آج 5 جولائی 2017ء ہے۔ یہ مریم نواز صاحبہ کی عوامی سیاست کا پہلا دن ہے۔ حالات کے جبر نے آج انہیں عملی سیاست کے میدان میں لا کھڑا کیا ہے۔ چالیس سال پہلے، اسی تاریخ کو ایک حادثہ ہوا تھا۔ یہ حادثہ بے نظیر بھٹو کی عملی سیاست کا نقطہء آغاز بن گیا تھا۔ کیا معلوم آج کی تاریخ کے جلو میں کیا کیا ہنگامے اس قوم کے انتظار میں ہیں۔
محترمہ مریم ایک عرصہ سے متحرک ہیں۔ آج تک یہ حرکت وزارتِ عظمیٰ کی چھتری تلے ہو رہی تھی۔ اسے سیاست کہنا مشکل ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک دور میں بے نظیر صاحبہ کو وزیر اعظم بھٹو اپنے ساتھ رکھتے تھے، یہاں تک کہ شملہ بھی لے گئے۔ اسے تربیت کا ایک مرحلہ کہا جا سکتا ہے، عملی سیاست کا دور نہیں۔ بے نظیر کی سیاست کا آغاز اس دن ہوا جب ان کے والد، پابندِ سلاسل تھے اور حالات انہیں عوام میں لے آئے۔ مریم نواز کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ابھی وہ باپ کے زیرِ تربیت تھیں۔ ابھی شاید انہیں مزید صیقل ہونا تھا۔ آج مگر حالات نے انہیں جے آئی ٹی کے سامنے لا کھڑا کیا۔ یہ ان کی عوامی سیاست کا آغاز ہے۔ وقت کا انتخاب انہوں نے خود نہیں کیا، یہ حالات نے کیا ہے۔ اب ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ بھی حالات ہی کریں گے۔ وقت کی ڈور انسانوں کے ہاتھ میں نہیں ہوتی۔ اسے کوئی اور ہلاتا ہے۔
چند سال پہلے جب مریم نواز امورِ جہاں بانی میں دخیل ہوئیں تو اسے موروثی سیاست کہا گیا۔ اعتراضات کے اس غبار میں ان سے سرکاری منصب واپس لے لیا گیا۔ بحث مگر جاری رہی۔ میں مورورثی سیاست کے حق میں نہیں؛ تاہم میں اسے بھی غلط سمجھتا ہوں کہ سیاست دان کی اولاد میں سے کوئی سیاسی رجحان رکھتا ہے تو اس پر یہ دروازے اس لیے بند کر دیے جائیں کہ اس کا باپ سیاست میں ہے۔ نواز شریف صاحب کی نرینہ اولاد سیاست کا مزاج نہیں رکھتی۔ وہ سیاسی عمل سے الگ رہے اور اس عنوان سے کبھی زیرِ بحث بھی نہیں آئے۔ اتفاق سے بھٹو صاحب کی اولاد کا معاملہ بھی یہی تھا۔ صرف بے نظیر یہ رجحان رکھتی تھیں۔ مرتضیٰ نے کوشش کی مگر حالات نے بتایا کہ وہ اس صبر و حکمت سے عاری تھے جو سیاست کی ناگزیر ضرورت ہے۔ وہ سیاست میں آئے تو یہ محرومی انہیں ایک المناک انجام سے دوچار کر گئی۔
مریم نواز صاحبہ کو اگر سیاست میں آنا تھا تو اس کا فطری طریقہ یہ تھا کہ وہ ن لیگ میں بطور کارکن شامل ہوتیں اور تربیتی عمل سے گزرتیں۔ ایسا نہیں ہوا۔ نواز شریف صاحب نے انہیں اپنا غیر اعلانیہ جانشین بنایا اور یوں انہیں اسی نظر سے دیکھا گیا۔ اعتراضات بھی اسی وجہ سے ہوئے۔ لیکن آج کے بعد یہ بحث غیر متعلق ہو گئی ہے۔ جے آئی ٹی میں ان کی پیشی بتا رہی ہے کہ ان کا سیاسی کردار اب مسلّمہ ہے۔ نواز شریف صاحب کے مخالفین ان سے سیاسی طور پر خائف ہیں۔ وہ پرواز سے پہلے ہی ان کے پر کاٹنے کے درپے ہیں۔ اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ مریم نواز کو سیاست دان ان کے والد نے نہیں، والد کے سیاسی مخالفین اور حالات نے بنایا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے بے نظیر بھٹو کو وقت سے پہلے ضیاالحق نے لیڈر بنا دیا۔
عدالتوں میں قانونی عمل ہوتا ہے۔ سیاسی عمل اس کے تابع نہیں ہوتا۔ فیض صاحب نے کہا تھا 'جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے‘۔ شان کی سلامتی کا عمل مقتل سے باہر آگے بڑھتا ہے۔ گزشتہ ایک سال سے عدالت کے ایوانوں میں دلائل اور ریمارکس کا جو عمل جاری ہے، اس کے سیاسی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ انہیں کسی قانون کا پابند نہیں رکھا جا سکتا۔ اس عمل کا اپنا ایک فطری بہاؤ ہے۔ حکیم لوگ اس پر نظر رکھتے ہیں۔
ضیاالحق صاحب کے دور میں ایک عمل عدالتی ایوانوں میں جاری تھا۔ ایک سماجی اور سیاسی سطح پر۔ عدالتی عمل کے نتیجے میں بھٹو صاحب تختہ دار پر لٹک گئے۔ ضیاالحق صاحب اس کے نتیجے میں ان کے سیاسی کردار کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ وہ اس پر قادر نہ ہو سکے۔ عدالتیں ان کے کنٹرول میں ہو سکتی تھیں مگر سیاسی عمل نہیں۔ وہ بھٹو کی سیاست کو ختم نہ کر سکے۔ دنیا سے رخصت ہوئے تو چند دن کے بعد بھٹو کی بیٹی ملک کی وزیر اعظم تھی۔
مریم نواز صاحبہ کو آج کٹہرے میں کھڑا کیا جا رہا ہے۔ اس ایک قدم سے انہوں نے طویل سیاسی سفر طے کر لیا، بصورتِ دیگر جسے طے کرنے میں شاید کئی سال لگ جاتے۔ اب وہ لیڈر ہیں۔ یہ لیڈر انہیں نواز شریف نے نہیں، حالات نے بنایا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ غالباً جے آئی ٹی نے بنایا ہے۔ وہ خواہی نخواہی، سیاست کا موضوع ہیں۔ کوئی ان کے حق میں بات کرے گا اور کوئی ان کی مخالفت میں۔ ان کے مخالفین نے ان کے لیے وہ کام کر دیا جو نواز شریف خود نہ کر سکتے تھے۔
عدالتی عمل جس نہج پر آگے بڑھے گا، سیاست پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ مریم نواز کی جے آئی ٹی کے سامنے آمد باقی لوگوں سے مختلف سمجھی جا رہی ہے۔ اہلِ سیاست، میڈیا، حتیٰ کہ خود جے آئی ٹی کے ذمہ دار بھی اسے مختلف نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ جس طرح کے انتظامات آج کے دن کے لیے کیے جا رہے ہیں پہلے کبھی نہیں کیے گئے۔ گویا سارا نظام زبانِ حال سے یہ اعلان کر رہا ہے آج پیش ہونے والا دوسروں سے ممتاز ہے۔
میں سالوں سے یہ بات لکھ رہا ہوں کہ جب کسی فرد، خاندان یا گروہ کو سیاسی عصبیت حاصل ہو جائے تو اسے غیر سیاسی عمل سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ عصبیت نواز شریف صاحب کو حاصل ہو چکی۔ اب یہ اگلی نسل کو منتقل ہو رہی ہے۔ اسے سیاسی عمل ہی سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے مقتدر حلقے سیاسی حرکیات سے لاعلم ہیں۔ وہ پے در پے ناکام تجربات کے باوجود اب بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ ایک عدالتی فیصلے یا فوجی اقدام سے، کسی کی سیاست کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ فوجی اقدام ضیاالحق اور مشرف صاحب نے کرکے دیکھ لیا۔ عدالتی اقدام کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے۔ مشرف آٹھ سال طاقت کے زور پر مسلط رہے۔ اب یہ عالم ہے کہ ملک میں قدم نہیں رکھ سکتے۔ یہ ان کے اقدامات کے سیاسی نتائج ہیں جنہیں کنٹرول کرنا ان کے بس میں نہیں تھا۔
ان مقتدر حلقوں کو ہم نے انتہا پسندی سے نمٹتے بھی دیکھا ہے۔ یہاں بھی واضح تھا کہ وہ مذہب کی سماجی قوت اور اس کے نام پر ہونے والی سیاست کے مضمرات سے بے خبر ہیں۔ کشمیر کے جہاد کو مسلکی بنیادوں پر منظم کیا گیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں مسلکی تقسیم مزید گہری ہو گئی۔ اب یہ ڈور کچھ ایسے الجھی ہے کہ سلجھائے نہیں سلجھ رہی۔ یہی کچھ شریف خاندان کے معاملے میں ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ میرے خیال آنے والے دنوں میں حالات مزید پیچیدہ ہوں گے۔
آج پیپلز پارٹی اپنی سیاست کی بحالی کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ اسے یہ دن اس لیے دیکھنا پڑے کہ سیاسی عمل نے اسے مسترد کر دیا۔ بھارت میں اندرا گاندھی کا پوتا سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے لیکن ابھی تک اس کا مستقبل غیر یقینی ہے ۔یہ کہا جا رہا ہے کہ اگلے انتخابات میں بھی بی جے پی ہی جیتے گی۔ گاندھی خاندان کا یہ انجام کسی عدالتی عمل کے نتیجے میں نہیں، سیاسی عمل کے تسلسل کے باعث ہوا۔
آج سے پاکستان میں ایک نیا سیاسی عمل شروع ہو گیا ہے۔ جے آئی ٹی اس کا آغاز ہے، اختتام نہیں۔ ایک طویل عدالتی عمل اس کے بعد ہو گا۔ یہ جیسے جیسے آگے بڑھے گا، سیاسی عمل بھی نئی صورت اختیار کرتا جائے گا۔ 5 جولائی 2017ء پاکستانی سیاست کا ایک اہم دن ہے۔ یہ مریم نواز صاحبہ کی عوامی سیاست کا نقطہ آغاز ہے۔ 5 جولائی کو ہم آئندہ بھی یاد رکھیں گے مگر ایک نئے عنوان کے ساتھ۔