ٹویٹ کے الفاظ اور لب و لہجے کا ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے جو چوہدری نثار صاحب نے بیان کر دیا ہے:جمہوریت کے لیے زہرِ قاتل۔مجھے حیرت ہے کہ لوگ اس لہجے اور اسلوب کا دفاع کر رہے ہیں۔ہمارے کالم اور گفتگوقرآن و حدیث کے حوالوں سے مملوہوتے ہیں ۔اسی قرآن کا حوالہ جس نے کہا :کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس حال تک نہ لے جائے کہ تم عدل سے کنارہ کر لو۔ قوم کی دشمنی؟ یہاں تومعاملہ اپنے ہم قوم بلکہ منتخب وزیراعظم کا ہے۔
حفظِ مراتب ایک سماجی قدر ہی نہیں،ایک سیاسی نظام کی اساس بھی ہے۔بیٹا باپ یا بیوی خاوند کے منہ کو آئے تو خاندان باقی نہیں رہتا۔ قرآن مجید نے خاوند کو گھر کا' قوام‘ کہا ہے جس کا ایک مطلب 'سربراہ ‘بھی ہے۔ریاست کا معاملہ بھی خاندان کی طرح ہے۔آئین اور قانون نے طے کر دیا ہے کہ کون کس کے ماتحت اور کون کس کو جوا ب دہ ہے۔یہ حفظِ مراتب بر باد ہو جائے توخاندان کی طرح ریاست بھی باقی نہیں رہتی۔دیکھنے میںتو خاندان بھی 'باقی‘ ہوتے ہیں جب بیوی خاوند کی اتھارٹی کو ماننے سے انکار کر دے،جسے قرآن مجید' نشوز‘ کہتا ہے۔یہ تعلق لیکن پھر علامتی ہی ہوتا ہے۔ محلے اوربرادری کی رائے کچھ اورہوتی ہے۔ کیا ہم اپنی ریاست کو بھی ایسا ہی خاندان بنا دینا چاہتے ہیں؟
ہم مٹی ڈالنے کی بہت کوشش کرتے ہیں مگر جو بیچ بویا جا چکا ،اس کی کونپلیں پھر نکل آتی ہیں۔ہمارا اصل مسئلہ سول ملٹری تعلقات کا عدم توازن ہے۔سوال بہت سادہ ہے:حکومت فوج کی ہدایت پر اپنی ترجیحات طے کرے گی یافوج حکومت کی طے شدہ ترجیحات کے مطابق کام کرے گی ؟حکومت اداروں کے مشورے سے بے نیاز نہیں ہو سکتی اور میرے علم میں نہیں ہے کہ کوئی منتخب حکومت بے نیاز ہو ئی ہے۔یہ زرداری صاحب کی حکومت ہو یا نوازشریف کی، کبھی کسی نے دفاعی اور سلامتی کے امور میں فوج کی سفارشات سے صرفِ نظر نہیں کیا۔اس کے شواہد مو جود ہیں کہ ایک ادارے نے دوسرے کے وجود کو بے معنی سمجھا جیسے کارگل کا اقدام ،لیکن ایسی کوئی گواہی مو جود نہیں ہے کہ مسئلہ ملک کے دفاع یا سلامتی کا ہواور فوج کو نظر انداز کیاگیا ہو۔
پاکستان کے آئین میں لکھا ہے کہ یہاں کا نظام پارلیمانی جمہوریت کی اساس پر قائم ہے۔اسی آئین کو سامنے رکھتے ہوئے،ایک پروٹوکولزفہرست(Warrant of Precedence) میں مراتب طے کر دیے گئے ہیں۔صدر ریاست اوروزیراعظم حکومت کا سر براہ ہے۔تمام ادارے اس کے ماتحت ہیں۔فوج وزارتِ دفاع کے تحت ایک ادارہ ہے۔پاکستان میں باوجوہ مراتب(Protocol) کا یہ نظام اصل صورت میں بر قرار نہیں رہ سکا۔بار بار مارشل لا کے نفاذ اور سلامتی کے مسائل کی اولیت کے باعث، فوج کی اہمیت بڑھ گئی۔آرمی چیف کو وزیراعظم جتنی حیثیت دے گئی۔حکومتوں نے زبانِ حال سے اسے قبول کر لیا۔اس سے عام آ دمی کی نفسیات بھی یہی بنی کہ اقتدار کا اصل مرکزوزیراعظم نہیں، اسٹیبلشمنٹ ہے۔پاکستان میں پڑھا لکھا کہلوانے والا بھی یہی سمجھتا ہے۔یہ بات جنرل راحیل شریف صاحب کے دور میں زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آئی۔
کئی بار ٹویٹ سے یہ معلوم ہوا کہ یہ معاملہ ایک عام آ دمی کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ایک اعلیٰ سطح کا افسر بھی یہی سمجھتا ہے کہ وزیراعظم اسٹیبلشمنٹ کے ماتحت کوئی منصب ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بیک جنبشِ قلم اس کے احکامات کو مسترد کر دے۔اس کو بھی ضروری نہیں سمجھتا جاتا کہ کوئی اس کے لیے دفتر جائے ،لیٹر پیڈ تلاش کرے،سرکاری آداب کے تحت کوئی خط ڈرافٹ کرے،اس پر دستخط کرے،مہر لگائے اور Through Proper Channel اسے بھیج دے۔اس کے لیے یہی کافی سمجھا گیا کہ گھر بیٹھے وزیراعظم کے احکامات پر،ہوا کے دوش پرہی،دو حرف بھیج دیے جائیں۔
عام آ دمی کے اس فہمِ آئین کو تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے مگر ادارے یہ بات کہیں تو اس کو نظر انداز کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں کوئی نظام موجود نہیں ہے۔کوئی بھی وزیراعظم کے احکامات کو مسترد کر سکتا ہے اور اس کی باز پرس نہیں کی جا سکتی۔کل اگر ایف بی آر یانیب یا کوئی دوسرا ادارہ وزیراعظم کے احکامات کومسترد کر دے تو اسے کس قانون اور اخلاقیات کے تحت روکا جا سکتا ہے؟یہ معاملہ اداروں کے مابین تصادم کا نہیں ہے۔یہ وزیراعظم ہو یا کوئی اور،سب کو منصب کسی قانون کے تحت ملتے ہیں۔ قانون جب منصب دیتا ہے تو حقوق و فرائض بھی طے کر دیتا ہے۔اس قانون میں کہیں لکھا ہوگا کہ کوئی اس طے شدہ دائرے کو چیلنج کرے تو قانون کو اس کے ساتھ کیا معاملہ کر نا چاہیے۔لازم ہے کہ یہ قانون اب متحرک ہو۔وزیراعظم کے احکامات کو ایک عام شہری بھی چیلنج کر سکتا ہے مگر قانون میں اس کے آداب بیان کرد یے گئے ہیں۔
اس باب میںسیاسی جماعتوں کا رویہ کم از کم الفاظ میں افسوس ناک ہے۔کاش میں اس کے لیے زیادہ سخت لفظ استعمال کر سکتا۔انہوں نے اسے محدود سیاسی مفادات کے دائرے میں دیکھا ہے۔ایک سیاسی حریف کو گرانے کی پست خواہش کا غلبہ ہے جو جمہوریت کے لیے ہمیشہ زہرِ قاتل رہی ہے۔ماضی میں نوازشریف صاحب بھی اسی سیاست کا حصہ تھے۔تاہم اہلِ سیاست نے اگر ایک دوسرے کا ماضی سامنے رکھ کر حکمتِ عملی طے کی اور جمہوری روایات کو نظر انداز کیا تو اس ملک میں کبھی جمہوریت مستحکم نہیں ہو سکتی۔سیاسی جماعتوں کو سمجھناچاہیے کہ نوازشریف کو شکست دینے کا اصل میدان عوام کی عدالت ہے۔سیاست دان اسی وقت مرتا ہے جب عوام اسے نظروں سے گرا دیں۔اس کے علاوہ اسے مارنے کی ہر کوشش اسے نئی زندگی دیتی ہے۔ بھٹو صاحب کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
یہ فوج بمقابلہ نواز شریف کوئی مقدمہ نہیں ہے۔فوج بطور ادارہ ،ہمیں جان سے عزیز ہے۔خارجی اور داخلی دشمنوں کے خلاف یہ ہماری ڈھال ہے۔ کوئی احمق اورخود کش حملہ آور ہی ہو گا جو اس ادارے کے درپے ہو گا۔اس کو نقصان پہنچانے کا مطلب خود کو نقصان پہنچانا ہے۔ میں اس میں مزید اضافہ کرتا ہوں کہ منتخب حکمران بھی ایک ڈھال ہوتا ہے۔دنیا کے سامنے پاکستان کی ڈھال پاکستان کا وزیراعظم ہے۔اس کے منصب کو نقصان پہنچنا بھی خود کشی اور خود کو نقصان پہچانا ہے۔لوگ سوال کرتے ہیں:دنیا میں یہ کہاں ہو تا ہے کہ لوگ فوج کے خلاف یوں بولتے ہوں؟ میرا سوال ہے:دنیا میں کہاں ہوتا ہے کہ لوگ منتخب وزیراعظم کے احکامات کو یوں سرِ عام مسترد کرتے ہوں؟
مسئلہ وہی ہے:سول اور فوج کے تعلقات کا عدم توازن۔اس کو حفظِ مراتب کے اصول کے تحت ہی حل ہو نا چاہیے۔یہ اصول گھر میں نظر انداز ہو تو خاندان باقی نہیں رہتا۔ریاست کے نظم میں نظر انداز ہو تو ریاست باقی نہیں رہتی۔یہ عدم توازن ہی زہر قاتل ہے۔آج اس پر قومی اتفاق پیدا کر نے کی ضرورت ہے۔وزیراعظم کو اس پر بیان بازی نہیں کرنی، اقدام اٹھانا ہوگا۔اگر نوازشریف صاحب کا خیال ہے کہ ان کے احکامات کے ا س طرح سر ِعام مسترد کیے جانے کے بعد بھی ،دنیا ان کو پاکستان کا با اختیاروزیراعظم سمجھے گی تو ان کی مرضی!دنیا کا معاملہ مگر یہ نہیں ہے۔وہ اسی سے معاملہ کرتی ہے ،جس کے بارے میں اسے خیال ہوتا ہے کہ قوتِ نافذہ اور اختیار رکھتا ہے۔