کے پیشِ نظر متنوع مقاصد تھے۔ اس کا ایجنڈا ایک پہلو سے عالمی بھی تھا۔ خلافت کے ادارے سے دلچسپی اس کا ایک ثبوت ہے۔ میرا احساس ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی سیاست کو اس وقت تک نہیں سمجھا جا سکتا جب تک ہم جمعیت علمائے ہند کی تاریخ سے اچھی طرح واقف نہ ہوں۔ مولانا کی سیاست کی طرح ہمیں جمعیت کی تاریخ میں بھی تضادات نظر آتے ہیں۔ مو لانا کی طرح جمعیت کے قائدین بھی اس میں تطبیق پیدا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر نومبر 1922ء میں جمعیت کے سالانہ اجتماع میں قرارداد منظور ہوئی: ''یہ اجلاس خاندانِ عثمانی کی خدمات کے پیشِ نظر سلطان عبدالمجید کو خلیفہ تسلیم کرتا ہے۔۔۔‘‘ اسی اجلاس میں منظور کی گئی ایک دوسری قرارداد کے الفاظ ہیں: ''جمعیت العلما کا یہ اجلاس مصطفیٰ کمال پاشا اور ''کمالیوں‘‘ کو ان کی کامیابیوں پر مبارک باد پیش کرتا ہے۔ اور مصطفیٰ کمال جسے وہ The great Crusader کہتے ہیں‘ اِسے مجددِ خلافت کا خطاب دیتا ہے‘‘۔ یہ تجویز مولانا حبیب الرحمٰن نے اپنے صدارتی خطبے میں پیش کی تھی اور اس کا دینی پس منظر بھی بتایا تھا۔
جب مصطفیٰ کمال کا انتقال ہوا تو مارچ 1939ء کے اجلاس میں قرارداد منظور ہوئی: ''یہ اجلاس مجاہدِ اعظم غازی مصطفیٰ کمال پاشا‘ جو ترکی کے استخلاص اور استقلال کی روحِ رواں تھے، کی وفات حسرت آیات پر دلی صدمے کا اظہار کرتا ہے۔ ان کی وفات سے ملتِ اسلامیہ کا ایک مفکرِ اعظم اور مجاہدِ اکبر مسلمانوں سے جدا ہو گیا۔ خدا تعالیٰ غازی موصوف کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور ملتِ ترکیہ کو احیاء قوائے ملت میں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘ اسی اجلاس میں علامہ اقبال کے انتقال پر بھی یہ قرارداد منطور ہوئی: ''یہ جلسہ شاعرِ مشرق جناب سر ڈاکٹر محمد اقبال کی وفات حسرت آیات پر دلی رنج و غم کا اظہار کرتا ہے اور ان کی وفات کو ایک قومی مفکر اور آزادیء وطن کے داعی سے ہندوستان کی محرومی سمجھتا ہے۔ اور دعا کرتا ہے کہ حق تعالیٰ ان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ اور آزادیء وطن کی جو روح ان کے قومی ادب کی جان ہے، اس پر چلنے کی مسلمانوں کو توفیق عطا فرمائے۔‘‘
علامہ اقبال کی اس تعزیت کو اگر اس تلخی کے پس منظر میں دیکھا جائے جو مسئلہ قومیت کے ضمن میں مولانا حسین احمد مدنی اور علامہ اقبال کے مابین پیدا ہوئی تھی تو اُس سیاست کی اخلاقی ساخت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ مصطفیٰ کمال کی تحسین آج بھی ایک مذہبی آدمی کے لیے مشکل کام ہے۔ اب ایک طرف یہ ہے اور دوسری طرف خلافت کے ادارے سے وابستگی ہے۔ اسی طرح ایک طرف امارتِ شریعہ کی بات ہو رہی ہے اور دوسرے طرف ہندوئوں کے ساتھ تعاون کے دینی دلائل بھی پیش کیے جا رہے ہیں۔ اب باتوں میں تطبیق بظاہر مشکل دکھائی دیتی ہے مگر جمعیت کے اکابر ان سب سوالات کے جواب دیتے ہیں۔ مو لانا حسین احمد مدنی نے جمعیت کے اجلاسوں میں کانگرس کے ساتھ تعاون اور مسلم لیگ کی مخالفت کے دلائل بیان کیے ہیں۔ مسلم لیگ کی قیادت کے باب میں مولانا مدنی اور مولانا مودودی کے خیالات ایک جیسے ہیں۔
مولانا نے اب جمعیت علمائے ہند کے صد سالہ یومِ تاسیس پر ایک بڑے اجتماع کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان جیسے سماج میں‘ جہاں تاریخ کا مطالعہ متعصبانہ ہے، یہ جراتِ رندانہ ہے۔ انہوں نے جمعرات کو اس کانفرنس کے مقاصد بیان کیے۔ اس تقریب میں اقلیتوں کے کئی نمائندوں نے بھی جمعیت علمائے اسلام میں شمولیت کا اعلان کیا۔ مولانا نے اس موقع پر پاکستان کو بین السطور ایک قومی ریاست قرار دیا۔ انہوں نے ایک ریاست کے بنیادی اجزائے ترکیبی گنوائے جو سیاسیات کی کتابوں میں 'قومی ریاست‘ کی تعریف میں بیان ہوتے ہیں۔
مولانا نے دو باتیں اور بھی کیں۔ ایک یہ کہ رسالت مآبﷺ کی بعثت تمام انسانوں کے لیے تھی۔ اس تصور کو وہ اقلیتی افراد کی جمعیت میں شمولیت سے جوڑ رہے تھے۔ اس کے ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جمعیت علمائے ہند کا پیغام کسی ایک خطے کے لیے نہیں تھا۔ انہوں نے اجتماع میں ساری دنیا سے ان افراد کو مدعو کیا ہے، جو جمعیت سے وابستہ ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کے نزدیک دیوبند ایک سیاسی تحریک کا نام ہے۔ یہ کوئی مذہبی نقطہ نظر نہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان سے وابستہ عامی اس کے برخلاف رائے رکھتا ہے۔ وہ دیوبند کو ایک مسلک کی علامت قرار دیتا ہے۔ مولانا کے سامنے دو سوال ہیں: وہ اس عامی کو اپنی سیاسی تمناؤں کی تکمیل کے سفر میں کیسے ساتھ لے کر چل سکتے ہیں؟ دوسرا سوال ہے کہ ایک قومی ریاست کے تصور اور اپنے نفاذِ اسلام کے مطالبے میں کیسے تطبیق پیدا کرتے ہیں؟ مولانا کا مخمصہ یہ ہے کہ مدرسے کا فارغ التحصیل ان کا اثاثہ ہے اور ان کے پاؤں کی زنجیر بھی۔ کیا جمعیت علمائے ہند کے نام پر برپا ہونے والا اجتماع انہیں اس مخمصے سے نکال سکے گا؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں انتظار کرنا پڑے گا۔