یہ حادثہ جدید تعلیم کے ایک ادارے میں پیش آیا،کسی مدرسے میںنہیں۔اس واقعے کے ذمہ داروں کا تعلق کسی خاص مذہبی تنظیم یا گروہ سے نہیں۔اس میں وہ بھی شامل ہیں جو بظاہر لبرل شناخت رکھتے ہیں۔اس سے آخر کیا ثابت ہو تا ہے؟
یہ سماج اپنی شناخت کھو چکا۔اس کا نظام ِ اقدار برباد کر دیا گیا۔ہر طرف سوختہ سامانی کا منظر ہے۔اس راکھ میں کچھ چنگاریاں دبی ہوئی ہیں جوہمیں احساس دلاتی ہیں کہ ہمارا ایک نظام ِاقدار بھی تھا۔ہماری کچھ روایات بھی تھیں۔روایات، جن کا تعلق اس خطے کے ساتھ ہے اور ہمارے مذہب کے ساتھ بھی۔آج روایت، مذہب کچھ اس طرح الجھ سے گئے ہیں کہ اس کا سرا ہاتھ نہیں آرہا۔اسے ہم مذہبی انتہا پسندی کہتے ہیں کہ اس نے مذہب کی ایک تعبیر سے جنم لیا ہے۔دوسری طرف ہمارا ماضی یہ ہے کہ مذہب نے ایک باوقارتہذیبی رویے کی آب یاری کی جوتہذیبِ نفس سکھاتا اور انسان کو اندر سے پاکیزہ بناتا ہے۔انبیا اور ان کے صحابہ سے بڑھ کر پاکیزہ اور سعید وجود چشمِ فلک نے کبھی نہیں دیکھے۔آج مذہب کے یہ دونوں تصورات خلط ملط ہوگئے ہیں ۔ کسی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ مذہب دراصل ہے کیا؟
مزید بد قسمتی یہ ہوئی کہ اس صورتِ حال کا سنجیدہ تجزیہ نہیں کیا گیا۔جب کوئی ایسی کوشش ہوئی توروایتی نظریاتی تقسیم کی نذر ہوگئی۔ہم نے مختلف گروہوں کے وکیل کی حیثیت سے اس بحث میں حصہ لیا۔کوئی مذہبی گروہ کی نمائندگی کر ررہا تھا اور کوئی لبرلز کی۔کوئی ایک مسلک کا نمائندہ بن کر اس مباحثے میں شریک ہوا تو کوئی دوسرے مسلک کا نمائندہ بن کر۔کسی نے ن لیگ کا مقدمہ پیش کیا اور کسی نے تحریکِ انصاف کے دفاع کو ضروری سمجھا۔ستم در ستم یہ کہ سماجی حوالے سے مسائل کو سمجھنے کی کوئی روایت ہم نہ بنا سکے۔ہم ہر معاملے کو مذہب کے حوالے سے دیکھتے ہیں یا سیاست کے پہلو سے۔یوں یہ کبھی حق و باطل کا معرکہ بن جا تا ہے اور کبھی روس امریکہ کی لڑائی۔اگر ہم سماجی حوالے سے حالات کا مطالعہ کرتے تو شاید اس تقسیم کی نذر نہ ہوتے جس نے ہمیں الجھا رکھا ہے۔
سماجی رویے کی تشکیل ایک اقلیتی گروہ کر تا ہے جو قیادت و سیادت کے منصب پر فائز ہو تا ہے۔یہ مذہبی رہنما ہیں، سیاسی قائدین ہیں، یہ استاد ہیں اور یہ رائے ساز افراد اور ادارے ہیں جیسے میڈیا۔مذہبی راہنماؤں نے فی الجملہ کیا کیا؟ان کے پاس مذہبی تعلیم اور سماجی تربیت کے ادارے تھے،مدرسہ اور مسجد۔مدرسہ مسلکی مبلغین تیار کرنے لگا اور مسجد کو مسلک کی ترویج کے لیے خاص کر دیا گیا یاپھر مذہبی سیاست کے علم برداروں نے اسے اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا۔اس سے مذہب کے ساتھ لوگوں کا جو تعلق قائم ہوا، وہ مسلکی تھا یا سیاسی۔اس کی تما م تربنیاد جذبات پر رکھی گئی تا کہ لوگوں میں مسلکی اور گروہی عصبیت پیدا ہو۔عصبیت کا لازمی نتیجہ انتہا پسندی ہے۔یہ دوسروں کے بارے میں عدم بر داشت پیدا کر تی ہے۔ہمارے ملک میں مذہب سے یہی کام لیا گیا۔
جنہوں نے بظاہر مذہب کو فرد کی تعمیر کے لیے خاص کیا جو اصولاً درست تھا، انہوں نے بھی اسے رسوم و مناسک اور فضائل کا دین بنادیا۔نماز اب ایک رسم بن گئی۔چھوٹی چھوٹی نیکیوں کے فضائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔جیسے 'جس نے محبت کے ساتھ اپنے پیر کو دیکھا ،اس کے گناہ معاف ہوگئے‘۔مغفرت ایک سہل عمل بن گیا جس کے لیے کسی تزکیہ نفس کی ضرورت ہے نہ سماجی رویے کی اصلاح کی۔ایک تبلیغی مشن پر اگر آپ نے دو دن گزار لیے تو تین کروڑ حج کا ثواب مل گیا۔اب کسی کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ دن رات اپنا احتساب کرے۔
سماج ا ور سماجی رویے مدرسے کا موضوع بن سکے نہ محراب و منبر کا۔ انسانی جان کی حرمت کسی دینی نصاب کا حصہ نہ بن سکی۔معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کو اٹھانا میرے دینی فرائض میں شامل نہ سکا۔لطیف جذبات کا احترام مذہب کا درس کا حصہ نہ بن سکا۔ایک عام آ دمی میں صرف مذہبی عصبیت پیدا کی گئی۔اس عصبیت کے نتیجے میں جب دین کی بنیادی اقدار مجروح ہوئیں، انسانی جان کی حرمت پامال ہوئی تو ہم نے اسے عشق اور محبت کا نام دے کر،اس کے لیے دینی جواز تلاش کیا۔
اہلِ سیاست نے سیاسی اختلاف کو دشمنی میں بدلا۔سیاست دانوں نے نوجوانوں میں ہیجان پیدا کیا۔انہیں یہ سکھایا کہ ادارے، قانون سب بے معنی ہیں۔احتجاج کا کلچر پھیلایا۔نوجوانوں کے ذہنوں کو نہیں، ان کے جذبات کو مخاطب کیا۔سیاسی جماعتوں کی ترجمانی ان کو سونپی گئی جو سب سے زیادہ دریدہ دہن اورگفتگو میں غیر محتاط تھے۔الزام کو سچ بنا کر پیش کیا۔ملک کو درپیش پیچیدہ مسائل کا سنجیدہ حل سامنے لانے کے بجائے،عوام کوبتایا کہ اگر اقتدار انہیں مل جائے تو وہ پلک جھپکنے میں سب درست کر دیں گے۔دوسروں کے خلاف نفرت اور صرف نفرت کو فروغ دیا۔
ریاست نے اگر کسی شعبے کو سب سے کم اہم جانا تو وہ تعلیم ہے۔جو تعلیم سرکار دیتی ہے ،وہ دنیاوی اعتبار سے پست درجہ ہے۔تربیت اور اخلاقیات کا سرے سے کوئی اہتمام نہیں۔نجی شعبے نے دنیاوی حوالے سے قدرے بہتر تعلیم فراہم کی لیکن تربیت کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ریاست نے نہ صرف اپنے زیرِاہتمام تعلیمی اداروں کو نظر انداز کیا بلکہ نجی تعلیمی اداروں کو بھی کھل کھیلنے کا موقع دیا۔جدید تعلیم کے ادارے منشیات کے استعمال کے سب سے بڑے مراکز بن چکے ہیں۔ان اداروں کے شعبہ اسلامیات میں جو کچھ سکھایاجا رہاہے،کسی کو اس کا کچھ اندازہ نہیں۔
رائے سازی میں میڈیا کا کردار سب سے زیادہ تشویش ناک ہے۔ کالم نگاروں سے لے کرٹی وی اینکرز تک، سب مایوسی اور انتہا پسندی کا کاروبار کر تے اور یوں بالواسطہ انتہا پسندی پھیلاتے ہیں، الا ماشااللہ۔تعلیمی اداروں کی طرح یہاں بھی کوئی روک ٹوک نہیں۔ریٹنگ ہونی چاہیے،بھلے اس کی قیمت سماج کی بر باد ی ہو۔گویا مذہب کا سوئے استعمال،ریاست کی نا اہلی،اہلِ سیاست کی موقع پرستی اورمیڈیا کی بے حسی نے مل کر جوانسان تیار کیے ہیں،وہ ہمارے سامنے ہیں۔ان ہی کو ہم نے مردان یونیورسٹی میں دیکھا۔یہی ہمیں سوشل میڈیا میں نظر آتے ہیں۔یہ رویہ اب جدید تعلیمی ادارے یا مدرسے کے ساتھ خاص نہیں ہے۔یہی لوگ لبرل ہو جائیں تو 'بھینسے‘ بن جاتے ہیں اور مذہب کی طرف آنکلیں تولاشوں کامثلہ کر دیتے ہیں۔
آج ہمیں گروہی عصبیتوں سے نکل کر خود کو سماج کے ایک رکن کے طور پر دیکھنا ہوگا۔دنیا کو کوئی سماج مذہبی یا سیاسی پہلو سے یک رخا نہیں ہو تا۔اس میں اختلاف ا ور تنوع ہو تا ہے۔یہ تنوع حسن ہے اگر ہم اختلاف کوسماجی نقطہ نظر سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔اس کے لیے ہمیں سماج کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔ عمرانیات ایک سائنس ہے۔اسے سمجھنا ہوگا۔ہمارے تجزیہ نگار جب تک اس بات کو نہیں سمجھیں گے،وہ درست تجزیہ نہیں کر سکتے۔
اہلِ مذہب عشق و محبت کے نام سے اگرانتہاپسندی کی توجیہہ کریں گے، سیاسی راہنما اگر ہیجان کی سیاست کریں گے، ریاست اگر تعلیم جیسے اہم شعبے کو نظر انداز کرے گی،مصلحین اگر نظامِ اقدار اور رویوں کے بجائے ،انفرادی عبادات اور ان کے فضائل تک محدودرہیں گے، میڈیااگراپنی مفاد کی عینک سے سماج کو دیکھے گا، رائے ساز اگر بے علمی کے ساتھ معاشرے کی راہنمائی کریں گے تو ہماری یہ مذمت اور آنسو بہانا سب بے کار جائے گا۔پھر کوئی حادثہ آخری حادثہ نہیں ہوگا۔اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت میں رحم کی طلب ہے۔