رومان نے اپنے پاؤں سیاست کی سنگلاخ زمین پر رکھ دیے ہیں۔ اب اسے برہنہ پا چلنا ہے۔ رومان کا مقدر یہی ہے۔
تنہا پسِ زنداں، کبھی رسوا سرِ بازار
عمران خان کے گرد رومان کا ہالہ تھا۔ اسے مہارت سے ایک سیاسی رومان میں بدلا گیا۔ سیاست مگر ایک مختلف مزاج رکھتی ہے۔ وہ ہوا میں معلّق نہیں رہ سکتی۔ اسے زمین پر چلنا ہوتا ہے۔ ایک نہیں بیسیوں مثالیں ہیں کہ کیسے سیاسی رومان زمین حقائق کے ساتھ مصالحت پر مجبور ہوا یا پھر ایک المیے میں ڈھل گیا۔
نظریاتی سیاست بھی ایک رومان پر کھڑی ہوتی ہے۔ یہ نظریہ ہی تھا جو رومان کو سیاست میں لایا۔ سرخ انقلاب یا سبز انقلاب کا نعرہ دراصل ایک خیالی جنت کی تلاش میں نکلے نظریاتی لوگوں کا زادِ راہ تھا۔ سرخ انقلاب برپا ہو گیا۔ پھر لوگوں نے دیکھا کہ کیسے اس کی کوکھ سے تاریخ کے بدترین استبداد اور ریاستی ظلم نے جنم لیا۔ سبز انقلاب کے اکثر علم بردار تو منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی راستے کی دھول بن گئے یا پھر ایک المیہ داستان کا عنوان۔ کہیں منزل ملی بھی تو پاپائیت میں ڈھل گئی۔ نظریاتی سیاست کا یہ دور تمام ہوا اور ساتھ ہی انقلاب کا تصور بھی قصہء پارینہ بن گیا۔
عمران خان کے پاس دو راستے تھے۔ ایک یہ کہ اپنی مقبولیت کو ایک سماجی تبدیلی کی بنیاد بنا دیتے۔ وہ اس لحاظ سے خوش بخت تھے کہ سیاسی مصلحتوں سے زیادہ آلودہ ہوئے بغیر انہیں ایک بڑی کامیابی مل گئی تھی۔ وہ ایک صوبے میں حکومت بنانے میں کامیاب رہے۔ اگر وہ اخلاقی بنیادوں پر کھڑے رہتے اور شعوری تبدیلی کی کوشش میں خود کو صرف کر دیتے تو ایک ارتقائی اور سماجی تبدیلی کے نتیجے میں سیاسی تبدیلی بھی آ جاتی۔ اگر اُن کے ہاتھوں نہ آتی تو کوئی اور یہ علم تھام لیتا، یہاں تک کہ حقیقی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو جاتا۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ وہ عجلت کرتے۔ اقتدار کو اپنی منزل ٹھہراتے اور سیاسی مصلحتوں کے سامنے سر نگوں ہو جاتے۔ انہوں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔ اس کی ایک قیمت ہے اور وہ رومان کی موت ہے۔
گزشتہ دنوں جس شہرت کے لوگ تحریکِ انصاف میں شامل ہوئے، اس سے یہ بات آخری درجے میں ثابت ہو گئی کہ تحریکِ انصاف بھی ویسی ہی ایک سیاسی جماعت ہے، جس طرح دوسری جماعتیں ہیں۔ اب اس بات کو کم و بیش سب نے مان لیا۔ انہوں نے بھی جو کئی برس عمران کے گرد رومان کا ہالہ بنتے رہے۔ میری طرح انہیں بھی افسوس ہے کہ وہ کانِ نمک میں جا کر نمک ہو چکے۔ اب یہ بحث اپنے اختتام کو پہنچی کہ ایک طرف فرشتے ہیں اور دوسری طرف شیطان۔ اب سوال محض اتنا ہے کہ ایک جیسے لوگوں میں قدرے بہتر کون ہے؟ میں سالوں سے یہ بات لکھ رہا ہوں۔ یہ تاریخ کا جبر ہے کہ اب سب اس کا ادراک کر رہے ہیں۔ میں نے لکھا تھا کہ پاکستان میں ایک جماعت ہے جس کے تین دھڑے ہیں یعنی پیپلز پارٹی، ن لیگ اور تحریکِ انصاف۔
ایک واہمہ (Myth) باقی تھا کہ عمران خان ذاتی طور پر دیانت دار آ دمی ہیں۔ یہ بات میری سمجھ میں کبھی نہیں آ سکی کہ یہ ذاتی دیانت کس چڑیا کا نام ہے؟ یہ کیسے طے ہوتی ہے؟ اگر کوئی سیاسی مخالفین کے معاملے میں سچ اور جھوٹ میں تمیز نہ کرے۔ لوگوں کو حق و باطل نہیں، ذاتی وابستگی کے پیمانے پر پرکھے۔ ایک کے عیب چھپائے اور دوسرے کے عیب نہ صرف تلاش کرے بلکہ الزامات کو مصدقہ حقائق بنا کر پیش کرے‘ تو کیا اس کے بعد بھی اس کی ذاتی دیانت باقی رہتی ہے؟
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان نے کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ میرا کہنا ہے کہ کرپشن کے خلاف نہیں، نواز شریف کی مبینہ کرپشن کے خلاف۔ اگر وہ کرپشن کے خلاف آواز اٹھاتے تو نذر محمد گوندل سمیت بہت سے دوسرے بھی اس کی زد میں ہوتے۔ جمعہ کے اخبارات میں چھپنے والے کم از کم تین کالم ان کے اور ان کے بھائی کے خلاف مبینہ کرپشن کی داستانوں سے مملو ہیں۔ ان مقدمات کی تفصیل اخبارات میں بیان ہوئی ہیں جو ان کے خلاف قائم ہیں۔ کیا عقل باور کر سکتی ہے کہ یہ سب کچھ عمران خان کی نظروں سے اوجھل ہے؟ اس کے بعد کون سی ذاتی دیانت باقی رہتی ہے؟ اب تو ان کے خیر خواہ بھی یہ لکھنے پر مجبور ہیںکہ 'آ دمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے‘۔ یوں ذاتی ایمان داری کا واہمہ بھی اپنے انجام کو پہنچا۔
یہ اقتدار کا بے رحمانہ کھیل ہے جو ہمارے سامنے جاری ہے۔ اس کے بہت سے کردار ہیں۔ ہمیں انہی میں سے انتخاب کرنا ہے۔ یہ ایک اجتہادی امر ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی جمع تفریق کرتا اور پھر کسی ایک کے حق میں فیصلہ دیتا ہے۔ رائے قائم کرتے وقت اس بات کا پورا امکان ہے کہ ہم غلطی کریں۔ اگر سیاسی کارکن اور عام آدمی اس بات کو سمجھ جائے تو سیاست میں وہ تلخی نہ آئے جو اس وقت موجود ہے۔ میری عمران خان پر اصل تنقید یہی ہے کہ انہوں نے ہیجان کی ایسی فضا پیدا کر دی ہے جس نے لوگوں سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لی ہے۔ وہ اس ہیجان میں آئے دن اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں کہ ان کے خیال میں ان کے سیاسی مفادات اسی کے متقاضی ہیں۔ یہ عوام کو سوچنا ہے کہ کیا وہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا لوگوں کی جنگ میں گھاس کی طرح کچلے جائیں یا اپنا وجود سلامت رکھیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ آپ نواز شریف کی کرپشن کا ذکر نہیں کرتے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ میں کسی مبینہ کرپشن کا ذکر نہیں کرتا۔ میں نے تو ڈاکٹر عاصم اور عزیر بلوچ کے انکشافات پر بھی کچھ نہیں لکھا۔ میں کسی ایک ایسے اہم سیاست دان کو نہیں جانتا جس پر کرپشن کا الزام نہ ہو۔ لوگوں کو شاید یاد نہیں کہ عمران خان نے اپنی مہم کا آ غاز گجرات کے چوہدریوں کی مبینہ کرپشن کے خلاف کیا تھا۔ میں نے تو ان کی اس 'کرپشن‘ کے خلاف بھی نہیں لکھا۔ میں نے اگر کبھی حوالہ دیا تو ایک جوابی دلیل کے طور پر، اسے بطور مفروضہ قبول کرتے ہوئے۔ کرپشن کے باب میں میری رائے مختلف ہے اور میں اس پر لکھتا رہا ہوں۔
کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کا اٹوٹ انگ ہے۔ اسلحہ فروشوں کی طرف سے اپنا مال بیچنے کے لیے جنگ کے شعلے بھڑکانا بھی کرپشن ہے۔ اشتہار بازی سے معاشرے میں مصنوعی طلب پیدا کرکے اپنی مصنوعات بیچنا بھی کرپشن ہے۔ ہر وہ عمل جس سے کوئی اخلاقی ضابطہ مجروح ہوتا ہے، وہ کرپشن ہے۔ دنیا میں آج کل کرپشن ایک موضوعی تصور بن چکی ہے۔ ہمارے ہاں بھی کرپشن صرف مالی امور میں ناجائز کام کا نام رہ گیا ہے۔ ہم نے مغرب کی طرح ذاتی اخلاقیات کو کرپشن کے دائرے سے نکال دیا ہے۔ مرد و زن کا آزادانہ تعلق ہمارے خیال میں کرپشن میں شامل نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ کرپشن کا تعلق سماجی رویے سے ہے۔ جو سماج اعلیٰ اخلاقی اقدار پر استوار نہ ہو، اس میں محض سیاسی تبدیلی سے کرپشن کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ سماج کو اخلاقیات کے باب میں حساس بنائے بغیر سیاست کرپشن سے پاک نہیں ہو سکتی۔ کرپشن کے خلاف کام کا اصل میدان یہی ہے۔
میں سیاست کو ایک ایسے عمل کے طور پر دیکھتا ہوں جو سماج کے نظام ِاقدار کے تابع ہے۔ سب ایسا ہی کرتے ہیں۔ کچھ میری طرح شعوری طور پر اور کچھ بے شعوری میں۔ ہم اگر عمران خان کی سیاست کو شعوری طور پر دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ رومان وفات پا چکا۔ اب وہ سیاست باقی ہے جو ہمارے نظامِ اقدار سے پھوٹی ہے۔ سیاست کو زمینی حقائق کی سنگلاخ زمین ہی پر چلنا ہوتا ہے۔ ہمیں فرشتوں اور شیطانوں میں نہیں انسانوں میں انتخاب کرنا ہے۔ اگر ہم اس حقیقت کا اعتراف کر لیں تو اس ہیجان سے نکل آئیں گے جن میں اہلِ سیاست نے ہمیں مبتلا کر رکھا ہے۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ اس کے بعد معاشرہ حالتِ سکون میں آ جائے گا۔