جے آئی ٹی کی رپورٹ نے ٹی وی سکرین پر ارتعاش پیدا کر دیا۔ کیا سطح زمین پر بھی اس زلزلے کے اثرات پائے جاتے ہیں؟ میرا احساس ہے کہ بہت کم۔
اس کا اندازہ ٹیلی وژن کی سکرین اور اخبارات کے صفحات سے کیا جا سکتا ہے۔ جو پہلے ہی یہ رائے رکھتے تھے کہ کرپشن اور شریف خاندان، سیاسی لغت کے مترادفات ہیں، یہ رپورٹ ان کے لیے نعمت غیر مترقبہ ہے۔ وہ اس رپورٹ کو اس طرح پیش کر رہے ہیں جیسے یہ ایک مقدس دستاویز ہے جو ان کی تائید میں آسمان سے نازل ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو اہلِ دانش نظامِ کائنات کو اسباب و علل کے تابع سمجھتے اور یوں کسی مشیتِ ایزدی کی کارفرمائی کے باب میں ہمیشہ متردد رہے، انہوں نے بھی اس رپورٹ میں خدا کی لاٹھی کو دیکھ لیا ہے۔ جو کام معجزے نہ کر سکے، ایک رپورٹ نے کر دکھایا۔
دوسری طرف وہ ہیں جو سالوں سے یہ موقف رکھتے ہیں کہ شریف خاندان کی لغت میںکسی ایسے لفظ کا گزر تک نہیں جنہیں اخلاقیات کی کتب میں ''رذائل‘‘ کے عنوان سے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ 'معصوم‘ نہ سہی 'محفوظ‘ ضرور ہیں۔ ان کی طرف کسی غلطی یا اخلاقی کمزوری کی نسبت کرتے وقت سو بار سوچنا چاہیے کہ کہیں نادانی میں کسی گناہ کبیرہ کے مرتکب نہ ہو جائیں۔ یہ رپورٹ اس طبقے کی رائے کو بھی متزلزل نہیں کر سکی۔ ان کا تمام تر اصرار رپورٹ کی سطور سے زیادہ بین السطور پر ہے۔ وہ اسے پڑھنے اور اس پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
میرا کہنا یہ ہے کہ عافیت اعتدال ہی میں ہے۔ ہم نے سطور کو پڑھنا ہے اور بین السطور کو بھی۔ متن (Text) کو دیکھنا ہے اور تناظر (Context) کو بھی۔ الہام کا باب بند ہو چکا۔ انسانوں کی کہی اور لکھی ہر بات کو اس پیمانے سے پرکھا اور پڑھا جانا چاہیے کہ انسان کی بات میں غلطی اور صحت دونوں احتمالات موجود ہوتے ہیں۔ ترجیح کا حق ہمیں حاصل ہے لیکن غلطی کے امکان کے ساتھ۔ کون، کب اور کہاں بے نقاب ہوتا ہے، اچھا ہے کہ ہم اس اختیار کو علیم بالذات الصدور ہی کے پاس رہنے دیں جو ہم سب کے پردے رکھتا ہے۔ رائے البتہ ہم دیتے ہیں اور یہ افراد سے زیادہ ان کے موقف اور آراء کے باب میں ہوتی ہیں۔
اس رپورٹ کی پرتیں کھل رہی ہیں۔ یہ اب نئی بحث کا عنوان ہے۔ اسی کی بنیاد پر عدالتی عمل آگے بڑھے گا۔ اسی سے سیاسی جماعتیں اپنی حکمتِ عملی کشید کریں گی۔ تجزیہ نگار بھی یہیں سے اپنے موقف کے لیے مواد لیں گی۔ میں بھی اسی کوشش میں ہوں۔ یہ چند نکات اسی سعی کا حاصل ہیں:
1۔ جے آئی ٹی اور شریف خاندان کو ایک ترازو میں نہیں تولا جا سکتا۔ ایک منصف ہے اور دوسرا ملزم۔ منصف کو پرکھنے کا اخلاقی معیار زیادہ کڑا ہے۔ اسے تعصبات اور شخصی پسند ناپسند سے بلند تر ہونا ہے۔ اس کا تعین رپورٹ سے ہو گا۔ اگر یہ تاثر مستحکم ہوتا ہے کہ ساری توجہ یک طرفہ دلائل جمع کرنے پر دی گئی تو تفتیش کا یہ سارا عمل مشتبہ ہو جائے گا۔ اس سے یہ تاثر لیا جا سکتا ہے کہ جے آئی ٹی کے پیشِ نظر انصاف نہیں تھا۔ اسے تو ایک خاندان کو مجرم ثابت کرنا تھا۔ اب حقیقت کیا ہے، اس کا فیصلہ عدالت میں ہو گا۔
2۔ یہ رپورٹ، اندازہ ہوتا ہے کہ چھ افراد کی محض ساٹھ دن کی سعی و جہد کا حاصل نہیں ہے۔ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر پیش کیں؟ یہ سوال نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ جے آئی ٹی کی رسائی مختلف ممالک کی ان دستاویزات تک کیسے ہوئی جنہیں متعلقہ ادارے ہوا تک نہیں لگنے دیتے؟ تاہم اس کی اہمیت تناظر (Context) کی تفہیم میں تو ہے، متن (Text) کی صحت میں نہیں۔ متن کا جائزہ تو سطورِ مرقوم اور تائید میں پیش کی گئیں دستاویزات سے ہو گا۔ یہ دستاویزات سامنے آ چکیں، قطع نظر اس کے کہ جائز ذریعے سے حاصل کی گئیں یا ناجائز طریقے سے۔ سوال یہ ہے کہ ان سے شریف خاندان پر لگائے گئے الزامات ثابت ہوتے ہیں یا نہیں؟
3۔ سازش اور امرِ واقعہ کا اجتماع امرِ محال نہیں ہے۔ سازش کے ثابت ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ الزامات لازماً غلط ہیں۔ اسی طرح الزامات کا صحیح ہونا بھی اس کی دلیل نہیں ہے کہ سازش نہیں ہوئی۔ یہ انسانوں کا معاشرہ ہے۔ اس میں کوئی غلطی سے پاک نہیں۔ کچھ لوگ اس پر مامور ہوتے ہیں کہ وہ افراد کے شب و روز اور سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ یہ ریکارڈ جمع کیا جاتا ہے اور پھر حسبِ ضرورت استعمال ہوتا ہے۔ اس میں کسی کمزور لمحے کا بھی ذکر ہو سکتا ہے جو انسانوں پر آتا ہے۔ پھر اس ریکارڈ میں حسبِ خواہش رد و بدل بھی کیا جا سکتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے خفیہ ادارے اہم عہدوں پر فائز لوگوں کا ریکارڈ مرتب کرتے ہیں۔ یہ لوگ سیاسی ہوتے ہیں اور غیر سیاسی بھی۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کام میں کس کس ادارے کو مہارت حاصل ہے۔
4۔ یہ معاملہ سازش اس وقت بنتا ہے جب کچھ لوگ سب کے ریکارڈ سے صرفِ نظر کرتے اور کسی ایک فرد یا خاندان کو ہدف بناتے ہیں۔ اس سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ضیاالحق صاحب نے اسی طرح کئی جلدوں پر مشتمل ایک قرطاسِ ابیض (White Paper) جاری کیا تھا۔ اس میں بھٹو صاحب کے دور کے واقعات، حکومتی ظلم اور کرپشن کی داستانیں جمع کی گئی تھیں۔ اس میں بہت سے واقعات اور شہادتوں کی تصدیق بھی ہوئی۔ اس کے باوجود سیاسی سطح پر یہ محنت بے اثر ثابت ہوئی۔ وجہ یہ تھی کہ اس دستاویز کی صحت ابتدا ہی میں مشتبہ ہو گئی تھی اور اسے بھٹو مخالف مہم کا ایک حصہ سمجھا گیا تھا۔
میں اکثر لکھتا ہوں کہ کسی فرد کو جب سیاسی عصبیت حاصل ہو جاتی ہے تو اس کے خلاف قانون بے اثر ہو جاتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے میں لوگوں کو مشکل پیش آتی ہے۔ سیاسی اور تاریخی عمل پر جن کی نگاہ ہے اور جو ابن خلدون کے تصورِ عصبیت کو جانتے ہیں ان کے لیے یہ بات قابل فہم ہے۔ یہ اب ثابت ہونا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کا انجام وہی ہوتا ہے جو ضیاالحق صاحب کے قرطاسِ ابیض کا ہوا یا اس سے مختلف۔ بطور جملہ معترضہ عرض ہے کہ جو لوگ بھٹو صاحب کو مالی کرپشن سے پاک خیال کرتے ہیں، وہ اس قرطاس کو ضرور پڑھ لیں۔
5۔ جے آئی ٹی متنازعہ ہو چکی۔ اب عدالت کو اس سے اپنا دامن بچانا ہے۔ عدالت کو یہ لازماً دیکھنا ہے کہ جو کام جے آئی ٹی کو سونپا گیا تھا، کیا وہ دیانت داری کے ساتھ کیا گیا؟ اگر اس سوال کا جواب نفی میں آتا ہے تو اس سے عدالت کی ساکھ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ البتہ اگر جے آئی ٹی پر اعتراضات سے صرفِ نظر ہوا تو اس سے ان لوگوں کو تقویت ملے گی جو عدالت کو فریق ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ عدالتیں کئی بار مختلف لوگوں کو مقدمات کو تفتیش سونپتیں اور پھر ان کی رپورٹس کو مسترد کرتی ہیں۔ اس سے عدالت کی ساکھ بہتر ہوتی ہے، کمزور نہیں۔
6۔نواز شریف صاحب کو استعفیٰ دینا چاہیے یا نہیں؟ یہ ایک سیاسی سوال ہے جس کا کوئی تعلق ان کے مجرم یا بے گناہ ہونے سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق سیاسی حکمتِ عملی سے ہے۔ اس سوال کا درست تناظر یہی ہے۔
7۔ پاناما لیکس کا مقدمہ ہر صورت میں ایک مثال بنے گا۔ اس میں جو اصول طے ہوں گے، لازم ہو گا کہ ان کا نفاذ سب پر یکساں ہو۔ اگر جسٹس افتخار چوہدری اور ان کے صاحب زادے کے معاملات کو ایک دوسرے سے منقطع کرنے کے بعد، پاناما کیس میں باپ بیٹے کو ایک لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے تو آنے والے دنوں میں یہ ایک مثال بنے گی۔ آئندہ بھی فیصلے اسی بنیاد پر کرنا پڑیں گے۔