چترال کے امام مسجد کا ذکر کیا تاریخ میں محفوظ رہ جائے گا؟
خبر یہ ہے کہ ہجوم ایک مرفوع القلم کے درپے ہوا۔ قریب تھا کہ وہ اس کی مذہبی جنونیت کی بھینٹ چڑھ جاتا۔ مسجد کے خطیب اور امام نے ہجوم کو روکا اور پولیس کو طلب کر تے ہوئے اسے قانون کے حوالے کر دیا۔ یہ امام میرے نزدیک سماجی تبدیلی کی ایک علامت ہے۔ ان گنت خبریں ہیں جو سماجی زوال کی نشان دہی کر رہی ہیں۔ اس خبر سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک پیش رفت ایسی بھی ہے‘ جو مثبت سمت میں جا رہی ہے۔
مشال خان کے قتل کے بعد علما کے ایک بڑے طبقے نے اس وحشیانہ فعل کی مذمت کی۔ اسے بہیمانہ قرار دیا۔ انہوں نے بالاجماع یہ کہا کہ کسی ملزم کو مجرم قرار دینا یا مجرم کو سزا دینا ہجوم یا عام آدمی کا کام نہیں۔ ملک میں قانون موجود ہے۔ اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ ایک شخص قانون کی زد میں آتا ہے تو اسے اپنا مقدمہ عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ مفتی تقی عثمانی صاحب، مفتی محمد نعیم صاحب، راغب نعیمی صاحب، سب نے مردان یونیورسٹی کے واقعے کی مذمت کی اور قاتلوں کی پشت پناہی سے انکار کر دیا۔
ہماری فقہی روایت میں بطور اصول تسلیم کیا گیا ہے کہ حدود کا نفاذ اور جہاد، دونوں کا تعلق ریاست کے ساتھ ہے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی فرد پر حد کا نفاذ کرے۔ اسی طرح جہاد بھی کبھی پرائیویٹ مسئلہ نہیں تھا۔ کچھ لوگوں نے، جو خود کو روایتی کہتے ہیں، ایک نئی تعبیر اختیار کی اور بعض مسائل کو ریاست کے دائرے سے نکال دیا۔ ان میں جہاد اور توہینِ رسالت دونوں شامل ہیں۔ اس پر مزید خرابی یہ ہوئی کہ جیّد علما نے اس نئی سوچ کی، نہ صرف کھل کر مخالفت نہیں کی بلکہ بالواسطہ اپنا وزن ان کے حق میں ڈال دیا جنہوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ توہینِ رسالت کے باب میں بعض علما نے جس طرح اپنا فقہی مؤقف واضح نہیں کیا یا اسے چھپایا، اس نے نہ صرف معاشرے میں ابہام پیدا کیا بلکہ اس سے قانون کا اپنے ہاتھ میں لینا روزمرہ بنتا چلا گیا۔ جہاد کے باب میں خود ریاست نے اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں تساہل اور غفلت برتی بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی۔ یہ تساہل ایک معاشرتی المیے میں بدل گیا۔
اس پس منظر میں یقیناً خوشی کی بات ہے کہ کوئی بارش کا پہلا قطرہ بناہے۔ چترال کے امام مسجد نے جس طرح عوامی جذبات کا سامنا کیا اور ایک بڑے المیے کو روکا، اس پر اللہ کے ہاں تو یقیناً ان کا اجر ہو گا لیکن میرا احساس ہے کہ بہت سے ایسے لوگوں کو بھی تقویت ملے گی‘ جن پر معاملے کی نوعیت واضح ہے اور وہ صرف خوف کے باعث اس کا اظہار نہیں کر پاتے۔ یہ وہ سماجی مزاحمت ہے جو تبدیلی کو جنم دیتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ ایک عمومی رویے میں بدل جائے گی۔
علما کا سماجی کردار کیا ہے؟ قرآن مجید نے بتایا ہے کہ ایک قوم میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہونے چاہییں جو تفقہ فی الدین حاصل کریں‘ اور اس کے بعد قوم کو انذار کریں۔ انذار کا مطلب لوگوں کو آخرت کے بارے میں خبردار کرنا ہے۔ گویا علما کی ذمہ داری یہ ہے کہ جب وہ کوئی ایسا کام دیکھیں جو دین کے خلاف ہے تو متعلقہ فرد یا گروہ کو اس کی جانب توجہ دلائیں۔ اگر ایک حکمران اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں غفلت کا مرتکب ہوتا ہے‘ تو وہ اسے متوجہ کریں۔ بایں ہمہ ایک عامی اس باب میں غفلت کا مرتکب ہے تو وہ اسے بھی خبردار کریں کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کرے جس کے بدلے میں وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں سے ہو جائے۔
علما کی دینی ذمہ داری بس یہی ہے۔ بالفعل لوگوں کو دین کا پابند بنانا ان کا کام نہیں۔ ہمارے ہاں علما کا ایک طبقہ اس سے آگے بڑھ کر اقتدارکی سیاست میں فریق بن گیا۔ جب انہیں اس جانب توجہ دلائی گئی تو انہوں نے اسے دین اور سیاست کی جدائی قرار دیا۔ در اصل یہ دین اور سیاست کی نہیں، علما اور سیاست کی جدائی کی بات ہے۔ اس امت کے علما نے خود کو یہیں تک محدود رکھا ہے۔ امام ابو حنیفہ سے لے کر امام احمد ابن حنبل تک، کوئی اقتدار کی جنگ میں فریق نہیں تھا۔ سب انذار کرنے والے تھے۔ مسلم تہذیبی روایت میں دین کے علما کو ہمیشہ احترام کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اقتدار کی سیاست میں کبھی فریق نہیں بنے۔
جب سے علما نے وزیر اعظم اور رکن اسمبلی بننے کا خواب دیکھنا شروع کیا ہے، صورتِ حال تبدیل ہو گئی ہے۔ ان کے پاس چونکہ مذہب کی طاقت ہے‘ تو وہ اسے استعمال کرتے ہوئے عوام کو اپنے پیچھے لگانا چاہتے ہیں۔ اس کی بنیاد پر عوامی جذبات کو بھڑکاتے ہیں۔ اس سے دین کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس کے ساتھ اب علما بھی اُسی طرح استہزا کا نشانہ بنتے ہیں جیسے سیاست دان۔ اب وہ معاشرے سے اس احترام کا مطالبہ نہیں کر سکتے جو انہیں تاریخ میں حاصل رہا۔ آج بھی جو خود کو اس سیاست سے الگ رکھتے ہیں، سماج میں بلا امتیاز عزت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔
توہینِ مذہب کے باب میں آج شدید ضرورت ہے کہ لوگوں کے سماجی رویوں کی اصلاح کی جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ پاکستان میں اس کے لیے ایک قانون مو جود ہے۔ دینی نقطہ نظر سے، یہ حق صرف حکومت کو ہے کہ وہ کسی کو مجرم ثابت کرے اور پھر اس پر سزا دے۔ اگر کسی کے خلاف آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے تو اسے عدالت میں لے جائیں اور وہاں اپنا مقدمہ پیش کریں۔ اس کے بعد یہ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مجرم کو سزا کا مستحق ٹھہرائے یا چھوڑ دے۔
علما کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ علمی اختلاف کو گلی بازار کا موضوع نہ بننے دیں۔ ہمارے ہاں یہ رواج ہو چلا ہے کہ اگر کوئی کسی روایتی موقف سے اختلاف کرتا ہے تو اس کے خلاف عوام کو اشتعال دلایا جاتا ہے۔ اُسے اکثر توہینِ مذہب کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے۔ جس معاشرے میں توہینِ مذہب کے نام پر دوسروں کی جان لینا اعزاز سمجھا جاتا ہو، اس معاشرے میں یہ ایک خطرناک رحجان کو فروغ دینا ہے۔ اس کا مطلب دوسروں کی جان ومال کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ علما اگر کسی رائے کو غلط سمجھتے ہیں تو یہ ان کی دینی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے فہم کے مطابق اس کی غلطی واضح کریں اور علمی سطح پر اس کا ابلاغ کریں۔ جب بات اس سے بڑھ جاتی اور فتویٰ بازی شروع ہو جاتی ہے تو اس سے بہت سے لوگوں کے جان و مال خطرات میں گھر جاتے ہیں۔
یہ دونوں باتیں، یعنی ایک قانون کو ہاتھ میں لینے کی مذمت نہ کرنا اور دوسرا علمی اختلاف کی بنیاد پر اشتعال پیدا کرنا، ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اسی سے مذہبی عدم برداشت اور فرقہ واریت‘ پیدا ہوتے ہیں‘ جن کا لازمی نتیجہ تشدد ہے۔ اس رویے کی اصلاح صرف علما کر سکتے ہیں۔ اگر وہ خود کو انذار کی ذمہ داری تک محدود رکھیں تو جہاں اس سے معاشرے میں مذہبی تشدد پیدا نہیں ہو گا وہاں علما کا وہ کھویا ہوا وقار بھی بحال ہو جائے گا‘ جو انہیں تاریخ میں حاصل رہا ہے۔
چترال کے خطیب نے ایک جرات مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے، مذہب کے نام پر قانون کو ہاتھ میں لینے کو روکا ہے۔ وہ پوری قوم کی طرف سے تحسین کے مستحق ہیں۔ قوم کے ساتھ ریاست کو بھی ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی۔ کیا ہی اچھا ہو اگر اس جرات پر ان کے لیے تمغہ امتیاز کا اعلان کر دیا جائے۔