آج نواز شریف اپنی زندگی کے ایک نئے سفر پر نکل رہے ہیں۔ کیا قوم جانتی ہے کہ اس کا مقصد کیا ہے؟ کیا عوام کو اُن کا ہم سفر ہونا چاہیے؟
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ میرا جواب ہے: عدم استحکام۔ اس کی وجہ بھی ہمارے سامنے ہے: طاقت کے مراکز میں تصادم۔ جب تک یہ تصادم باقی ہے، پاکستان مسائل کی آماجگاہ بنا رہے گا۔ پاکستان کی تاریخ کے ہر ورق پر جلی حروف میں یہی لکھا ہے۔ ہمارا ہر بحران اسی تصادم کی کوکھ سے پیدا ہوا ہے۔ یہ عیاری ہو سکتی ہے اور سادہ لوحی بھی کہ لوگوں کا دھیان اس جانب نہیں جانے دیا گیا۔ کبھی اس قوم کو باور کرایا گیا کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اسلام کا عدم نفاذ ہے۔ آج یہ سکھایا جا رہا ہے کہ کرپشن پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ سب مسائل اپنی جگہ، ام المسائل مگر اداروں میں تصادم ہے۔ جب تک باقی ہے، پاکستان میں استحکام نہیں آ سکتا۔ عدم استحکام اس تصادم کا نتیجہ ہے اور کرپشن عدم استحکام کا نتیجہ۔
انسان کا تہذیبی سفر صدیوں پر محیط ہے۔ یہ اقتدار کے باب میں تین طریقے ہی دریافت کر سکا ہے: کوئی آسمان سے پروانہ لے آئے اور یوں اس کا اقتدار ثابت ہو جائے۔ پاپائیت اسی کا نام ہے۔ دوسرا طریقہ تلوار اور بندوق ہے۔ جس کے پاس دست و بازو اور تلواریں زیادہ ہیں، وہی یہ اختیار رکھتا ہے کہ اقتدار پر قابض ہو جائے۔ تیسرا طریقہ جمہوریت ہے۔ عوام کی اکثریت جس کے ساتھ کھڑی ہو جائے، وہی صاحبِ اقتدار ہے۔
پاپائیت اور شخصی حکمرانی، بادشاہت اور آمریت جس کے مظاہر ہیں، مطلق العنانی ہے۔ اس میں شرکتِ اقتدار کا تصور نہیں۔ مذہبی پیشوا اور حکمران ہی قادرِ مطلق ہیں۔ کوئی ان کے فیصلے کو چیلنج کر سکتا ہے اور نہ تبدیل۔ جمہوریت میں اقتدار منقسم ہوتا ہے۔ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ۔ تاہم ہر نظم کے لیے یہ لازم ہے کہ کسی فرد یا ادارے کو یک گونہ برتر حیثیت حاصل ہو تاکہ جب کوئی نزاع پیدا ہو تو اس کے پاس آخری فیصلے کا اختیار ہو۔ یوں نظمِ اجتماعی کا تسلسل برقرا رہے اور سماج کسی انتشار میں مبتلا نہ ہو۔ معاشرے کو فساد سے بچانا ایک حکومت کا بنیادی وظیفہ ہے۔ دیگر وظائف ضمنی ہیں۔ انسان کے اجتماعی شعور نے پاپائیت اور بادشاہت و آمریت کو مسترد کر دیا۔ اب ان کے مظاہر صرف ان معاشروں میں پائے جاتے ہیں جو تہذیبی طور پر پسماندہ ہیں۔
پارلیمانی جمہوریت میں آخری فیصلے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے۔ جمہوریت کا تصور عوام کے اقتدار سے پھوٹا ہے اور چونکہ پارلیمنٹ عوامی قوت کا اظہار ہے، اس لیے بدیہی طور پر اقتدار کے معاملات میں فیصلہ کن برتری پارلیمان ہی کی ہو سکتی ہے۔ وہی یہ اختیار رکھتی ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی بنائے۔ اسی کا استحقاق ہے کہ دفاعی پالیسی طے کرے گا۔ اسی کا فریضہ ہے کہ لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کرے۔ دیگر ریاستی ادارے قانوناً پابند ہیں کہ پارلیمان کے فیصلوں کو قبول کرتے ہوئے، ان کے نفاذ میں پارلیمان کے معاون بنیں۔
کوئی شخص وزیر اعظم بن سکتا ہے نہ وزیر اگر وہ پارلیمنٹ کا حصہ نہیں۔ پارلیمان یہ حق اکثریتی جماعت کو دیتی ہے کہ وہ حکومت بنائے۔ پارلیمنٹ کی منظوری سے یہ حقِ اقتدار ایک وزیر اعظم اور اس کی کابینہ کو منتقل ہو جاتا ہے۔ پاکستان کا آئینی انتظام اسی تصور پر مبنی ہے مگر عملاً ایسا نہیں ہے۔ اب یہ کھلا راز ہے کہ خارجہ پالیسی کہیں اور بنتی ہے۔ دفاع کے معاملات کہیں اور طے ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم ایک ہمسایہ ملک کے وزیر اعظم کو پاکستان آنے کی دعوت دیتا تو اس کے خلاف عوام کے ایک طبقے کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا جاتا ہے۔ فوج کا سربراہ کارگل پر معرکہ آرائی کا فیصلہ کرتا ہے اور ملک کے وزیر اعظم کو بتانا ضروری نہیں سمجھتا۔ کوئی ریاست اس طرح نہیں چل سکتی جس میں اداروں کے مابین مشاورت نہ ہو اور بنیادی فیصلوں میں کسی کو فیصلہ کن حیثیت حاصل نہ ہو۔
بھارت کو ساری دنیا ایک مستحکم ملک سمجھتی ہے۔ اس کی معیشت کو قابلِ بھروسہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ سفارتی اور تجارتی معاہدے کرتے وقت، لوگوں کو تکلف نہیں ہوتا۔ ان گنت مذہبی و سماجی تضادات کے باوجود، بھارت کو سیاسی عدم استحکام کا خطرہ لاحق نہیں۔ بھارت میں کرپشن پاکستان سے زیادہ ہے، اس کے باوجود اس کی معیشت مسلسل بہتری کی سمت میں گامزن ہے۔ بھارت کے زیرِ کنٹرول کئی علاقے‘ جن میں مقبوضہ کشمیر بھی شامل ہے، مستقل اضطراب کی لپیٹ میں ہیں۔ ان علاقوں میں بھارت کے لاکھوں فوجی مسلسل حالتِ جنگ میں ہیں۔اس سب کچھ کے باوجود بھارت آگے بڑھ رہا ہے۔
دوسری طرف پاکستان ہے جہاں بے یقینی کے بادل مسلسل منڈلاتے رہتے ہیں۔ چند سال اطمینان کے نہیں گزرتے۔ ہمارے داخلی تضادات بھارت سے کہیں کم ہیں۔ اِس وقت پاکستان کا کوئی علاقہ ایسا نہیں‘ جہاں ریاست کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے فوج کی ضرورت ہو۔ وزیرستان میں ایک وقت ایسا آیا تھا مگر آج فوج وہاں سے واپس آچکی۔ مسائل زیادہ ہونے کے باوجود، بھارت پاکستان کے مقابلے میں زیادہ مستحکم کیوں ہے؟ دنیا اس پر زیادہ اعتبارکیوں کرتی ہے؟ اس کی صرف ایک وجہ ہے: سیاسی استحکام۔ پاکستان میں طاقت کے مراکز باہم متصادم ہیں۔ بھارت میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی ادارہ وزیر اعظم یا پارلیمان کی طاقت کو چیلنج کر سکے۔ وزیراعظم نے 1960ء کی دھائی میں ایک فیصلہ کن تقریر کی اور اس کے بعد آج تک، کسی ریاستی ادارے نے سوچا نہیں کہ وزیر اعظم کے مقابلے میںکھڑا ہو۔
یہی بات آج قوم کو سمجھنی ہے کہ اس کا سب سے بڑا مسئلہ اداروں میں تصادم ہے۔ قوم نے یہ طے کرنا ہے کہ ریاستی امور میں آخری فیصلے کا اختیار عوام کے منتخب وزیر اعظم کو حاصل ہے۔ وزیر اعظم اگر عوامی توقعات پر پورا نہیں اترتا تو اسے منصب سے الگ کرنے کا حق بھی عوام ہی کو ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وزیر اعظم قانون سے ماورا ہے۔ وہ اگر کسی جرم میں ملوث پایا گیا ہے تو اس کے خلاف بھی قانون متحرک ہوگا؛ تاہم لازم ہے کہ یہ قانونی عمل غیر مشتبہ ہو۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں اداروں میں تصادم ہو اور کوئی اپنی آئینی حدود کی پابندی پر آمادہ نہ ہو، قانون کا استعمال غیر معمولی احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔ متنازع فیصلوں کے ساتھ منتخب وزیراعظم کی علیحدگی ایک نئے اضطراب کو جنم دیتی ہے جو اداروں میں تصادم کے پس منظر میں، عدم استحکام کا باعث بنتی ہے۔ نتیجتاً وہ ادارے بھی متنازع ہو جاتے ہیں جو ریاستی بقا کے ضامن ہیں۔
آج نوازشریف قوم کو یہ بتانے کے لیے نکلے ہیں کہ اس ملک کا اصل مسئلہ اداروں میں تصادم ہے۔ اسی سے عدم استحکام پیدا ہوتا ہے اور عدم استحکام کرپشن جیسی سماجی برائیوں کی جڑ ہے۔ اداروں میں تصادم کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ آئین اور پارلیمانی جمہوریت کی روح کے مطابق سول بالادستی کو قبول کیا جائے۔ اگر پاکستان کو ترقی کر نی ہے تو ناگزیر ہے کہ اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کیا جائے۔
میرا تاثر ہے کہ آج نواز شریف اداروں میں تصادم کے لیے نہیں، تصادم کے خاتمے کے لیے نکلے ہیں۔ یہ عام نہیں، ایک نظریاتی سفر ہے۔ اس کی حیثیت ایک ریفرنڈم کی ہے۔ جو طاقت کے مراکز میں تصادم کا مستقل حل چاہتے ہیں تاکہ پاکستان مستحکم ہو، وہ یقیناً ان کا ساتھ دیں گے۔ اگر آج ملک کے عوام ان کے ہم سفر ہوتے ہیں تو اس کے نتیجے میں وہ وزیر اعظم نہیں بنیں گے۔ تاہم یہ فیصلہ ہو جائے گا کہ پاکستان کے عوام کیا چاہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس سفر میں تما م سیاسی جماعتوں کو ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ رہا کسی فرد یا جماعت کاحقِ اقتدار تو اس کا فیصلہ 2018ء کے انتخابات میں ہوگا۔
اگر قوم ایک بااختیار وزیراعظم چاہتی ہے تو وہ آج نوازشریف کی ہم سفر ہو گی۔ اس کے نتیجے میں انشااللہ پاکستان مضبوط ہوگااور افواجِ پاکستان سمیت تمام ادارے مضبوط ہوںگے۔ گھر محفوظ ہو تو سب اہلِ خانہ محفوظ ہوتے ہیں۔گھر اسی وقت مضبوط اور محفوظ ہوتے ہیں جب کسی ایک فرد کوسربراہِ خانہ تسلیم کرلیا جائے۔