"KNC" (space) message & send to 7575

ریمنڈ ڈیوس کی کتاب

ریمنڈ ڈیوس۔۔۔جذبات نگاری کے لیے ایک نیا موضوع ہاتھ آگیایا یوں کہیے کہ ایک پرانا موضوع پھر زندہ ہو گیا۔اکثر حیرت سے سوچتا ہوں:انفرادی زندگی میں قدم قدم پرحقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنے والے، قومی زندگی میں مثالیت پسند کیوں بن جا تے ہیں؟ہماری قومی تاریخ ایسے واقعات سے مملو ہے۔ضعیفی کی ایک قیمت ہے جو بہر حال ادا کر نا پڑتی ہے۔ہمارا معاملہ یہ ہے کہ اِس ضعف کا علاج کیے بغیر اکھاڑے میں اترناا ور رستمِ زماں کو چیلنج کر نا چاہتے ہیں۔جب حکمران یہ نہیں کرپا تے توجذبات نگار میدان میں اترتے اور میر انیس کی روایت کو زندہ کرتے ہیں۔وقت کے 'یزید‘کو کٹہرے میں کھڑا کیا جا تا ہے۔مقدور ہو تو سزا دی جاتی ہے اور ایک نیا' یزید‘ تخت نشین ہو جا تا ہے،یہاں تک کہ وہ بھی اسی انجام کا شکار ہو کر قصہ پارینہ بن جا تا ہے۔وقائع نگاری میر انیسوں کے ہاتھ میں رہے گی تو یہی ہو تا رہے گا۔
کیا ریمنڈ ڈیوس کا حادثہ دو مئی کے حادثے سے بڑا ہے جب ہماری بے خبری میں اسامہ بن لادن کو، ہمارے ہی گھر میں مارا گیا؟افغان جنگ کے دنوںمیں یہ ملک جس طرح امریکیوں کے لیے 'دوسرا گھر ‘تھا،کیا ہم اسے بھول گئے؟پھر یہ ملک برسوںنیٹو کی گزر گاہ رہا۔کیا ماضی قریب کا یہ واقعہ ہماری یاداشت سے محو ہو گیا؟بے مغزجذبات نگاری وہ نو حہ گری ہے جو آنکھوں کو نم کرنے کے سوا کسی کام کی نہیں۔قوم کو اپنی تعمیر کے لیے ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی جو اس کا ہاتھ پکڑکر انہیں حقائق کے سامنے لا کھڑا کریں۔یہ کام مرثیہ نگاری سے نہیں،حقیقت نگاری سے ہوتاہے،وہ حقیقت نگاری جس کی پشت پر قوموں کے عروج و زوال کا وسیع مطالعہ ہو تا ہے۔
پاکستان اگرڈیوس کو امریکہ کے حوالے نہ کرتا تو کیا کر تا؟کیا اس کے پاس کوئی متبادل تھا؟عمران خان عسکری اور سیاسی قوت کو کوس رہے ہیں۔اگر وہ ہوتے تو کیا کرتے؟کیا ڈیوس کو روک کر ملک کو کسی بڑے عذاب میں مبتلا کرتے؟ہمارے پاس متبادل وہی تھا جو ملا عمر نے اختیار کیا۔کیا پاکستان کو افغانستان بنا دینا عقل مندی ہوتی؟ غیرت کا یہ تصور نہ مذہب میں ہے نہ عقل میں۔یہ ان قبائلی روایات کا حصہ ہے جن سے نجات دلانے کے لیے پیغمبر آئے یا مدبر کھڑے ہوتے ہیں۔لیڈر اس لیے نہیں ہوتے کہ قوموں کو عذاب میں مبتلا کریں۔وہ اس لیے ہوتے ہیں کہ انہیں عذاب سے نکالیں۔
کارگل کا حادثہ ہو گیا،پاکستان کو لینے کے دینے پڑ گئے۔وہ جو ڈرتے ورتے نہیں تھے، نوازشریف سے ملتمس ہوئے کہ انہیں اس عذاب سے نجات دلائیں۔نوازشریف کو درخواست کے ساتھ واشنگٹن حاضری دینا پڑی۔اُس وقت بعض لوگ سیخ پا تھے۔آئی ایس آئی کے ایک ریٹائر ڈڈائریکٹر جنرل نے میری مو جودگی میں،ایک تقریب میں یہ کہا کہ نوازشریف پر غداری کا مقدمہ چلا یا جا ئے۔دلچسپ بات ہے کہ اسی تقریب میں ائر مارشل اصغر خان نے سوال اٹھایا کہ کوئی مجھے یہ سمجھا دے کہ کون سا راستہ ہے جو کارگل سے سری نگرکو جا تا ہے؟ 
اجتماعی مفاد کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں۔قوموں کی زندگی میں یہ وقت آتا ہے کہ لیڈر کے سامنے کوئی مثالی حل مو جود نہیں ہو تا۔اسے موجو راستوں میں سے کم پُر خطر راستے کاانتخاب کر نا ہو تا ہے۔مشرف صاحب پر الزام یہ ہے کہ انہوںنے 9/11کے بعد امریکہ کا ساتھ دیا۔اگر ان کی جگہ نوازشریف یاکوئی اور سیاسی حکمران ہوتا تو اس وقت کے حالات میں ،اس کے سواکوئی فیصلہ کرنا ممکن نہیں تھا۔مشرف صاحب پر یہ اعتراض تو ہو سکتا ہے کہ وہ امریکہ سے بہتر سودا بازی کر سکتے تھے۔انہیں کولن پاؤل کے فون کے جواب میں اپنے مطالبات پیش کرنے چاہئیں تھے۔واقعہ یہ ہے کہ سودا بازی بہترہو سکتی تھی مگر فیصلہ کوئی دوسرا ممکن نہیں تھا۔قومی مفاد کا تقاضا یہی تھا۔ 
یہ قومی راہنماؤں اور اہلِ دانش کا کام ہے کہ وہ قوم کو حقیقت پسند بنائیں۔انہیں سمجھائیں کہ اجتماعی فیصلے ہمیشہ اجتماعی مفاد اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر کیے جاتے ہیں۔غیرت ،خود کشی اور قومی مفاد جیسی اصطلاحوں کو درست تناظر میں سمجھنا چاہیے۔اس ضمن میں علامہ اقبال کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ان کی شاعری ہمیں ایک آئیڈیل کی تلاش پر ابھارتی ہے۔لیکن اس کے ساتھ، وہ جب موجود حالات میں کوئی مشورہ دیتے ہیں تو وہ حقیقت پسندی کا مظہر ہو تا ہے۔تقسیم ِ ہند مثالی نہیں ،ایک عملی حل تھا۔مثالی حل تو یہ تھا کہ پورے ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت ہو کیونکہ انگریزوں سے پہلے مسلمان ہی یہاں کے حکمران تھے۔اقبال مسلمانوں کوہندوستان کے ایک بڑے حصے سے دست برداری کا مشورہ دے رہے تھے۔
یہی معاملہ امتِ مسلمہ کا بھی تھا۔انہوں نے مسلمانوں کی مختلف قومی ریاستوں میں تقسیم کو قبول کیا اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنی اپنی ریاست کو مضبوط بنانے میں ساری توانائی صرف کریں۔اس کے بعد وہ چاہیں تو اقوامِ متحدہ کی طرز پر خود کو باہمی مفادات کے تحت ایک معاہدے کا حصہ بنالیں۔ یہ خلافت کے روائتی تصور سے صریحاً اعلانِ برأت تھا۔کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے سامراجی قوتوں کی تقسیم کو قبول کر لیا اور یہ مسلم غیرت کے خلاف تھا؟یہ دلچسپ بات ہے کہ آج بہت سے لوگ اقبال کے نام پر اسی تصور کو بیان کرتے رہتے ہیں اور مسلمانوں کوتلقین کرتے ہیں کہ وہ ان سرحدوں کا انکار کر دیں جو انگریز سامراج نے بنائی ہیں۔
ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ ہوا تو پاکستانی قیادت کے سامنے ایک سوال تھا: اس حادثے کے منفی نتائج سے پاکستان کو کس طرح محفوظ رکھا جا ئے؟ اس سوال کا جواب حق وباطل کی بنیاد پر نہیں،زمینی حقائق کی بنیاد پر ہو نا تھا۔پاکستان کے نظام ِ عدل کو سامنے رکھتے ہوئے ایک راستہ تلاش کیا گیا۔یہ تو طے تھا کہ ہمیں ریمنڈ کو چھوڑنا ہے۔سوال صرف یہ تھا کہ کیسے؟یہاں بھی یہ بحث ہو سکتی ہے کہ سودا بازی کیسے بہتر ہو سکتی تھی۔اس سے زیادہ کچھ نہیں۔پاکستان دہشت گردی کے عذاب سے نکل رہا ہے۔اسے اب تنکا تنکا جمع کر کے آشیاں بندی کر نی ہے۔اس کے لیے صبر اور حکمت کے ساتھ ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ایسے ہر موقع پر جذبات نگار میدان میں اترتے اور مثالی مملکت کا خواب دیکھنے اور دکھانے لگتے ہیں۔خلافت راشدہ سے یک طرفہ مثالیں تلاش کی جاتیں اور انہیں اپنے عہد پر منطبق کیا جا تا ہے۔ پھر نوحہ لکھا جا تا ہے کہ ہائے! ہمارے حکمران کیسے ہوگئے ۔نہ قومی غیرت ہے نہ مذہبی حمیت۔کہاں محمد بن قاسم اور کہاں یہ بدعنوان حکمران! 
مجھے عمران خان کی اس بات سے پورا اتفاق ہے کہ لوگوں کو ریمنڈ ڈیوس کی یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔تاہم میرا زاویہ نظر دوسرا ہے۔لوگوں کو کتاب یہ سمجھنے کے لیے پڑھنی چاہیے کہ جب کوئی قوم مادی اور اخلاقی اعتبار سے کمزور ہوتی ہے تو اسے وہ فیصلے کرنا پڑتے ہیں جو پسندیدہ نہیں ہوتے۔اس کتاب سے ہمیں یہ سیکھنا ہے کہ دنیا میں فیصلے حق و باطل کی بنیاد پر نہیں، قوت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔مادی قوت کے حصول کا ایک طریقہ ہے جو دنیا کی ہر قوم کے لیے ایک جیسا ہے۔یہ اللہ کی سنت ہے جو سب کے لیے ایک طرح سے روبعمل ہوتی ہے۔جذبات نگاری سے جذباتی تسکین کا سامان تو کیا جا سکتا ہے،قومی تعمیر نہیں ہو سکتی۔پاکستان کو ان لوگوں کی راہنمائی کی ضرورت ہے جو قوموں کے عروج و و زوال پر نظر رکھتے اور ان کی تاریخ سے وہ اصول کشید کرتے ہیں جوعروج کے لیے ضروری ہیں۔بدقسمتی سے اس وقت جو طرزِ عمل اختیار کیا جا رہا ہے اس سے داخلی سطح پر کرپشن ختم ہو سکتی ہے نہ خارجہ سطح پر قومی وقار ہی بحال ہو سکتا ہے۔
دست ہر نااہل بیمارت کند
سوئے مادر آ کہ تیمارت کند 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں