سیاسی عمل کا اپنا ایک بہاؤ ہے۔اسی طرح سماجی تبدیلی کا بھی۔اہلِ دانش اس کاتجزیہ کرتے ہیں۔اسی کی کوشش ابنِ خلدون نے کی۔میکیاولی نے بھی۔ ان کے نتائج ِ فکر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ ہر دور کو کسی ابن ِخلدون کی ضرورت ہو تی ہے۔
مسلم تاریخ میں ابن خلدون منفرد کیوں ہیں؟مسلمانوںمیں تاریخ نگاری کی جو روایت پروان چڑھی،اس میں معروضیت نہیں ہے۔وقائع نگاری ہے ا وروہ بھی اہلِ اقتدار کے مفادات کے تابع۔انہیں اپنے اقتدار کے جواز کے لیے جہاں تاریخ سے دلیل چاہیے تھی وہاں،مذہب سے بھی۔یوں خلافت اور خلیفہ کی اس بحث نے جنم لیا جسے آج تک 'دین‘ کے طور پر پیش کیا جا تا ہے۔'خلیفہ‘ کے لیے ایک تاریخی اور مذہبی لبادہ تیار کیا گیا جو اس کے پیکرکے لیے موزوں ہو۔اہلِ علم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ مسلمان مفکرین کیوں کوئی پولیٹیکل تھیوری وضع نہیں کر سکے۔ڈاکٹر ممتاز احمد نے بھی اسے موضوع بنایا۔میرے نزدیک اس کا بڑا سبب اسی معروضیت کی کمی ہے۔ ابن خلدون نے اس روش سے انحراف کیا۔انہوں نے سیاسی عمل کوعلمِ تاریخ اور سماجیات کے اصولوں کے تحت سمجھا۔انہوں نے یہ بتایا کہ حکومتیں کیسے قائم ہوتیں اور قائم رہ سکتی ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ کیسے زوال پذیر ہوتیں اورکیسے قصہ ٔپارینہ بن جا تی ہیں۔
ابنِ خلدون کا تصورِعصبیت ایک عمرانی نظریہ ہے۔اس تصور کا اس تعصب سے کوئی تعلق نہیں ،ہمارا دین جس کو ناپسند کر تا ہے۔انہوں نے یہ سمجھایا ہے کہ ایک حکمران اپنی قوت کہاں سے حاصل کرتا ہے جو اس کے اقتدار کو استحکام دیتی ہے۔جدید لغت میں یہ قوت عوام سے آتی ہے۔تلواریا بندوق سے بالفعل اقتدار قائم ہو سکتاہے مگر وہ مستحکم نہیں ہو تا۔اگر ایسا ہوتا تو دنیا میں سامراجیت کبھی ختم نہ ہو تی۔مقبوضہ کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔بھارت کو ،صرف کشمیر کو ساتھ رکھنے کے لیے چھ لاکھ فوج چاہیے۔اسے اُتر پردیش میں اس کام کے لیے فوج کی ضرورت نہیں۔کشمیر اور اتر پردیش کا فرق یہ بتا رہا ہے کہ جب عوام کی تائید میسر ہو تو اقتدار کے استحکام کے لیے بندوق کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ماضی میں قبیلہ اس عصبیت کا مظہر تھا۔بڑے قبیلے کے سردارکا حقِ اقتدار فائق بھی تھا اور اس میں استحکام بھی زیادہ تھا۔اسی کو ایک روایت میں بیان کیا گیا کہ 'الآئمہ من القریش‘؛اہلِ اقتدار قریش میں سے ہوں گے۔جب مسلمانوں کااقتدار عثمانیوں کو منتقل ہو گیا تواس روایت کی بنیاد پر ان کے اس حق کی نفی کی گئی۔علما کو بتا نا پڑا کہ یہ روایت کسی دینی حکم کو نہیں، ایک عمرانی اصول کو بیان کر رہی ہے۔بعض نے اسے خبر کہا۔کوئی ا س بحث کو سمجھنا چاہے تو اس مو ضوع پرمو لانا احمد رضا خان ، مولاناابوالکلام آزاد اورمو لا نا مودودی کی تحریریں پڑھ لے۔
اسی بحث سے ان سوالات کے جواب بھی ملتے ہیں کہ حکومت دراصل کس مقصد کے لیے قائم ہو تی ہے؟حکمرانوں کا اصل وظیفہ کیا ہے؟کامیاب حکمرانی کے لیے عصبیت اہم ہے یا اخلاقی بر تری؟ہمارے ہاں جب لوگوں نے ان سوالات کونظریاتی پیراڈائم میں سمجھا تو حکمرانی کا ایک ایسا تصور وجود میں آیا جو سماجی حقائق اور سیاست کے فطری عمل سے متصادم تھا۔مسلمان ایک ایسے حکمران کی تلاش میں رہے جو ان کے اس نظریاتی سانچے کے مطابق ہو۔عملاً حکمران سماجی حقیقتوں کے زیرِ اثر بنتے ہیں۔اس تضاد کو دورکر تے کرتے مسلمان معاشرے الجھتے چلے گئے۔
آج جوبحث جاری ہے وہ اسی الجھاؤ کا نتیجہ ہے۔ لوگ نوازشریف کو اپنے نظریاتی پیراڈائم میں پرکھ رہے ہیں۔ وہ اس سوال پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں کہ ان کا مطلوب حکمران ایک سراب ہے۔نوازشریف کے بعد بھی وہ حکمران نہیں آ سکتا جس کی انہیں تلاش ہے۔وہ تاریخ میں بھی کبھی نہیں آیا۔مولانا مودودی نے بھی انہی خطوط پر سوچا ۔حکمران اور لیڈر کا ایک خاکہ اپنے نظریاتی فریم ورک میں تیار کیا۔ اس کے ساتھ یہ اعتراف بھی کیا کہ پوری تاریخ میں، خلافتِ راشدہ کے بعد، اس کا کوئی مصداق مو جود نہیں۔عمر بن عبدالعزیزبھی اس معیار تک نہ پہنچ سکے۔
لوگ مصلح اور محقق یا تجزیہ نگار کے کردارمیں فرق نہیں کرتے۔دونوں کے وظائف الگ ہیں۔مصلح کاکردار یہ ہے کہ وہ لوگوں کو یہ نصیحت کرے کہ ان کی اخلاقی ذمہ داری کیاہے۔تجزیہ نگارحالات کا تجزیہ کر کے کچھ نتائج اخذ کرتا اور لوگوں کو ان کی جانب متوجہ کرتا ہے۔میں اس ضمن میں مو لانا ظفر احمد انصاری کی مثال دینا چاہتا ہوں۔ایوب خان کے خلاف جب تحریک منظم ہو نے لگی تو وہ اس کے حق میں نہیں تھے۔اس کی وجہ ایوب خان یا آمریت سے ان کی محبت نہیں تھی۔ان کا خیال یہ تھا کہ ایوب خان کمزور ہو چکا اور اس کا جانا ٹھہر گیا ہے۔اس مرحلے پر اگر تحریک چلائی گئی توایک توانامارشل لا، ایک بوڑھے مارشل لا کی جگہ لے لے گا اوریہ سیاسی قوتوں کے لیے نیک شگون نہیں ہوگا۔انہوں نے یہ بات مولانا مو دودی سے بھی کی۔کسی نے مان کر نہیں دیا۔ پھر وہی ہوا، مو لانا انصاری نے جوخدشہ ظاہر کیا تھا۔
آج پھر ہمیں واقعات کو تاریخی سیاق و سباق میں دیکھنا ہے۔ان کا تجزیہ کر نا ہے۔نوازشریف صاحب کا اقتدار اگر ختم بھی ہو جا ئے تو اس سے ملک میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آئے گی۔اگر لوگوں کو اتنا یقین ہے کہ عوام کی اکثریت ان کے خلاف ہے تو چند ماہ کا انتظار کیا جا سکتا ہے۔اگر وہ ووٹ سے جائیں گے تو ان کا سیاسی مقدمہ بھی دم توڑ دے گا۔اگر اس میں عجلت پسندی کی گئی یا کسی غیر سیاسی حل کی طرف مراجعت کی گئی تویہ بات ریاستی اداروںاور ملک کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔
نوازشریف صاحب کو بھی ایک دن زوال کا شکار ہو نا ہے۔یہ زوال بھی ان عوامل کے تحت ہو گا جن کا اطلاق سب پر ہوتاہے۔ابن خلدون نے ان اسباب کو بیان کیا ہے اور تاریخ نے بڑی حد تک ان کی تصدیق کی ہے۔قدرت کے قوانین سے کسی کو اسثنا نہیں۔اس وقت لوگ ان کے اقتدار کو ختم کرنے کاکریڈٹ لینا چاہتے ہیں۔عمران خان کا خیال ہے کہ اگر وہ وقت سے پہلے چلے گئے تو اس 'کارنامے‘ کا سہرا ان کے سر بندھے گا۔یوں وہ اگلے انتخابات میں دولہا ہوں گے اورایک متبادل قیادت کے طور پر سامنے آئیں گے۔
نوازشریف صاحب کے پاس ایک ہی راستہ ہے۔وہ عدالتی فیصلے کا انتظار کریں ۔اگر وہ نااہل قرار پاتے ہیں تو اپنی مرضی کا قائدِایوان نامزد کرکے،انہیں براہ راست عوام سے مخاطب ہونا ہوگا۔اگلے عام انتخابات میں وہ بادشاہ گر کے طورپر سامنے آئیں گے۔پھر یہ طے ہو گا کہ عوامی عدالت ،عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کی توثیق کر تی ہے یا نہیں۔ اگرعدالت اس مقدمے کو تفتیش کے کسی طویل عمل کے حوالے کرتی ہے تواس میں بھی ان کا فائدہ ہے۔یہ بات عمران خان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوگی۔یہ پھران کی سیاسی بصیرت کی آزمائش کا مرحلہ ہو گا۔
اس سیاسی عمل کے ساتھ عوامی سطح پر بھی ارتقا کا ایک عمل جا ری ہے۔میرے سامنے ابھی تک کوئی ایسا مظہر نہیں آیا جو یہ بتاتا ہو کہ لوگوں کی سیاسی وابستگی میں جے آئی ٹی کی رپورٹ سے کوئی فرق پڑا ہے۔عدالتی فیصلے سے بھی نہیں پڑے گا،سوائے اس کے کہ کسی کو نفسیاتی طاقت مل جائے اور کوئی مضمحل ہو جا ئے۔نوازشریف صاحب کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ اس عصبیت کو متحرک کریں جو انہیں حاصل ہے۔یہ عصبیت مصنوعی طور پر کوئی نہیں چھین سکتا۔عمران خان کے لیے بھی بہتر یہی ہے کہ وہ اس مقدمے کو عوامی عدالت میں جانے دیں۔ان کے لیے بھی اقتدار تک پہنچنے کا کوئی راستہ انتخابات میں کامیابی کے سوا موجود نہیں۔اگر ان کی دلچسپی صرف نوازشریف کو اقتدار سے ہٹا نے تک ہے تو پھر دوسری بات ہے۔