4 اپریل کی تاریخ، ایک دن کی مسافت پر ہے۔ 1979ء میں اسی دن ایک منتخب وزیر اعظم کو، ایک عدالتی حکم کے نتیجے میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس واقعے نے ہماری قومی نفسیات، سیاست اور سماجی ساخت پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے۔ آج ملک کو ایک بار پھر کم و بیش اسی طرح کی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ کیا ہم نے 4 اپریل 1979ء سے کوئی عبرت حاصل کی؟
1977ء کے انتخابات نے عوام کو دو حصوں میں منقسم کر دیا تھا: بھٹو مخالف اور بھٹو دوست۔ ان رویوں کی تجسیم قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی کی صورت میں ہوئی۔ جب انتخابات میں دھاندلی ہوئی تو اس تقسیم میں شدت آ گئی۔ ایک تحریک اٹھ کھڑی ہوئی۔ بھٹو مخالف قوتوں نے بھٹو سے نجات کے لیے اِسے ایک سنہری موقع سمجھا۔ اس آگ پر حسبِ توفیق تیل ڈالا۔ داخلی سطح پر بھٹو مخالف قوتوں میں وہ سرمایہ دار اور تاجر طبقہ بھی شامل تھا‘ جس کے مفادات کو بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن پالیسی سے زک پہنچی تھی۔ اس میں وہ بین الاقوامی قوتیں بھی شامل تھیں جو بھٹو صاحب کو اس خطے میں اپنے عزائم کی تکمیل کے راستے کی رکارٹ سمجھتی تھیں۔ یوں 'قومی اتحاد‘ ایک بین الاقوامی اتحاد میں بدل گیا۔
بھٹو صاحب ابتدا میں اسے احتجاج کا عام واقعہ سمجھتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ ریاستی قوت سے اس پر قابو پا لیں گے‘ ریاست کے سب ادارے ان کے ہاتھ میں ہیں۔ ان سے حالات کی تفہیم میں غلطی ہوئی۔ تحریکیں دو اسباب سے کامیاب ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ ان کے پاس ایسا نعرہ ہو جس سے عوامی جذبات کو مشتعل کیا جا سکے۔ بھٹو مخالف تحریک کو یہ نعرہ رفیق باجوہ نے 'نظامِ مصطفیٰ‘ کی صورت میں فراہم کر دیا۔ یوں ولی خان کی سیکولر جماعت بھی تحریکِ نظامِِ مصطفیٰ کے لیے سرگرم ہو گئی۔ عوام کے مذہبی جذبات کو خوب بھڑکایا گیا۔ تحریکوں کی کامیابی کا دوسرا سبب وسائل ہوتے ہیں۔ سرمایہ داروں اور دوسری قوتوں نے سرمایے کی فراہمی میں بھی کمی نہ آنے دی۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک علمی و فکری پروگرام کی میزبانی کرتا تھا۔ ایک پروگرام میں مولانا خورشید احمد گنگوہی بطور مہمان شریک ہوئے۔ ریکاڈنگ سے پہلے، انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ 1977ء کی تحریک میں سرگرم رہے۔ وہ ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے گرفتاری پیش کی۔ ان سے کہا گیا کہ وہ گھر کی فکر نہ کریں‘ جتنے دن جیل میں رہیں گے، ہر روز کے چند سو روپے ان کے گھر پہنچتے رہیں گے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس تحریک میں وسائل کی کمی نہ تھی۔ ایک جذباتی نعرے اور وسائل کے ساتھ تحریک آگے بڑھتی گئی۔ بھٹو صاحب کو ایک کامیاب پروپیگنڈے کے زور پر اسلام دشمن قوت ثابت کر دیا گیا۔ مذہبی جماعتوں نے اسے کامیابی کے ساتھ اسلام اور کفر کا معرکہ بنا دیا۔
جب اقتدار کی باگ بھٹو صاحب کے ہاتھ سے پھسلنے لگی تو انہیں حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ 28 اپریل 1977ء کی شام انہوں نے قومی اسمبلی میں پونے دو گھنٹے کی تقریر کی۔ اس وقت قومی اتحاد کے ساتھ ان کے مذاکرات کا آغاز ہو چکا تھا۔ بھٹو صاحب نے کہا: ''ہاتھی مجھ سے ناراض ہے۔ ہاتھی نے ویت نام اور مشرقِ وسطیٰ پر ہمارے موقف کو تسلیم نہیں کیا۔ ہم نے عربوں کو ہتھیار فراہم کیے۔ ہم نے ایٹمی پلانٹ پر قومی مفاد کے مطابق موقف اختیار کیا۔ اس وقت ملک میں غیر ملکی کرنسی پانی کی طرح بہہ رہی ہے۔ کراچی میں ڈالر چھ سات روپے کا ہو گیا ہے۔ لوگوں کو اذانیں دینے کے لیے پیسے دیے جا رہے ہیں۔جیل جانے کا معاوضہ دیا جا رہا ہے۔ یہ قومی اتحاد کی نہیں، بلکہ بین الاقوامی سازش ہے۔ بلڈ ہاؤنڈز میرے خون کے پیاسے ہیں... قومی اتحاد کے لیڈروں کے پاس اتنا دماغ اور صلاحیت نہیں کہ وہ تحریک کو یہاں تک لا سکتے۔ یہ سب کچھ بہت بڑے پیمانے پر بین الاقوامی مداخلت کا نتیجہ ہے‘‘۔
بھٹو صاحب نے حالات کی سنگینی کا اندازہ کیا مگر بعد از خرابیء بسیار۔ پرو فیسر عبدالغفور احمد سمیت ان واقعات کے تمام عینی شاہد یہ گواہی دیتے ہیں کہ چار جولائی کو صرف ایک نکتے کے سوا، تمام نکات پر اتفاقِ رائے ہو گیا تھا۔ اسی رات مارشل نافذ ہو گیا۔ بھٹو صاحب یہ نہ جان سکے کہ وہ جن ریاستی اداروں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں، وہ ان کے ہاتھ سے نکل چکے۔ اب مذاکرات کا وقت گزر چکا تھا۔
بھٹو صاحب پر نواب محمد احمد خان کے قتل کا مقدمہ تھا۔ بظاہر اس واقعے کا اس قومی اور بین الا قوامی ماحول سے کوئی تعلق نہیں تھا جس کا بھٹو صاحب ذکر رہے ہیں۔ عدالت میں جو کچھ ہو رہا تھا، وہ اس سے مختلف تھا۔ اگرچہ بھٹو صاحب نے اپنے عدالتی بیان میں اس کا ذکر کیا مگر وہاں کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی۔ کہنے کو تو بھٹو صاحب کو ایک قتل کے مقدمے میں سزا ملی مگر کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا اصل جرم یہی تھا؟ عدالت کے باہر کے واقعات کیا ایک مختلف خبر نہیں دے رہے؟ کیا پاکستان کی سیاست کا کوئی طالب علم آج پورے یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ بھٹو صاحب کی پھانسی کا ملکی اور بین الاقوامی سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا؟
ان دنوں پھر ایک منتخب وزیر اعظم کے خلاف ایک مقدمہ ہے۔ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ محفوظ ہے جو کسی وقت سامنے آ سکتا ہے۔ اس پر کوئی تبصرہ کیے بغیر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ عدالتی ایوانوں سے باہر، ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ آج پھر قومی سیاست دو حصوں میں بٹ چکی۔ اس تقسیم میں شدت ہے۔ کم و بیش ویسی ہی جیسی 1977-79ء میں تھی۔ فرق یہ ہے کہ بھٹو کی جگہ نواز شریف نے لے لی۔ نواز شریف کو (سیاسی طور پر) ختم کرنے کی خواہش بے کنار ہے۔ اس کا اظہار جس طرح ہوتا ہے، وہ ہمارے سامنے ہے۔ بھٹو کی طرح نواز شریف کا کہنا بھی یہی ہے کہ انہیں ملک کی خدمت کی سزا دی جا رہی ہے۔
دو سال سے مخالفین نے نواز شریف سے نجات کے لیے دن رات ایک کیے رکھا ہے۔ دھرنے سے اس کا آغاز ہوا اور پھر اس میں شدت آتی چلی گئی۔ جب ہر حربہ ناکام ہوا تو ساری امید عدالتِ عظمیٰ سے وابستہ کر لی گئی۔ عدالت کو دباؤ میں رکھنے کی ایک حکمت عملی اختیار کی گئی۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا اس مہم میں سر تا پا مصروف ہو گئے۔ یہ ماحول بنانے کی پوری کوشش ہوئی کہ انصاف کا صرف ایک مفہوم ہے اور وہ یہ کہ نواز شریف کو مجرم قرار دے دیا جائے۔ شیخ رشید نے اسے ان الفاظ میں بیان کیا: نون یا قانون۔ عمران خان کے اپنے الفاظ یہ ہیں کہ میں سکول اس پابندی سے نہیں گیا جس پابندی سے سپریم کورٹ جاتا رہا؟ آخر کیوں؟
سیاسیات کے ایک طالب علم کی حیثیت میں، اس مر حلے پر میرے لیے چند سوالات اہم ہیں: کیا عدالت خارجی حالات سے متاثر ہوتی ہے؟ کیا عدالت پر سیاسی دباؤ ڈالا جا سکتا ہے؟ اگر ایک فرد کو معاشرے میں سیاسی عصبیت حاصل ہو تو عدالتی فیصلے کس حد تک اس پر اثرانداز ہو سکتے ہیں؟ کیا عمران خان اور دوسرے سیاسی راہنماؤں کے خلاف زیرِ سماعت مقدمات میں بھی قانون اسی جوش کے ساتھ متحرک ہو گا؟ کیا محض ایک عدالتی فیصلہ کسی ملک کی سیاست کا رخ بدل سکتا ہے؟
ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھے آج پورے اڑتیس سال ہو جائیں گے۔ ہم اگر اس مقدمے کے سیاسی، سماجی اور نفسیاتی مضمرات پر غور کریں تو کسی حد تک ان سوالات کے جواب تلاش کر سکتے ہیں۔