آئین کچھ اور ہے اور بیانیہ کچھ اور۔دونوں کے وظائف مختلف ہیں۔لہٰذا آئین بیانیے کا متبادل نہیں ہو سکتا۔
آئین ایک عمرانی معاہدہ ہے جو ایک طرف ریاست کے مختلف اداروں کے حقوق و فرائض کا تعین کرتا ہے اور دوسری طرف عوام اور ریاست کے مابین تعلقات کی نوعیت کو واضح کر تا ہے۔بیانیہ وہ تصورِ حیات ہے جو ریاستی اور سماجی رویوں کی تشکیل کرتا ہے۔ہمارا مسئلہ ایک تصورِ حیات ہے جس نے مذہب کی ایک تعبیر سے جنم لیااور پھر اس نے انسانی رویوں میں ظہور کیا۔سادہ لفظوں میں یہ تعبیر ہمیں بتاتی ہے کہ ِاس کے مطابق، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کیا تقا ضا کر تا ہے۔ ایک مسلمان کی زندگی گزارنے کے لیے کن باتوں کا اہتمام ضروری ہے۔اگر کوئی ا س تقاضے کو پورا نہیں کر تا تو دراصل وہ خدا کے ساتھ بدعہدی کر تا ہے۔اس تصورِ حیات کے زیر ِ اثر جو رویہ موجود میں آیا ،اس نے انتہا پسندی کو جنم دیا ۔اس نے تما م مسلم دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا اور بستی بستی فساد پھیلا دیا۔پاکستان اس کا بطورِ خاص ہدف بنا۔
ہماری ریاست اور سماج اس انتہا پسندی سے نجات چاہتے ہیں۔چو نکہ یہ انتہا پسندی ایک مذہبی تعبیر یا بیانیے کی دین ہے، اس لیے انہیں اس کے مقابلے میں ایک ایسے بیانیے کی ضرورت ہے جس کا نتیجہ انتہا پسندی اور فساد نہ ہو۔ریاست علما سے اسی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ علما سے اس لیے یہ کہا جارہا ہے کہ جس بیانیے نے یہ مسئلہ کھڑا کیا ہے،وہ مذہبی ہے۔لازم ہے کہ اس کا جواب بھی اہلِ مذہب کی طرف سے سامنے آئے۔ سادہ لفظوں میں اس بیانیے کا جواب دین کی دوسری تعبیر ہو گی۔یہ تعبیر دینا آئین کاکام نہیں ہے۔اس لیے آئین کی مو جود گی میں بھی بیانیے کی ضرورت باقی ہے۔
آئین اوربیانیے کے اس فرق کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ فساد لا قانونیت کا نتیجہ ہے۔لہٰذا اگر آئین اور قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنا لیا جائے تویہ فساد ختم ہو سکتا ہے۔پھر کسی جوابی بیانیے کی ضرورت نہیں۔ اسی فرق کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ صرف مذہب و مسلک کی بنیاد پر ہونے والی دہشت گردی ہی قابلِ مذمت کیوں ہے،لسانی اور علاقائی دہشت گردی کیوں نہیں۔
مجھے اس سے اتفاق ہے کہ لسانی اور علاقائی دہشت گردی ،آئین پر عمل در آمد سے بڑی حد تک کم ہوسکتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس انتہا پسندی نے اُس وقت جنم لیا جب صوبوں اور پسماندہ علاقوں کو آئین کے مطابق حقوق نہیں دیے گئے۔مذہبی انتہا پسندی کا معاملہ یہ نہیں۔یہ جس تعبیر کا نتیجہ ہے ،وہ تو کسی آئین کو تسلیم ہی نہیں کرتی۔اس دورِ جدید کو ایک بدعت قرار دیتی ہے۔یہی نہیں ،وہ اس جغرافی وحدت کو بھی غیر اسلامی سمجھتی ہے جسے ہم ریاست کہتے ہیں۔جو لوگ آئین اور ریاست ہی کو نہیں مانتے،ا نہیں آئین پر عمل در آمد سے کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟
ایک مغالطہ یہ بھی ہے کہ نو جوان جب ظلم اور لاقانونیت دیکھتے ہیں تو انتہا پسند تنظیموں کا رخ کرتے ہیں۔اگر قانون اور آئین کی پاس داری ہوتوان نو جوانوں کے رویے بدل سکتے ہیں۔یہ تصور بھی غلطی فہمی پر مبنی ہے۔انتہا پسندی آسودہ حال اور پڑھے لکھے نو جوانوں میں زیادہ ہے۔ان نو جوانوں نے وہ لٹریچر پڑھ رکھا ہے جوایک بیانیے پر مشتمل ہے۔اس میں ان سے اسلام کے مطالبات بیان کیے گئے ہیں۔اس لیے ان کا مسئلہ قانون شکنی یا آئینی شکنی سرے سے ہے ہی نہیں۔اگر ایسا ہوتا تو یورپ میں آباد مسلم نو جوانوں میں یہ انتہا پسندانہ سوچ جنم نہ لیتی۔
آئین شکنی اورلاقانونیت،اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مایوسی پیدا کرتے ہیں۔اس سے قانون ہاتھ میں لینے کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔معاشرے میں ہونے والے بہت سے منفرد واقعات کو اس کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے جب کوئی نوجوان انتقام پر اتر آتا ہے ؛تاہم اس کا اجتماعی سطح پر کم ہی ظہور ہو تا ہے۔فساد اسی وقت ایک اجتماعی اور سماجی عمل بنتا ہے جب اس کے پس منظرمیں سیاسی وسماجی اصلاح کا کوئی نظریہ ہو تاہے۔جیسے بیسویں صدی میں اشتراکیت یا قومیت کی بنیاد پر اٹھنے والی انتہا پسند تحریکیں ہیں۔
علماجب بیانیے کو مو ضوع بناتے ہیں تو بالعموم تجاہلِ عارفا نہ سے کام لیتے ہیں۔وہ اس کے سیاق و سباق کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں۔وہ جس بیانیے کا اپنے تئیں جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے بنیادی تصورات کو زیرِ بحث ہی نہیں لاتے۔وہ محض رویوں کی مذمت کرتے ہیں۔یہ رویے جس دینی تعبیر کا حاصل ہے،وہ تعبیر ان کا موضوع نہیں بنتی۔اگر یہ مان لیا جائے کہ وہ اس بیانیے سے واقف ہی نہیں تو ان کی علمی ثقاہت کے بارے میں سوال ا ٹھتا ہے اوراگر یہ کہا جائے کہ یہ گریزدانستہ ہے توپھر علمی دیانت زیر ِ بحث آ جائے گی۔
یہ مسئلہ اب مقامی نہیں رہا۔اس وقت مذہب کا جو بیانیہ انتہا پسندی کا با عث ہے ،وہ عالمگیر ہے۔یہ مشرق و مغرب میں ایک جیسی اپیل رکھتا ہے۔اس کے دلائل عرب کے لیے بھی ہیں اور عجم کے لیے بھی۔یہ قرآن مجیدسے استدلال ہو یااحادیث سے،اس کا اطلاق یکساں ہو تا ہے۔اس تعبیر کے تحت جو حکم عرب کے مسلمان حکمرانوں کے لیے ہے، وہی پاکستان کے حکمرانوں کے لیے بھی ہے۔پاکستان میں اگر آئین یا قانون پر عمل درآمد نہیں ہو تا تو اس سے مصر کے مسلم نوجوان کو کوئی فرق نہیںپڑتا۔یا بیلجیئم کا مسلمان اس آئین شکنی سے متاثرنہیں ہو تا ۔
جوابی بیانیے کو، آج لازم ہے کہ مسلمانوں کا ایک اجتماعی مسئلہ سمجھا جائے۔اسے گروہی تناظر میں نہ دیکھا جا ئے۔یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ اس سے مقصود علما یا کسی گروہ کو کٹہرے میں کھڑا کر نا ہے۔جب مذہب کی کوئی غلط تعبیر سامنے آتی ہے تو یہ علما ہی کی ذمہ داری سمجھی جا تی ہے کہ اس کی اصلاح کریں۔ امام مالک اور احمد ابن حنبل سے لے کر شیخ احمد سرہندی تک، علما یہی کام کرتے رہے ہیں۔ریاست اگر آج علما سے یہ مطالبہ کرتی ہے تو اس کی وجہ یہی ہے۔یہ کسی کو نیچا دکھانایا کسی کا عَلم بلند کر نا نہیں ہے۔ہمیں اسی جذبے کے ساتھ اس معاملے کو دیکھنا ہو گا۔
جوابی بیانیے پر مثبت بحث کے لیے، چند باتوں کی تفہیم لازم ہے۔ ایک یہ کہ مسئلہ کی بنیاد مذہب کی ایک تعبیرہے۔اس کا تعلق آئین شکنی یا لاقانونیت سے نہیں ہے۔دوسرا یہ کہ یہ تعبیر چند بنیادی مقدمات اوردینی دلائل پر کھڑی ہے۔تیسرا یہ کہ اہلِ علم کو یہ بتانا ہے کہ اس تعبیر میںدینی حوالے سے کیا غلطی ہے۔ دینی نصوص سے جو کچھ اخذ کیا گیا،وہ کیسے غلط ہے۔چوتھا یہ کہ دین کا درست مفہوم کیا ہے؟
علماآج جس چیز کو جوابی بیانیے کے نام سے پیش کر رہے ہیں، اس میں ان میں سے کسی بات کو موضوع نہیں بنایا گیا۔وہ صرف رویوں کی مذمت کرتے ہیں،اس تعبیر کو زیر ِ بحث نہیں لاتے، جن سے یہ رویے پھوٹ رہے ہیں۔میری گزارش یہ بھی ہو گی کہ وہ اس معاملے کو وسیع تر تناظر میں دیکھیں۔ اس باب میں جو کچھ کہا جار ہا ہے، اسے کسی حریف کی رائے کے بجائے، ایک نقطہ نظر کے طور پر سمجھیں۔ وہ تنقید کا پوراحق رکھتے ہیں۔ا س حق کا استعمال کرتے ہوئے،وہ اگر اس دائرے میں اپنی بات کہیں تو اس سے معاشرے کو فکری پراگندگی سے نجات میں مدد ملے گی۔میں اگلے کالموں میں انشااللہ یہ بتاؤں گا کہ اُس بیانیے کے اہم نکات کیا ہیں،ہم جس کا جوابی بیانیہ تلاش کر رہے ہیں۔